برسوں پرانی بات ہے۔ چند لوگ مسجد میں نکاح کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت مسجد میں نکاح کا ایسا رجحان نہیں تھا، جیسا اب ہو چلا ہے۔ بعض شہروں میں تو یہ تک اعلان کر دیا گیا ہے کہ شہر کے علماء اسی عقدِ نکاح میں ایجاب وقبول کرائیں گے جو مسجد میں انجام پائے گا۔ مسجد میں سچا سنوار کر دلہن کو بھی لایا گیا۔ مسجد کے باہری دروازے سے اندرونی دروازے تک کا فاصلہ تقریباً پچاس قدم تھا۔ دلہن کے آگے کیمرہ مین اس کے ایک ایک قدم اور ایک ایک حرکت کو اسکرین پر ریکارڈ کر رہا تھا۔ دلہن اپنی تمام عروسی زیب وزینت کے ساتھ کیمرہ مین کے حکم ’ایکشن‘ کی تقلید کرتی ہوئی مسجد کی طرف خراماں خراماں بڑھ رہی تھی۔ مصلیان مسجد محو حیرت ہو کر اس عجیب و غریب شوٹنگ کا مشاہدہ کر رہےتھے۔ لیکن یہ سب جائز تھا، کیوں کہ نکاح مسجد میں ہونا تھا۔
رشتہ طے پانے سے لے کر عمل نکاح تک انجام پانے والی تمام خرافاتوں کے بعد عین شادی کے دن اعلان ہوا کہ نکاح مسجد میں ہی ہوگا۔ تقریباً ایک ہزار کا مجمع تھا، لیکن ظاہر بات ہے اس اعلان پر چند لوگوں کو ہی حرکت میں آنا تھا۔ محض ایک چھوہارے کے لیے ایک وقت کی نماز کا بوجھ سر پر لینا اکثریت کے لیے ایک مشکل سودا جو تھا۔ چنانچہ گنے چنے چند لوگ مسجد پہنچے نکاح پڑھوا کر واپس بارات گھر چلے آئے۔ وہاں نکاح خواں نے مسجد میں نکاح کی فضیلت بیان کرنے کے باوجود اپنا نذرانہ وصول کرنے کے لیے جو نخرے دکھائے ان کا ذکر کیا کرنا۔ کیوں کہ یہی کافی ہے کہ نکاح میں مسجد میں ہو گیا ہے۔
امت مسلمہ (بالخصوص برصغیر ہند و پاک) کا عظیم المیہ یہ بھی ہے کہ سماج کے کسی پہلو کی اصلاح کے لیے کوئی لہر اٹھتی ہے تو انتہائی خاموشی سے وہ لہر اسی رخ پر چل پڑتی ہے جس رخ سے اسے ہٹانا مقصود ہے۔ پرانی لکیر مٹانے کی بجائے ایک نئی لکیر اس خوبصورتی سے کھینچ دی جاتی ہے کہ پرانی لکیر اپنی جگہ قائم رہتے ہوئے بھی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور اصلاح کا ڈنکا بھی پوری آب و تاب سے بجتا رہتا ہے۔ اس معاملے میں صورت حال بعینہ وہی ہے جو کسی بستی کے افراد نے خلال کے تنکے کو بھاری بھرکم ڈنڈا بنا دینے میں اختیار کر لی تھی۔ کہتے ہیں کسی بستی میں ایک اجنبی شخص پہنچا تو بھوک سے بے حال وپریشان تھا۔ ایک صاحب نے انھیں اپنے گھر کھانے کی پیش کش کی۔ کھانا سامنے لا کر رکھا گیا تو ساتھ ایک موٹا سا ڈنڈا بھی رکھ دیا گیا۔ اجنبی ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ اس نے گھبرا کر پوچھا کہ یہ ڈنڈا کس لیے رکھا گیا ہے؟ اہلِ خانہ نے نرمی کے ساتھ عرض کیا کہ ڈریں نہیں اور سکون واطمینان سے کھانا تناول فرمائیں۔ یہ تو بس آباء واجداد کی روایت ہے کہ مہمان کے سامنے کھانے کے ساتھ یہ ڈنڈا بھی رکھا جاتا ہے، مقصد تو ہمیں بھی نہیں معلوم! اس نے اس کی حقیقت جاننے کی ٹھانی اور معلوم کیا کہ کوئی بزرگ ترین شخص اس شہر میں ہو تو اس سے اس ڈنڈے کا راز سامنے آ سکتا ہے۔ تلاش کرنے پر ایک بزرگ ترین شخص دریافت ہوئے جو درازی عمر کی وجہ سے تقریباً معذور تھے۔ ان کے سامنے مسئلہ رکھا گیا تو انھیں بھی اس پر حیرت ہوئی اور دسترخوان پر ڈنڈے کی حکمت سمجھنے سے قاصر رہے۔ کھود کرید کے بعد انھوں نے ذہن پر زور ڈالا تو کہا کہ ہمارے بچپن میں ایک روایت یہ تو موجود تھی کہ مہمان کے سامنے نیم کی چند سینکیں رکھی جاتی تھیں تاکہ مہمان کھانے کے بعد خلال کے طور پر استعمال کر سکے۔ لگتا ہے وہی سینک اب فربہ ہو کر ڈنڈے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
ادھر طویل عرصے سے امت کے بہی خواہوں نے قول و عمل کے ذریعے سے یہ لہر برپا کی کہ نکاح میں سادگی (بے جا خرافات و رسوم کا ترک) اختیار کی جائے۔ لیکن جلد ہی یہ لہر ’’نکاح میں سادگی‘‘ اختیار کرنے کی جگہ ’’مسجد میں نکاح‘‘ کی شکل اختیار کر گئی۔ تمام خرافات کو نظر انداز کرکے ’مسجد میں نکاح‘ کے التزام نے ایک عجیب صورت بھی ایجاد کر لی ہے۔ شہر یا بستی سے دور دراز کسی فارم ہاؤس میں شادی ہونی ہے۔ آس پاس کہیں مسجد نہیں۔ لیکن نکاح تو مسجد میں ہی ہونا ہے۔ اب کیا کیا جائے۔ چنانچہ فارم ہاؤس کے ایک کونے میں ٹینٹ کی ہی ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی گئی اور یوں بحسن و خوبی مسجد میں نکاح کا عمل طے پا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ مسجد میں نکاح زمین کے کسی بھی خطے میں نکاح سے زیادہ بابرکت ہوگا۔ لیکن صرف مسجد میں نکاح ہی کیوں، نکاح میں سادگی (خرافات و بے جا رسوم کا ترک) کیوں نہیں؟
نکاح اور شادی کی رسوم و تقریبات میں اصلاح کے نام پر ‘صرف مسجد میں نکاح‘ کی جو تبدیلی واقع ہوئی ہے وہ محض ایک رسم بن گئی ہے یا عن قریب ایک رسم بن کر رہ جائے گی، بالکل اسی طرح جس طرح نکاح کے وقت لازمی طور پر دولہے سے دو رکعت نفل پڑھوانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، خواہ اس کے بعد وہ کبھی نماز نہ پڑھے یا پہلے بھی نہ پڑھتا رہا ہو۔ یا جس طرح بعض علاقوں اور شہروں میں لازمی طور پر دولہے کو کسی مزار کی زیارت کرائی جاتی ہے اور حصول برکت کے لیے اسے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ چند لوگ دولہے کے ساتھ مسجد میں آتے ہیں، نکاح پڑھا کر واپس بارات گھر لے جاتے ہیں اور جملہ خرافات و بے جا کارروائیاں پورے اہتمام سے انجام دی جاتی ہیں۔ گویا مسجد میں نکاح ہوجانے کے بعد باقی تمام امور تقریبات جائز و درست ہو چکے ہیں۔ اس معاملے میں اور دیگر سماجی امور میں امت کا یہ رجحان انتہائی نقصان دہ اور سماجی حالات کو مزید خراب کرنے والا ہے، نہ کہ بہتر بنانے والا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ضرورت مسجد میں نکاح کو رواج دینے کی نہیں، نکاح اور شادی کی تقریبات میں اختیار کی جانے والی بے جا خرافات اور لین دین کو ترک کرنے کی ہے، ورنہ نکاح مسجد میں ہو یا منڈپ میں، کیا فرق پڑتا ہے؟!