Home نقدوتبصرہ معرکہ ٔ شاملی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ-ڈاکٹر منور حسن کمال

معرکہ ٔ شاملی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ-ڈاکٹر منور حسن کمال

by قندیل

 

برصغیر ہند میں ہمارے اکابر علما کو جو مرتبہ حاصل رہا ہے اور انہوں نے اپنے فرائض کی ادائی میں جس تندہی اور جاں فشانی سے جان وتن کی بازی لگائی ہے، اس سے غیر مسلم ارباب ِ علم تودور، بلکہ وہ مسلمان بھی لا علم ہیں، جن کی تعلیم صرف مغربی علوم تک محدود ہے اور جنہوں نے علوم تاریخ کو یوروپی طرز کے مصنّفین کی عینکوں سے دیکھا اور انہی کے ذہن کے مطابق سمجھا ہے، وہ ان علما کی خدمات کو بھلا کیسے سمجھ سکتے ہیں، جنہوں نے علم وفن کے ساتھ ساتھ آزادی ہند کے لئے نہ صرف سپاہیانہ ورزشیں کیں، بلکہ جنگی محاذوں پر ایک سرخیل اور جرنیل کی طرح اپنی قوت وطاقت کا استعمال کیا۔ عام لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اسلام میں بھی علما کی حیثیت وہی ہے جو دوسرے مذاہب میں پروہتوں، پادریوں اور کاہنوں کی ہوتی ہے، جو معاشرے کے اندر رہتے ہوئے بھی عام لوگوں سے الگ تھلگ محض مذہبی اقتدار رکھتے ہیں اور سماجی اور سیاسی زندگی سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

اٹھارہویں صدی کے آغاز میں مغل سلطنت جواب سمٹ کر مرکزی حکومت تک محدود رہ گئی تھی، اس میں بھی اضمحلال بڑھتا گیا اور دوسری جانب برطانوی تاجروں کی مداخلت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ وہ مغل حکمرانوں کے ہر شعبۂ زندگی پر حاوی ہوگئے تھے۔ ایک عام اعلان تھا ’خلقت خدا کی‘ ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا، اس وقت لارڈ لیک برطانوی افواج کے ساتھ دہلی میں داخل ہوا۔ مرہٹوں اور دوسرے لوگوں کو نکال باہر کیا۔ برطانوی سامراج نے اپنی پالیسی کے تحت بادشاہ دہلی کو تخت وتاج کے ساتھ برقرار رکھا۔ ان کا ایک لاکھ روپے سالانہ وظیفہ مقرر کردیا، لیکن تمام ملکی اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے پاس رکھے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی اس دور میں اپنی تمام تر توجہ علمی کام پر مرکوز تھی، مگر حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ انہوں نے بجا طور پر خیال کیا اب مؤثر سیاسی اور فوجی کارروائی ضروری ہے۔ اس لئے کہ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ مغل شہزادے ذہنی دیوالیہ پن کاشکار ہوچکے ہیں اور ان کی اصلاح ممکن نہیں تھی۔ انہوں نے اسلامی افکار وتعلیمات کے ساتھ ساتھ سیاسی افکارکے تعلق سے ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کیا، جو ہندوستان کے سیاسی حالات کو بدل کر ملک کو آزادی دلاسکتاتھا۔ انہوں نے فوری بغاوت یا انقلاب کی بجائے آزادی ہند کے لئے خواص کے ساتھ ساتھ عوام کی ذہن سازی پر بھی توجہ دی، بلکہ خصوصیت کے ساتھ عوام ہی ان کی توجہ کا محور ومرکز رہے۔ وہ درست سمجھتے تھے کہ عوامی سطح پر تیاری ہی ہندوستان کو آزادی سے ہمکنار کرسکتی تھی۔

سید سلیمان ندویؒ کے مطابق شاہ ولی اللہؒ کی دور بیں نگاہیں سیاسیات واقتصادیات کے جن معمولی گوشوں تک پہنچ گئی تھیں، اس زمانے کے لوگ ان کو سمجھنے سے قاصر تھے۔

شاہ ولی اللہؒ نے برطانوی سامراج کے خلاف جو مہم چھیڑی اور اس کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دینے والوں کی جو جماعت تیار کی، ان میں ان کے جلیل القدر صاحب زادے شاہ عبدالعزیزؒ، سید احمد شہیدؒ، سید اسماعیل شہیدؒ، شاہ عبدالغنیؒ، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حافظ محمد ضامن شہیدؒ، مولانا عبدالحی بڈھانویؒ، مولانانصیر الدین دہلویؒ اور شاہ اسحٰق دہلویؒ اپنے اپنے انفرادی علوم وفنون اور ہندوستان کی آزادی کے لئے اپنی اپنی نمایاں کوششوں کے لئے ممتاز ہیں۔

