Home نقدوتبصرہ صدیق عالم کا ’ مرگِ دوام ‘ : وجود کی پرتیں ادھیڑتا ناول !- شکیل رشید

صدیق عالم کا ’ مرگِ دوام ‘ : وجود کی پرتیں ادھیڑتا ناول !- شکیل رشید

by قندیل

صدیق عالم کے نئے ناول ’ مرگِ دوام ‘ کا موضوع موت ہے ، لہذا اگر اسے موت کی کتاب کہا جاے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ لیکن یہ کوئی عام سی موت کی کتاب نہیں ہے ۔ یہ ایک الگ طرح کی موت کی کتاب ہے ، اسی لیے اس میں موت کا روپ الگ رنگ کا ہے ۔ لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے اس کے ابتدائیہ کی بات کر لیں ۔ میں نے اب تک جتنے اردو ناول پڑھے ہیں ، اس ابتدائیے کو ان سب ناولوں کے بہترین ابتدائیوں کے مقابلے رکھا جا سکتا ہے ! آئیں ابتدائیہ پر ایک نظر ڈال لیں : ’’ اس سے اب تک میری تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں ، مگر آج بھی اگر وہ میرے سامنے آ جائے تو میں شاید ہی اسے پہچان پاؤں ‘‘۔ پچیس لفظوں پر مشتمل ، اس تجسس میں ڈالنے والے ابتدائیے کے بعد ، پہلے باب کے ضمنی باب نمبر دو سے ابتدائیہ کچھ مزید کھُلتا ہے : ’’ اس سے میری پہلی ملاقات آفس کے پیشاب خانے میں ہوئی تھی ، ایک ایسا پیشاب خانہ جہاں پیشاب کی سڑاند سے انسان کی برسوں سے سوئی ہوئی ناک جاگ جاے ‘‘۔ اس باب میں آگے ناول کے دو کلیدی کردار سامنے آتے ہیں ؛ بے نام راوی جو ایک سرکاری دفتر میں افسر ہے ، اور ایک گمنام پراسرار شخص جو راوی کو بس چند ہی بار نظر آتا ہے لیکن اس کے ذہن میں ایک خلش ، بے چینی یا اضطراب کی کیفیت چھوڑ جاتا ہے ۔ راوی اسے سامنے سے دیکھنے کا خواہاں ہے ، مگر نہیں دیکھ پاتا : ’’ اس وقت مجھے اپنا کام نپٹا کر نکل جانا چاہیے تھا مگر جانے کیوں میرے اندر اس کے چہرے کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہو گئی – آخر یہ چہرے ہی تو ہیں جو ہم انسانوں کی پہچان بناتے ہیں ‘‘۔ پراسرار اجنبی کو نہ دیکھ پانا بھلے راوی کے دماغ پر چھایا ہو ، اس کی دوست گندھارا کی نظر میں یہ راوی کی فینٹسی ہے ، ایک تصور بس ۔ اسی لیے وہ کہتی ہے : ’’ میرا خیال ہے وہ تمہارے تخیل کی ایجاد ہے ‘‘۔ راوی ، پراسرار اجنبی اور گندھارا یہ ’ مرگِ دوام ‘ کے پہلے باب کے تین کردار ہیں جو اپنی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور قاری یا قارئین کو ناول کے بہاو کے ساتھ لیے لیے پھرتے ہیں ۔ ابتدائیہ سے ناول کے مزاج اور انداز کا اشارہ بھی سامنے آجاتا ہے کہ ، ایک پیشاب خانے جیسی سڑاند مارتی دنیا سے سامنا پڑنے والا ہے ، لیکن یہ دنیا مایوس نہیں کرے گی ، کیونکہ اس دنیا میں ایک پُراسرار اجنبی بھی ہے ، ایک ایسا اجنبی جو پہلے باب میں سامنے نہیں آتا لیکن بعد کے ابواب میں اسے سامنے آنا ہی ہوگا ! کون ہے یہ اجنبی ؟ اور کس انجام کو پہنچے گی راوی اور گندھارا کی کہانی ؟ یہ دو بنیادی سوال ہیں جو قاری کو مطالعے کی طرف راغب کرتے ہیں ، اور پھر قاری بھلے ناول کے سحر میں نہ گرفتار ہو ، خود کو ناول کے بیانیے کے جکڑ سے چھڑا نہیں پاتا ۔
