Home نقدوتبصرہ مرگِ انبوہ اورہندوستان کاسیاسی وسماجی منظرنامہ

مرگِ انبوہ اورہندوستان کاسیاسی وسماجی منظرنامہ

by قندیل

نایاب حسن
مشرف عالم ذوقی اردوحلقے میں اپنے مخصوص بے باک وشفاف اسلوبِ تحریر کے حوالے سے منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ان کے ناولوں میں عصری حسیت اور احوال وواقعات کی بھر پور ترجمانی ہوتی ہے، ان کی کہانیوں میں ملکی و عالمی منظرنامے کی ایسی عکاسی ہوتی ہے،جس سے ان کا قاری ذہنی وفکری طورپر بآسانی مربوط ہوسکتاہے۔ذوقی صاحب کا قلم سیال ہے اور لکھنے کی رفتار تیزتر،وہ گزشتہ چاردہائی سے زائد عرصے سے لکھ رہے ہیں،ایک درجن سے زیادہ کتابیں منظرِعام پرآچکی ہیں،ان میں زیادہ تر ناول، چند افسانوی مجموعے،ایک نثری نظموں کا مجموعہ اور ایک تنقیدی مضامین کا مجموعہ”آبِ روانِ کبیر“ شامل ہیں۔
سال2019کے اخیرمیں ان کاتازہ ناول”مرگِ انبوہ“کے نام سے ہندوستان میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی کے ذریعے منظر عام پرآیاہے اور پاکستان میں صریرپبلی کیشنز اس کی اشاعتی ذمے داری اٹھارہاہے۔ناول کے پہلے حصے میں مرکزی کردار پاشامرزااوراس کے دوستوں کے حوالے سے اکیسویں صدی کی نئی نسل کے مسائل و نفسیات کوزیر بحث لاتے ہوئے ہماری جنریشن کی جلدبازی اور پوری دنیاکو چند لمحوں میں زیر کرلینے یا نئے نئے ایڈونچرز کے شوق پر واقعات ومکالمات کی روشنی میں بڑی چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے۔اس ذیل میں الومناتی گروہ اور ہلاکت ناک بلیووہیل گیم کے کرشموں پربھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔نئی نسل نئے ماحول میں پرانی قدروں سے اتنی بوراوردور ہوتی جارہی ہے کہ وہ جلدازجلد ہر نقشِ کہن سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے،اسی کا مظہر پاشامرزااوراس کا دوست ریمنڈ ہے۔پاشامرزاکو اپنے باپ جہاں گیرمرزا سے چڑ،بلکہ نفرت ہے اور ریمنڈبھی روز اپنے باپ سے لڑتااور نئی نئی مہم جوئیوں میں مصروف رہتاہے۔ناول کا دوسرا حصہ جو ہندوستان کے حالیہ چھ سات سال کے سماجی و سیاسی منظرنامے پرمبنی ہے،وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ناول نگارنے جہانگیرمرزا کی سرگذشت کی شکل میں اس عرصے میں پورے ہندوستان اور خصوصاً یہاں کے مسلمانوں پر بیتنے والے سانحات کو بڑی وضاحت کے ساتھ اور دوٹوک انداز میں بیان کیاہے۔کہانی کی بنت اور کرداروں کی تقسیم وتحدید،پھر ان کے مکالموں اور ان کے گرداگردواقعات کے سلسلے حقائق سے معمور ہیں۔ناول نگار نے بی مشن کو اس سرگزشت کا سینٹر بنایا ہے،جس کے اشاروں اور حکم سے پورے ملک میں حالات برق جیسی رفتارسے بدل رہے ہیں، ”جادوگر“ کا کردار بھی نہایت دلچسپ ہے،جوآن کی آن میں ایک ہنگامۂ رستاخیز برپاکردیتاہے،جس کے ہاتھ میں پورے ملک کی باگ ڈورہے اور وہ جیسے چاہتاہے،تصرف کرتاہے۔