نازیہ پروین
نیم عریاں فقیر جس کے جذبے، ضد اور فلسفوں نے پہلی دفعہ برطانوی حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا تھا، کیسے چرچل کے فسوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی تھیں، جس کی نظر میں انسان کی موت ایسا دکھ ہے جسے مذہب کے تعصب سے سے بالا تر ہونا چاہیے،جو محبت کی روشن مثال بن گیا تھا،وہ مردِ آہن جس نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ بیرونی یلغار کی تیز دھار کو عمل سے روکا، بدیشی سوٹ بوٹ کی جگہ کھادی پر خود چرخہ لے کر بیٹھااور ہر پرائی سوغات کا بائیکاٹ کیا،جب آزادی کے نام پرمرگ انبوہ کھیلا جا رہا تھا تو نواکھالی میں بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر اس درد کو محسوس کر رہا تھا،گاندھی جس نے نئے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا،اس مردِ فقیر کا نام ایک مضبوطی کی علامت تھا،جو شکست میں حوصلۂ ثانی کا پیامبر تھا،مگر اس کی آنکھوں کے خواب اور ہونٹوں کی مسکراہٹ کب خون آشامیو ں سے برداشت ہوئیں،پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا منظر بدلنے لگا، نئے ورلڈ آرڈر نے ایلومناتی سوچ کو جنم دیاکہ خدا اور انسان کے رشتے کی بجائےایلومناتی طاقت نے پوری دنیا پر راج کرنا شروع کر دیا، فسطائیت کی پشت پناہی ہو یا ہٹلر کی نازی پالیسی ہر جگہ یہی قوت کارفرما نظر آتی ہے، سمراٹ اشوک، اورنگ زیب، چرچل، ہٹلر کی بربریت ہو یا انقلابِ فرانس ہو،ہزاروں افراد کو اسی مرگ انبوہ کا شکار ہونا پڑا، تاریخ ہمیشہ تعصب، عقیدوں ،مذہبی منافرت اور رنگ و نسل کی چکی میں پستی آئ ہےـ انسان جسے کائنات میں ایک اعلیٰ و ارفع مقام ملا تھا، مادیت کے بوجھ تلے دب کر زندگی کے لطف سے محروم ہو گیا ہےـ دولت، طاقت اور شہرت نے انسان میں درندگی کو عروج بخشا اور ذہنی طور پر مفلوج ہو کر چند ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے، ان دیکھی خواہشات کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہا ہے،ناامیدی، مایوسی اور نا آسودگی نے پوری دنیا کو گہنا رکھا ہے،عالم عامہ پر طاقت کا نیو ورلڈ آرڈر ایک خوفناک بیانیہ ہے،یہاں ہولو کاسٹ کا تماشا شروع ہو چکا ہے، فسطائیت نے پهر سے اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے ہیں ـ ذوقی کا قلم اسی نوحے کو "مرگ انبوہ ” کے قرطاس پر بکھیر رہا ہے،جس کے ہر صفحے پر انسانی نفسیات کے زوال کی کہانی موجود ہےـ یہ ناول حقیقت میں انسانی تاریخ کی خون آشام دستاویز ہےـ صدیوں سے کیسے عقیدوں کے نام پر خون کی ہولی کھیلی جا تی رہی ـ ناٹک وہی تھا، تماشے میں نچانے والے ہاتھ اور ناچنے والے کردار بدلتے رہے، تہذیبیں مٹ گئیں یا مٹائی گئیں سندھ کی تہذیب، سومیرین تہزیب، میسوپوٹامین یا ایرانی تہذیب آج ان کا نام و نشان نہیں ہےـ مٹائے جانےکا عمل مسلسل جاری و ساری رہتا ہےـ ہمیشہ طاقتور کمزور پر راج کرنے، انہیں یرغمال بنانے کے درپے رہتاہےـ یہ ہی جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہےـ ہندوستان ایسا خطہ تھا جہاں مختلف اقوام صدیوں سے اکٹھی رہتی رہی مگر پھرطاقت کے نشے نے اس کی آغوش کو اجاڑنا شروع کر دیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ظلم و ستم کے بگولوں نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیاـ”مرگ انبوہ ایسی ہی سیاسی منافرت اور ظلم و ستم کے خلاف قلمی جہاد کا نام