ناول کے بیانیہ کو صدیق عالم کے ناول کی خوبی بھی کہا جا سکتا ہے ، اور خامی بھی ۔ میرے ایک دوست نے اس ناول کو بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تھا ، لیکن نصف پڑھنے کے بعد ، اس کے بیانیے سے گھبرا کر ، ناول بند کر کے رکھ دیا ، مگر اس عزم کے ساتھ کہ وہ اسے کچھ ٹھہر کر مکمل کرے گا ۔ لہذا یہ خطرہ تو ہے کہ اکثر قاری ناول کے طول طویل بیانیے سے گھبرا جائیں ۔ لیکن صدیق عالم کا بیانیہ بہت سے قارئین کے لیے لفظوں کی ایک نئی دنیا آباد کر سکتا ہے ۔ اس لیے اس بیانیے سے گھبراے بغیر اس کی تہہ میں اترنا ضروری ہے ۔ مگر اس کے لیے صبر اور سکون سے مطالعہ مطلوب ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ فکشن اب زیادہ تر مکالماتی انداز میں ڈھل گیا ہے ، اور زیادہ تر لکھنے والے بیانیے سے بچتے نظر آتے ہیں ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ، ایک دلچسپ اور قاری کو جکڑنے والے بیانیے کے لیے ، فکشن نگار کے پاس بہترین زبان اور زبان کے تخلیقی استعمال کے گُر کا ہونا لازمی ہے ۔ اور زبان کے تخلیقی استعمال کے لیے ضروری ہے کہ فکشن نگار کا مطالعہ گہرا ہو ۔ یہ وہ شرائط ہیں جن پر کم ہی فکشن نگار پورے اترتے ہیں ۔ صدیق عالم پورے اترنے والوں میں سے ایک ہیں ۔ ان کا بیانیہ رواں دواں بھی ہے ، دنیا بھر کے تجربات سے بھرا ہوا بھی ہے اور زبان کے ایسے استعمال پر بھی قادر ہے جو وجود کی پرتیں ادھیڑ دے ، اور مختلف طرح کے احساسات و کیفیات کو ، تمام تر جزیات کے ساتھ ایک تصویر کی طرح پیش بھی کر سکے ۔ دو اقتباسات ملاحظہ کریں : ’’ یکایک وہ اٹھ کر میرے پاس چلا آیا ۔ اس نے میرا ہاتھ تھام کر پیار سے سہلایا اور چھوڑ دیا ۔ میں اس کی اس عجیب حرکت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو اُبل پڑے ، اس نے آگے بڑھ کر اپنا سر میرے کندھے پر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ اسے اپنے اونچے قد کی وجہ سے مجھ پر کافی جھکنا پڑا تھا ۔ ’’ میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ، دوست ۔ کاش تم مجھے معاف کر سکو ۔ کاش ہم کبھی نہ ملے ہوتے ۔ کاش میں تمہارا احسان چکا پاتا ۔ میری تم سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے ۔ مگر آج میں نے یہ موقع گنوا دیا تو ابدالآباد تک اپنی موت کو جینے پر مجبور ہو جاؤں گا ، ایک مرگِ دوام جو مجھے منظور نہیں ۔‘‘ اسے دلاسہ دینے کے لیے میں نے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اچانک اس نے میرے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے ۔ میں اس کی اس حرکت پر ششدر رہ گیا تھا ، مگر اس سے پہلے کہ میں اس کی حرکت کو ٹھیک سے سمجھ پاتا ، اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے الگ کیے اور منڈیر پر چڑھ کر سڑک پر چھلانگ لگا دی ۔