اس کے ایک اشارے سے ملک بھر کے بینک خالی ہوجاتے ہیں،لوگ کیش لیس ہوجاتے ہیں،وہ ایک طبقے کے خلاف کوئی بات کرتاہے اور اس کے بھکت اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں،وہ ایک خوفناک سایے کی طرح لوگوں کے پیچھے لگ جاتاہے،کوئی بھی شخص،اس کی زندگی،اس کا گھر اس جادوگرکی دست رس سے دور نہیں ہے۔جادوگرکی شخصیت ایسی زبردست قوت سے عبارت ہے کہ اس کے خلاف کہیں بھی کوئی آواز اٹھ رہی ہو،اسے پتالگ جاتاہے اورپھر وہ لمحے بھر میں اپنے مخالف آوازکو خاموش کردیتاہے۔”راکیش وید“بی مشن کا ایک مضبوط رکن ہے،جس کاکام یہ ہے کہ وہ بی مشن سے نالاں مسلمانوں میں اپنے ہمدردتلاش کرے، اسے کسی طرح ہموار کرکے بی مشن کے حق میں استعمال کرے اور پھر اس سے کام لے کر اسے زندگی کی الجھنوں سے آزاد کردے،حتی کہ جہاں گیر مرزا جو ایک نظریاتی انسان،تخلیق کاراور ادیب و صحافی ہے وہ بھی راکیش وید کے جھانسے میں آجاتا ہے،حالات کے پیش نظر اسے اپنے نظریات سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بی مشن کا حصہ بن جاتاہے،گرچہ اس کی وابستگی طویل نہیں ہوتی،مگر اس کے اثرات جہاں گیرمرزاکے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔راکیش ویدکی جوتصویرکشی ناول نگارنے کی ہے،اس کے مطابق وہ بہ یک وقت ہمدردبھی ہے اورنہایت سفاک بھی،وہ زندگی کو مصیبت سے تعبیر کرتاہے اور موت کواس مصیبت سے آزادی بتاتاہے،اس کے مطابق ”جادوگر“ کا احسان ہے کہ وہ اس ملک کے مسلمانوں یا اپنے مخالفین کو مصیبت(زندگی)سے آزاد کروانا چاہتا ہے۔ناول میں استعمال کیے گئے استعارات،کنایات،تشبیہات میں غضب کی معنویت ہے۔ اس وقت پورے ملک میں این آرسی /سی اے کے خلاف پرزوراحتجاجات ہورہے ہیں، ذوقی نے اس ناول میں چندماہ قبل ہی این آرسی کےبھیانک مضمرات وعواقب کی نشان دہی کی تھی،تب شمال مشرقی ہندوستان میں آوازیں اٹھناشروع ہوگئی تھیں، مگرسینٹرل انڈیامیں تقریباًخاموشی تھی،پھرجب پارلیمنٹ سے شہریت کانیا ترمیم شدہ قانون پاس کیاگیا اورحکومت نے سی اے اے کے بعد پورےملک میں ان آرسی کے نفاذکا عزم ظاہرکیا،تب لوگوں کواس کے خطرات کاادراک ہوا،جس کے نتیجے میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پوراملک سرگرمِ احتجاج ہے ـ
اس ناول میں ذوقی نے دائیں بازوکی سفاک سیاست،اس کے طریقۂ عمل اور طرزِفکرپربڑی بے باکی سے تبصرہ کیا ہے،ساتھ ہی سیکولرزم کے ہندوستانی ورژن پرنہایت سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے اشتراکی افکارو تصورات کی نمایندگی کرنے والی جماعتوں کی پس گردی کے اسباب پربھی روشنی ڈالی ہے۔مختلف مکالمات کے بین السطورمیں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی و ملی تنظیموں کے دوہرے پن کوبھی آشکاراکیاہے۔