مغلیہ عہد سلطنت میں مہمان بن کر آنے والے جب حاکم بن بیٹھے تو ان کی ابلیسی چپقلش عام ہوگئی۔ ایک طرف تو انہوں نے سیدھے سادے ہندوستانیوں کو ان کے مذہب سے دور کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف انسانوں کو غلام بناکر ان پر طرح طرح کے مظالم روا رکھے۔ شاہ عبدالعزیزؒ کے جہاد کے فتوے کے بعد اکثر علما برطانوی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ دہلی کے قرب وجوار کے علاقوں میں میرٹھ، مظفر نگر اور سہارنپور کے علما اور یہاں تک کے ان علاقوں کے سرکردہ افراد کے ساتھ ساتھ علما کے مریدین نے بھی عَلمِ آزادی بلند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یوں تو آزادی کے لئے پورے ملک کے افراد کوشاں تھے، لیکن مرکز حکومت کے نزدیک ہونے کے سبب شمعِ آزادی کے پروانے اور درج بالا علاقوں کے علما اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے تھے ۔

10؍مئی 1857ء کو میرٹھ کینٹ میںچربی کے کارتوس کے واقعہ کے بعد جنگ آزادی کی تیز ہوائوں نے تمام علاقے میں جذبہ حریت کو عام کردیا تھا۔اس سلسلے میں ’معرکۂ شاملی‘ علما کی خصوصی جدوجہد آزادی کا مرکز رہا۔ ان علما نے شاہ ولی اللہؒ کی روشن کی ہوئی شمع آزادی کی بڑی جانفشانی کے ساتھ حفاظت کی۔

اس جنگ آزادی میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (پ جنوری 1818ء-م -1899ء) کی خدمات پر مؤرخین کی خاموشی قابل افسوس ہے۔ وہ 7 برس کی عمر میں یتیم ہوگئے۔ ذاتی ذوق وشوق سے دینی علوم حاصل کئے۔ مختلف اساتذہ سے تحصیل علم کرتے رہے۔ سن ِشعور کو پہنچے تو دہلی میں مولانا نصیر الدین دہلوی کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئے۔ مولانا نصیر الدینؒ سید احمد شہیدؒ کی تحریک آزادی کے سرکردہ اراکین میں رہ چکے تھے۔ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ ممتاز عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ، صوفی بزرگ اور ایک عظیم سیاست داں بھی تھے۔ اپنے طلبہ کو بھی اسی طرح درس دیا کرتے تھے، جس طرح شاہ ولی اللہؒ سے شروع ہوا تھا ۔

تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے کہ ایک رات نوجوان امداد حسین (اس وقت تک وہ امداد حسین ہی تھے) گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے۔ علی الصباح انہوں نے دیکھاکہ وہ رسول مقبول حضرت محمد مصطفیﷺ کے دربار میں حاضر ہیں۔ حضور اکرمؐ کے آس پاس صحابۂ کرامؓ موجود ہیں۔ امداد حسین پر اتنا رعب طاری تھا کہ پائوں سوسو من کے ہوگئے تھے۔ گردن جھکی ہوئی تھی اور آنکھوں میں تاب نظارہ نہ تھی۔ اسی عالم میں کسی نے ان کا ہاتھ پکڑا۔ غور سے دیکھا تو ان کے دادا جان تھے۔ وہ انہیںحضورؐ کے پاس لے گئے اور ان کا ہاتھ حضور اکرمؐ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا: حضورؐ میں اسے آپ کے حوالے کرتاہوں۔ آپؐ اس کے لئے جیسا مناسب سمجھیں کریں۔ حضور اکرمؐ نے ان کاہاتھ ایک دوسرے شخص کے ہاتھ میں دے دیا اور ان سے فرمایا کہ یہ امداد حسین ہیں، ان کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بیدار ہوئے تو بہت پریشان ہوئے اور اس شکل کو پہچاننے کی کوشش کی، لیکن عقدہ لاینحل ہی رہا۔ ان کے ایک استاذ مولانا محمد قلندر محدث جلال آبادی نے ایک ملاقات کے دوران حیرت وانتشار میں مبتلا مبتلادیکھاتو پریشانی کی وجہ دریافت کی۔ امداد حسین نے آب دیدہ آنکھوں سے اپنا خواب بیان کیا۔ مولانا قلندر مسکرائے اور بولے کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ موضع لوہاری (ضلع مظفر نگر) یہاں سے قریب ہی ہے۔ وہاں میاں جی (میانجیو)نور محمدؒ سے مل آئو۔ وہ تمہاری پریشانی دور کردیں گے۔ لوہاری پہنچ کر میاں جی کے آستانے پر پہنچے اور دیکھتے ہی پہچان گئے کہ یہ وہی بزرگ ہیں، خواب میں جن کے ہاتھ میں حضور اکرمؐ نے ان کا ہاتھ دیا تھا۔ ان کے قدموںمیں گرگئے۔ میاں جی نے اٹھاکر سینے سے لگایا۔ خواب کی صداقت سے متعلق معلوم کیا اور ان کی مادی وروحانی تعلیم وتربیت شروع کردی۔ پھر خرقۂ خلافت عطا کرتے ہوئے دریافت کیا۔ اب بتائو کیا چاہتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا ’وہی جو اللہ کو پسند ہو‘ میاں جی نے پوچھا: ’تسخیر کے طالب ہو یا کیمیا کے‘ امداد حسین رونے لگے اور کہا کہ میں نے آپ کا دامن دنیا کے لئے نہیں پکڑا، میں چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ مجھ سے ایسا کام لے، جس سے اس کی مخلوق فیض یاب ہو۔‘‘ میاں جی نے انہیں دعائیں دے کر رخصت کیا۔گھر پہنچ کر یاد الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ ایک رات پھر حضور اکرمؐ کو خواب میں دیکھا اور دریافت فرمایا کہ اب اس ناچیز کے لئے کیا حکم ہے۔ رسول اکرمؐ نے اپنے پاس آنے کے لئے کہا۔ بیدار ہوکر رخت سفر باندھا اور حرمین شریفین کے لئے روانہ ہوگئے۔ وہاں شاہ محمد اسحقؒ جو سلسلہ ولی اللٰہی کے عظیم بزرگ اور شاہ عبدالعزیز کے نواسے تھے، ان سے ملاقات ہوگئی۔ شاہ محمد اسحقؒ ہندوستان میں ولی اللٰہی تحریک کے بڑے سرگرم رکن تھے، مکہ معظمہ ہجرت کرگئے تھے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی اور یہیں سے برصغیر ہند میں آزادی کے لئے اپنی سی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے۔