‘‘ دوسرا اقتباس ملاحظہ کریں : ’’ چٹان پر بیٹھے بیٹھے مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے میں دن بدن گندھارا کے قریب ہوتا جا رہا ہوں ۔ ایسے لمحوں میں اس کے جسم سے آتی مہک مجھے اس کے کنوارپن کی یاد دلاتی جس کا ان دو برسوں کی قربت کی وجہ سے اب مجھے پختہ یقین ہو چلا تھا ۔ شاید اسے میرے احساسات کی دنیا میں آنے والی اس تبدیلی کا پتا چل چکا تھا ، کیونکہ اچانک اس نے مجھ سے اپنی دوری بڑھا لی تھی ، بلکہ وہ اب اس بات کا خاص خیال رکھنے لگی تھی کہ چلتے یا بیٹھتے وقت ہمارے درمیان کم از کم ڈیرھ سے دو فٹ کا فاصلہ قائم رہے ۔‘‘
مذکورہ اقتباسات انسانی وجود کی مختلف کیفیات کو درشاتے ہیں ، لیکن یہ ناول احساسات اور کیفیات کا بیانیہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ نہ پیار کی کہانی ہے اور نہ انتقام یا نفرت اور جذباتی گھٹن کی ، باوجودیکہ اس ناول میں یہ سب احساسات پاے جاتے ہیں ۔ یہ موت کو جینے کی کہانی ہے ، اور موت کو جیتے ہوے بقا اور فنا کو سمجھنے کی کہانی ہے ۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانی وجود کے دو معموں ، زندگی اور موت ، کے حل تلاش کرنے کی کہانی ہے ۔ میں بار بار کہانی کہہ رہا ہوں ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ ناول کہانی سے خالی ہے ، یا یہ کہہ لیں کہ اس میں روایتی انداز میں کوئی کہانی کہی ہی نہیں گئی ہے ۔ یہ ناول روایتی طرز کے پلاٹ سے بھی عاری ہے ۔ اگر صدیق عالم کوشش کرتے تو ناول مکمل طور پر بغیر پلاٹ کا ہو سکتا تھا ۔ خیر پلاٹ یا کہانی کی بحث میں نہ پڑتے ہوے دیکھتے ہیں کہ یہ ناول ہے کیا ! راوی ایک پراسرار اجنبی کا چہرہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے جسے اس نے بمشکل تین بار دیکھا ہے ۔ وہ اجنبی خود کو سندباد کہتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ڈیڑھ سو سال پہلے مرچکا ہے ، لیکن اپنی موت میں جی رہا ہے ! یہ مرگ دوام ہے ۔ اجنبی سب کو نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی سب اس کی آواز سن سکتے ہیں ۔ وہ موت کو جینا نہیں چاہتا ، لہٰذا وہ راوی کو منتخب کرتا ہے اور عمارت کی منڈیر سے کود کر موت کو جینے سے آزاد ہو جاتا ہے ۔ لیکن اب اس کی جگہ راوی لے لیتا ہے ، جس کا مقدر اب ابدالآباد تک موت کو جینا ہے ۔ راوی زومبی نہیں ہے اور نہ یہ کوئی ہارر ناول ہے ، اس لیے اس میں کسی طرح کے خوف ، سسپنس اور ہیبت کی تلاش ممکن نہیں ہے ۔ قارئین راوی کے ساتھ ساتھ ، جو اب ایک پکارسک کردار میں ڈھل چکا ہے ، مختلف کرداروں کی صورت میں انسانی وجود کے اُن رُخوں کو دیکھتے ہیں ، جن تک عام حالات میں ہماری نظر نہیں پہنچ پاتی ۔ راوی کی ماں اور گندھارا اور اس کا خاندان تو ہے ہی ، مزید کئی کردار ہیں ، جو انسانی وجود کی المناک شکلیں سامنے لاتے ہیں ۔ نکولاؤ لوبو ، جولیو لوبو اور دو لڑکے لکی اور کرائسٹ ۔ خالی پرام ڈھکیلتی عورت ، جس کی آنکھیں ہمیشہ کاجل میں ڈوبی رہتی ہیں ، اس کا ڈاکٹر شوہر اور بغل کے مکان کے باغ میں ایک کرسی پر بیٹھا ڈھانچہ نما انسان اور اس کی پیاری سی بہن ۔ دو بیساکھیوں پر گھسٹتا ، کوکین افیم بیچتا پھٹے حال کا مراد جسے کچھ لوگ پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں ، اور جھگی میں گندے سے بستر پر پڑی ، اس کی دونوں پیروں سے محروم بیوی پیالی ، جو کبھی خوب صورت ترین عورت ہوا کرتی تھی ۔ اور وہ نوعمر طالب علم جس کی دوست اُس سے عمر میں بڑی ہے ۔ یہ تو وہی ہے جس کی تصویر راوی نے گندھارا کی کتاب میں دیکھی تھی ! یہ نوعمر طالب علم ، راوی کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے کہ وہ راوی کو دیکھ بھی سکتا ہے اور سن بھی سکتا ہے ۔ لیکن راوی کے لیے اسے چھوڑ دینا ، اپنے گلے پر چھری پھیر کر اس کے گلے کو ریت دینا ، یہ ذریعہ نجات نہیں بنتا ! ملاحظہ کریں : ’’ میں نے استرا گردن پر رکھا ضرور تھا مگر اس کا استعمال نہیں کیا تھا ۔ میں اسے اپنی گردن پر استعمال کر ہی نہیں سکتا تھا ، کیونکہ وہ گردن میری نہیں تھی ۔‘‘
کیا ہے انجام اس ناول کا ؟ سچ کہیں تو انجام کچھ نہیں بس یہ ادراک ہے کہ : ’’ ہم ( دونوں یعنی راوی اور گندھارا ) پرچھائیوں کی طرح زندہ رہیں گے، شکلیں بدلتے ہوے ، ان کے اندر پناہ لیتے ہوے ، ان سے فرار حاصل کرتے ہوے ، کبھی اپنے وجود سے آگاہ ، کبھی اس کے ادراک کے بغیر ، بظاہر ایک مرگِ دوام کا حصہ بن کر ، جس میں موت کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی کیونکہ قدرت نے موت کی تخلیق کی ہی نہیں ہے ۔ جو دکھائی پڑتا ہے وہ حادث ، امکانات اور ردِ امکانات کے مایا جال کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ، کائنات اور ہم سندباد اور ہر چیز ، کسی آغاز اور انجام سے ماورا ، ہمیشہ سفر میں رہیں گے ۔‘‘ ناول نگار نے کسی بھی کردار کی کہانی مکمل نہیں کی ہے ، راوی اور گندھارا کی بھی نہیں ، یہ کردار پھر کبھی سامنے آئیں یا نہ آئیں صدیق عالم کو چاہیے کہ وہ مراد اور پیالی کی کہانی ، مکمل کہانی ، ضرور سامنے لائیں ۔ یہ ایک دلچسپ تجربہ ہوگا ، اس معنیٰ میں کہ یہ ایک مردہ کردار کو نئی زندگی دے گا ، اور کولکتہ کے انڈرورلڈ کے حقیقی چہرے کو سامنے لاے گا ۔
صدیق عالم نے اپنے اس ناول میں ایک جگہ کہا ہے : ’’ فکشن ، یقین کرو یہ ساری دنیا فکشن پر ٹکی ہوئی ہے ۔‘‘ یہ ناول فکشن کا ایک دلچسپ ، سنجیدہ اور طاقتور بیانیہ ہے ۔ ناولوں کے باذوق قارئین کے لیے ایک تحفہ ۔ اجمل کمال کے معروف رسالے ’ آج ‘ ( شمارہ 123) نے یہ ناول خصوصی شمارہ کے طور پر شائع کیا ہے ۔ اسے کتاب دار ، ممبئی ( 9869321477) اور عرشیہ پبلی کیشنز ، نئی دہلی ( 9971775969 ) سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ صفحات 443 ہیں اور قیمت 500 روپیے ہے ۔

You may also like