اس ناول کی ادبی قدروقیمت کیا ہے، وہ توناقدین طے کریں گے،مگر ایک قاری کی حیثیت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مفروضہ ہوائی وتخیلاتی کہانیوں پرمبنی اور محض ذہنی تفریح فراہم کرنے کے لیے لکھے جانے والے ناولوں کے مقابلے میں ذوقی کایہ ناول زیادہ پڑھنے لائق ہے کہ اس میں انھوں نے پوری صداقت وواقعیت پسندی کے ساتھ ہندوستان کے موجودہ سیاسی و سماجی منظرنامے کی عکاسی کی ہے،اس اعتبار سے یہ ناول ایک تاریخی دستاویز بھی ہے۔ہمارے خیال میں وہ تخلیقی شہہ پارہ زیادہ تعریف و تحسین کا حق دار ہے،جس میں سماج کے گردوپیش کے حالات واشخاص و سانحات کو کرداروں میں ڈھال کر پیش کیاجائے۔ذوقی کے پچھلے ناولوں میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے اور اس ناول میں بھی یہ خوبی بہ تمام و کمال موجودہے۔اخیر میں ”دولفظ“کے عنوان سے انھوں نے اردوکے روایتی ناقدین سے شکایت کی ہے کہ وہ ایسے ناول کو سیاسی رپورٹنگ قراردے کر نظر انداز کردیتے ہیں،پھر انھوں نے انگریزی،عربی،ہسپانوی،روسی ودیگر زبانوں کے معروف وایوارڈیافتہ ناول نگاروں کے حوالے سے درست لکھاہے کہ زیادہ تر عالمی تخلیقی شہہ پاروں کا ربط متعلقہ ملکوں کی یاعالمی سیاسیات سے رہاہے۔
یہ ناول زبان و اسلوب کے اعتبار سے بھی بڑا سلیس اور سہل و شیریں ہے،مشرف عالم ذوقی جدتِ تعبیر اور ندرتِ اداپر زیادہ زور نہیں دیتے،ان کا ارتکازقوتِ ترسیل پرہوتا ہے،جواس ناول میں بھی بخوبی محسوس کیاجاسکتاہے،کہیں بھی کسی قسم کی پیچیدگی یا زبان و بیان کا اٹکاؤ نہیں ہے،آپ ایک رومیں پوری کتاب پڑھ سکتے ہیں، کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی ـ البتہ بعض مقامات قابلِ توجہ ہیں،مثلاً صفحہ نمبر 110پرایک جملہ ہے”میں کھلی کھڑکیوں سے باہرکانظارہ دیکھ سکتی ہوں“۔یہاں باہر کا ”منظر“ ہونا چاہیے تھایاجملے کی ساخت یوں ہونی چاہیے تھی”میں کھلی کھڑکیوں سے باہرکانظارہ کرسکتی ہوں“۔صفحہ نمبر126پرایک جملہ ہے”میں ڈائری کھولوں یاپہلے ڈائری کھولنے سے قبل اپنی زندگی کے ان صفحوں میں جھانک آؤں…“اس میں ”پہلے“لفظ زائدہے۔اسی طرح ایک لفظ جو بار بار استعمال ہواہے اورہرجگہ غلط کمپوژ ہوگیاہے،اس کی نشان دہی بھی ضروری ہے،ناول میں ”سارہ“ جہاگیر مرزاکی بیوی ہے، اس کایہی املا ہے اورکتاب میں یہی لکھابھی گیا ہے، مگرکُل اور سب کے معنی میں ”سارا“ کوبھی تقریباً پوری کتاب میں ”سارہ“ ہی لکھاگیاہے،اس سے سخت الجھن ہوتی ہے اور پڑھنے والا پہلی نظر میں اسے”سارہ“جہاں گیرمرزاکی بیوی سمجھ لیتا ہے، پھرپوراجملہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ یہ تو ”سارا“ ہے۔ بہرکیف ایسی دوچارفروگذاشتوں سے قطع نظریہ تازہ ناول ہراعتبارسے شاندارہے،کتاب و ادب دوست طبقے کے علاوہ ہراس باشعور ہندوستانی کویہ ناول پڑھنا چاہیے، جوبرق جیسی تیزی سے بدلتے قومی منظرنامے کوسمجھنا چاہتاہے،اس کی تہوں میں اترناچاہتاہے ـ تقریباساڑھے چارسوصفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت پانچ سوروپے نہایت مناسب ہے ـ کتاب کا ٹائٹل عنوان سے ہم آہنگ اورطباعت خوب صورت ہےـ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے حاصل کی جاسکتی ہےـ

You may also like

Leave a Comment