Home خاص کالم مرحوم عبدالرحمن صدیقی کی آخری ہنسی ! ۔شکیل رشید

مرحوم عبدالرحمن صدیقی کی آخری ہنسی ! ۔شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)

ایک ہنسی اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ممکن ہے ؟
اس سوال کا جواب مجھے جمعہ کے دن اپنے ساتھی ، دوست اور ایک بہترین صحافی عبدالرحمان صدیقی کی موت سے مل گیا ۔ اُس روز میں مرحوم کی آمد سے کچھ پہلے ہی دفتر پہنچ گیا تھا ، بیٹھا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی، دوسری جانب مرحوم عبدالرحمان صدیقی تھے ، کہنے لگے ، ’ کہاں ہو ؟‘ میں نے جواب دیا کہ دفتر ہوں ۔ آواز آئی ، ’ میں تھوڑی ہی دیر میں پہنچ رہا ہوں ، اگر کوئی شور غل مچائے تو اُسے خبریں دے دینا ‘۔ میں نے مذاقاً کہا ’ تسنیم ( پیج میکر ) شور مچا رہی ہے کہ ابھی تک عالمی خبریں نہیں ملیں ‘، دوسری طرف سے ہنستے ہوئے کہا ،’ ہاں شور سُنائی تو دے رہا ہے ۔‘ بس یہ اُن کا اپنے اخبار کے کسی ساتھی سے کہا گیا آخری جملہ تھا، ہنسی کے ساتھ ۔ یہ فون ۵ بج کر ۵۸ منٹ پر آیا تھا ، گفتگو ۳۵ سیکنڈ تک چلی ، اور ٹھیک ۶ بج کر ۱۶ منٹ پر پھر موبائل کی گھنٹی بجی ، ڈسپلے پر مرحوم کا ہی نام چمک رہا تھا ، لیکن بات کرنے پر آواز اُن کی نہیں تھی ، ’ہندستان ‘ اخبار میں کام کرنے والے ایک جرنلسٹ شیراز کی تھی ، وہ کہہ رہے تھے کہ عبدالرحمان صدیقی کی طبیعت اچانک بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے ، کیا ان کے بیٹے کا کوئی فون نمبر ہے ۔ میں کچھ دیر سکتہ کی سی کیفیت میں تھا کہ ابھی ابھی تو چند منٹ پہلے ہی میری اُن سے بات ہوئی ہے ! لیکن پھر ’ ممبئی اردو نیوز ‘ کے مالکان میں سے امتیاز احمد نے مجھے اطلاع دی کہ ،’ رحمان صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ہے ، میں نے دفتر سے لوگوں کو بھیجا ہے ، دعا کریں ۔‘ لیکن کوئی دعا کارگر نہ ہوئی ، ڈاکٹر نے ہمارے ساتھی ، دوست اور اردو دنیا کے انتہائی سنجیدہ و مخلص صحافی کی موت کی تصدیق کر دی ۔ یقین نہیں آیا ، لیکن کسی کے یقین آنے نہ آنے سے کسی کی موت اور زندگی کا فیصلہ نہیں ہوتا ، یہ فیصلہ تو اللہ رب العزت کا ہے ، وہ جب جسے چاہے بلا لے ، کون ہے اس کے فیصلے کے آڑے آنے والا ! بعد میں پتہ چلا کہ مجھ سے فون پر بات کرکے مرحوم بیت الخلاءچلے گئے تھے ، واپس آئے اور شیراز کے بغل میں بیٹھ کر کوئی مضمون ڈکٹیٹ کرانے لگے کہ اچانک ان کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر گر پڑا ، اور ان کے بدن کا سارا بوجھ کمپیوٹر آپریٹر پر آ پڑا ۔ وہ بے ہوش ہو چکے تھے ، انہیں ہوش میں لانے کی کوئی کوشش کام نہیں آئی ۔ شاید وہ جب بے ہوش ہوئے تھے اور کرسی سے لڑھک کر شیراز پر اوندھ گئے تھے تب ہی ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی تھی ۔ مرحوم سے میرا تعلق ۱۹۸۴ ء سے تھا ، وہ ۱۹۸۲ ء میں صحافت کے پیشہ سے وابستہ ہوئے تھے ، میں نے یہ پیشہ ۱۹۸۴ ء میں اختیار کیا تھا ۔ یہ ساتھ بہت لمبا چلا ۔ درمیان میں مرحوم ممبئی چھوڑ کر کانپور چلے گئے تھے، لیکن ۲۰۰۲ ء میں واپس آگئے تھے ۔ اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے تھے ۔ کانپور سے رشتہ ٹوٹا نہیں تھا ، لیکن وہاں اب جانا کم ہی ہوتا تھا ۔ یادوں کا ایک جہان ہے ، کہاں سے شروع کروں سمجھ میں نہیں آ رہا ہے ۔ ہم دونوں کے ساتھ ایک قدرِ مشترک تھی ’ متعدد اخبارات میں کام کرنا ۔‘ انہیں جب ’ اردو ٹائمز ‘ میں ملازمت ملی تھی تب انہیں قدرے سکون میسر آیا تھا ، اس کے بعد وہ ’ ممبئی اردو نیوز ‘ چلے آئے تھے ۔ اور آخری سانس تک اسی اخبار سے وابستہ رہے ۔ یہ سچ ہے کہ وہ ساری زندگی پریشان رہے ، لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ وہ پریشانیوں کو کبھی اپنے سر پر سوار ہونے نہیں دیتے تھے ۔ لیکن حالیہ دنوں میں ان کی پریشانی نظر آتی تھی ۔ انہیں کیا غم تھا شاید اب کسی کو اس کا پتہ نہیں چل سکے گا ، بس قیاس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ مجھے ان کی سنجیدہ باتیں ، سنجیدگی سے کیے جانے والے مذاق ، ان کے لطیفے ، کتابوں پر ان کے تبصرے ، فلموں اور مختلف فنون پر ان کی گرفت ، مذہبی معلومات ، سیاسی امور پر ان کے تجزیے یاد رہیں گے ۔ مرحوم کے ساتھ کیے گئے اسفار کبھی نہیں بھولیں گے ۔ لیکن سب سے زیادہ یاد مرحوم کی اُس آخری ہنسی کی رہے گی جو میں نے موبائل پر سُنی تھی ، اور ان کے اس جملے کی کہ ، ’ میں تھوڑی ہی دیر میں پہنچ رہا ہوں ۔‘ نہ انہیں پتہ تھا کہ وہ تھوڑی دیر میں اس دنیا ہی میں نہیں ہوں گے اور نہ ہی مجھے خبر تھی کہ میں ان کی آخری ہنسی سُن رہا ہوں ؛ یہی زندگی ہے! اللہ رب العزت مرحوم عبدالرحمان صدیقی کو کروٹ کروٹ جنت دے اور ان کے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ؛ آمین ۔

You may also like