Home نقدوتبصرہ مرگِ انبوہ: ایک عہد کا غماز ـ شہلا کلیم

مرگِ انبوہ: ایک عہد کا غماز ـ شہلا کلیم

by قندیل

مرگ انبوہ، یہ لفظ سماعتوں سے ٹکراتے ہی تاریخ کے بے شمار سیاہ ابواب ذہن کے کینوس پر پھیل جاتے ہیں اور ظلم و ستم کی ایک داستان نگاہوں کے سامنے پھرنے لگتی ہےـ جہاں ہٹلر ہے، نازی ہیں اور نسل کشی کے المناک دور سے گزرتی ہوئی ایک قوم کی گیس چیمبر میں سسک سسک کر دم توڑتی ہوئی چیخیں ـ
لیکن ناول "مرگ انبوہ” کے خالق نے اس لفظ کو معنوی معراج تک پہنچا دیا اور کمال ہنر مندی سے یہ باور کرایا کہ کسی ہٹلر کے ہاتھوں ایک خاص قوم کی نسل کشی اور خاتمہ ہی مرگ انبوہ نہیں ہے بلکہ اس ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے عہد میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پوری دنیا ہولوکاسٹ سے گزر رہی ہےـ مرگ انبوہ ایسے عہد کی داستان ہے جہاں سائنس پھیلتی گئی، دنیا سکڑتی گئی اور دوریاں بڑھتی گئیں ـ جہاں ہر شخص کی ذاتی زندگی اور پرائویسی ٹیکنالوجی کی بھینٹ چڑھ گئی اور انٹرنیٹ کے چور دروازے سے کوئی دبے پاؤں بیڈ روم تک بھی پہنچ گیاـ ایسا عہد جس کی فاسٹ فوڈ پر پلنے والی جنریشن کیلیے اتہاس صرف ایک "ڈاٹا” ہے اور کتابوں سے بھرا کمرہ کباڑ خانہ ـ جن کی انگلیاں کتاب کے لمس کے احساسات سے عاری محض لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون کی اسکرین پر تھرکنے کی عادی ہیں ـ مرگ انبوہ قصہ ہے ترقی یافتہ عہد کے اس "ینگستان” کا جو کسی ایک خواہش کی تکمیل نہ ہونے کی صورت میں والدین سے نفرت کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور جن کیلیے مارکس اور لینن آؤٹ ڈیٹڈ پیس بن چکے ہیں ـ ینگستان کے یہ نوجوان جن کے لیے جذبات ، احساسات ، اخلاقیات اور تہذیب فضول باتیں ہیں ـ جو زندگی کے ہر میدان میں پچھلی پیڑھی کو شکست خوردہ دیکھنا چاہتے ہیں ـ جو وسیع آسمان تلے آزاد فضاؤں میں پرواز بھرتے پھرتے ہیں ـ پزا برگر اور فاسٹ فوڈ پر پلنے والی یہ فاسٹ جنریشن عمر اور وقت سے پہلے ہی زیست کی تمام لذتوں سے آشنا ہوکر بہت جلد زندگی سے بیزار ہوجاتی ہے اور بقیہ زندگی کی فراغت سے اکتا کر موت کے آغوش میں پناہ تلاش کرنے نکل پڑتی ہےـ جن کے لیے موت ایک "ایکسپیریمنٹ” ہےـ جو "ڈیتھ گیمز” کی تجربہ گاہ میں نئے نئے تجربات کی تکمیل کیلیے کبھی "بلیو وہیل” کے جبڑے میں اپنا منھ دے دیتی ہے اور کبھی اپنی روح کو "بریفومیٹ” کے حوالے کر دیتی ہے ـ
"مرگ انبوہ” ماضی کا نوحہ بھی ہے اور مستقبل کی پیشین گوئی بھی لیکن اس سے کہیں بڑھ کر یہ حال کا المیہ ہےـ اس ترقی یافتہ عہد میں جبکہ فاسٹ ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو ہولوکاسٹ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کب یہ دنیا گیس بن کر اڑ جائے ؛ سر زمین ہند پر جادوگر کا کھیل جاری ہےـ جس کے ایک جادوئی اشارے پر پل بھر میں بستیاں اجڑ جاتی ہیں، شہر کے شہر نذر آتش کر دیے جاتے ہیں، راتوں رات گھر غائب ہو جاتے ہیں، تعلیم گاہوں سے نوجوان غائب کر دیے جاتے ہیں ، فریج میں رکھا چکن مٹن میں تبدیل ہو جاتا ہے اور دیکھتے دیکھتے جیبیں خالی ہو جاتی ہیں ـ تماش بینوں پر دستور زباں بندی نافذ ہےـ جن گنے چنے لوگوں کے ذہن میں بغاوت کا تصور سر ابھارتا ہے ان کی زبانیں کھینچ لی جاتی ہیں ، گھروں کو ویران اور جیلوں کو آباد کر دیا جاتا ہےـ مرگ انبوہ کا یہ تماشہ بدستور جاری ہے جہاں ایک خاص طبقے کی لاشیں گرا کر سامان لطف اندوزی مہیا کرایا جاتا ہےـ
اس طرح "مرگ انبوہ” ایک عہد کا غماز ہےـ جہاں ایک اور ہٹلر ہے ، جادوگر ہے، ظلم و ستم کی داستانیں ہیں، بھوکی ننگی عوام کی سسکیاں ہیں اور حاشیے پر دھکیل دی جانے والی نسل کشی کے المناک دور سے گزرتی ہوئی ایک قوم اور اس قوم کیلیے تیار ہوتا ہوا گیس چیمبر جسے ناول نگار نے hallucination میں مبتلا کردار کے ذریعے خوابیدہ قوم کو دکھانے اور بیدار کرنے کی جی توڑ کوشش کی ہےـ ایک "سلیپ واکر” کردار جو رات کی تاریکیوں میں نکل کر سوئی ہوئی قوم کے خوابوں پر خاموشی سے دستک دے کر خود گہری نیند سو جاتا ہےـ
ہندوستانی منظر نامے میں رہتے ہوئے عالمی المیے کا ادراک ناول نگار کا بڑا کمال ہےـ ناول کی تکنیکی باریکیوں پر بحث تو ادبی نقاد کے سر ہےـ لیکن فکشن سے شغف رکھنے والے ایک عام قاری سے لیکر فکشن کا بڑا نقاد بھی "مرگ انبوہ” کی اہمیت و عظمت سے کسی صورت انکار نہیں کر سکتاـ کہانی کا کردار فنتاسی کا شکار ہے اور ناول کا قاری فنتاسی کی کیفیت سے گزرتا ہے لیکن "مرگ انبوہ” حقیقتِ حال ہے!

You may also like

Leave a Comment