ہےـ اس ناول میں بے شمار تاریخی فلسفوں کی گونج سنائی دیتی ہے کہ کیسے پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے کیسے کیسے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں ـ انسانی نفسیات کی بد ترین شکست اج کا موجوده انسان ہےـ صہیونی طاقتوں نے انسانی نفسیات کو ٹیکنالوجی کی مدد سے کنٹرول کرتے ہوئے انسانی ذہن کو مفلوج کر دیا ہےـ مرد و عورت کو سستی جنسی بے راہ روی کا شکار بناکر موجوده نسل میں ذہنی انتشار، بداعتمادی ،نفرت اور بے زاری کو جنم دیا ہےـ شخصی شناخت کو غائب کرنا ان طاقتوں کا وتیرۂ اول ہےـ موجودہ ہندوستان کی سیاسی صورتحال اس کا منہ بولتا ثبوت ہےکہ مسلمانوں کی 35 کروڑ کی آبادی کو 17 کروڑ کی اقلیت میں بدل دیا ہےـ میانمار جل رہا ہے، کشمیر میں کیسے چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہےـ ذوقی نے کہانی کے ذریعے اس کرب کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے،جو موجودہ ہندوستان میں حکومتی پالیسیوں نے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہےـ میڈیا سوچی سمجھی سازش کے تحت کیسے جنریشن گیپ پیدا کرکے موجودہ نسل کو ذہنی طورپر مفلوج بنا رہا ہےـ پاشا مرزا اور جہانگیر مرزا ایسے ہی منظر نامے کا حصہ ہیں ـ سیاسی مشن کی وارداتوں کی سیاہی ہر صفحے پر موجود ہےـ ناول کو جدید تیکنیکی فضا میں سنوارا گیاہے، ڈائری کی تکنیک، میٹامارفیس،سلولوکی اور وہمہ کی تکنیک کا استعمال نمایاں ہےـ سرونٹس کے ڈن کہوٹے کی طرز پر تراشے گئے کردار جہانگیر مرزا کا مصلحانہ اور مکالماتی انداز تخلیق کار کی وسعتِ نظر کا عمدہ ثبوت ہےـ عالمی سطح پر چکی کےدو پاٹوں میں پستے ہوئے مسلمانوں کے درد کا بیان ذوقی کے قلم کا خاصا رہا ہےـ ہندوستان کی موجودہ مودی حکومت میں ذوقی کا مزاحمتی قلم قابل تحسین ہےـ وہ ایسے مردِ آہن ہیں جو بے باکانہ انداز میں ہندوستانی مسلمانوں سے روا رکھے گئے ظلم و ستم کی داستان رقم کر رہے ہیں ـ موجوده انسان سوشل میڈیا پر سستی جنسیت کو تفریح کا سامان بنا چکا ہے اس کی نفسیات سے قناعت ختم ہوچکی ہے اور ہر اچھی چیز کو اپنے جبڑوں میں چبانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہےـ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ یہ جنون بڑھتا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کی حالت بوڑھے شیر کی سی ہوجاتی ہے جو غرا تو سکتا ہے مگر شکار نہیں کر سکتاـ موجوده مرد کی مریضانہ جنسی بھوک پر ذوقی کے ہاں گہرا طنز موجود ہےـ پورن سائٹ اور سیکس چیٹ اس کی بنیادیں ہیں، جنھوں نے مرد کو انسان کی بجائے پیراسائٹ بنا دیا ہےـ”مرگ انبوہ ” مختلف انسانی بہروپ جو نفسیاتی، سیاسی اور طاقت کے اظہار کے بھیانک روپ ہیں،سے پردہ اٹھانے کی عمدہ کوشش ہے ـ سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے ایسا پلیٹ فارم تیار کیا گیا ہے جس کی آگ پورے ہندوستانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے. "مرگ انبوہ "ایسے ہی سیاسی و ثقافتی منظر نامے کی شکل ہے،جس میں ذوقی نے ایسے ایسے حقائق کے پردوں کو چاک کرنے کی کوشش کی ہے، جو موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش ہیں ـ ایسے حساس پہلوؤں پر ذوقی ایسے قلمی جنگجو ہی لکھ سکتے ہیں ـ ذوقی نے اس ناول میں جگہ جگہ ایسے روح کو چھلنی کرنے والے سوالات اٹھائے ہیں، جو ایک قاری کی روح کو بیدار کر سکتے ہیں ـ