شاہ اسحقؒ نے نام معلوم کیا۔جواب ملا۔ امداد حسین، شاہ اسحقؒ نے کہا نہیں آج سے تم امداد حسین نہیں امداد اللہ کہلائو گے۔ شاہ اسحاقؒ کی صحبت نے امداد اللہ کی کایا ہی پلٹ دی۔ ایک روز برصغیر ہند کی صورت حال دریافت کی۔ امداد اللہ نے بتایا کہ ’’مغل حکومت برائے نام ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی پورے ہندوستان پر قابض ہوتی جارہی ہے۔ فسق وفجورعام ہے، ہر طرف بے عملی کا دور دورہ ہے۔ غیر مسلم چاق چوبند ہیں اور مسلمان تغافل اور تفاخر میںمبتلا ہیں۔ شاہ اسحق نے کہا: ’’تم ہندوستان واپس جائو اور ولی اللہٰی تحریک کو آگے بڑھائو۔ ولی اللٰہی تحریک کو اچھی طرح سمجھ لو اور ہم اس پر بھی تمہاری رہ نمائی کریں گے کہ یہ تحریک آزادی کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے۔‘‘

شاہ اسحقؒ نے ہندوستان کی تباہی کے اسباب بتاتے ہوئے شاہ ولی اللہ ؒ کے حوالے سے کہا:’’شاہ ولی اللہؒ نے ہندوستان کی زبوں حالی کے دو سبب معلوم کرلئے تھے۔ پہلا یہ کہ ملک کا ایک خاص طبقہ اس بات کا عادی ہوچکا ہے کہ بغیر کچھ کئے شاہانہ مراعات پاتارہے۔ ان کی اس حرکت کے سبب ملک کے دوسرے باشندوں کی زندگی تنگ ہوتی جارہی ہے اور ایسے لوگ جو عطیے اور وظائف پاتے ہیں، ملک وقوم پر بار گراں بنتے جارہے ہیں۔ خرابی اور بربادی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ کاشت کاروں یا تاجروں اور دست کاروں پر بہت زیادہ محصولات (ٹیکس) لگادئے گئے ہیں اور ان کی وصولیابی بہت سختی کے ساتھ کی جاتی ہے جس کے سبب جبروتشدد اور بھوک وافلاس میں مبتلا وفادار رعایا بھی بقول برطانوی سامراج باغی ہوجاتی ہے اور بغاوت کو دبانے کے لئے غیر معمولی فوجی طاقت استعمال کی جاتی ہے اور اس کے مصارف بھی قوم سے ہی جبر وتشدد سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ ان چیزوں نے ملک وقوم کوکھوکھلا کردیا ہے۔‘‘

امداد اللہ نے پوچھا: ’ملک و قوم کی فلاح کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں، شاہ اسحقؒ نے آگے فرمایا: ’ملک وقوم کی فلاح وبہبود کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں محصولات کم سے کم ہوں اور دفاع پر بقدر ضرورت صرف کیا جائے اور حالات ایسے پیدا کئے جائیں کہ اندرونی بغاوت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

اس انکشاف کے بعد امداد اللہ ہندوستان کے حالات پر غور کرتے رہے اور ہندوستانی معاشرہ اپنے طبقات کے ساتھ یکے بعد دیگرے ان کی نظروں کے سامنے گھوم گیا۔

شاہ اسحقؒ کی صحبت اور ان کی تعلیمات نے امداد اللہ کے دل میں آتشِ آزادی کو بھڑکا دیا تھا۔ ملک کی آزادی کے لئے جو ذمہ داریاں ان کے سپرد کی گئی تھیں ان کی بجا آوری کے لئے وہ بے چین رہنے لگے تھے۔ ان حالات سے نمٹنے اور کامیابی پانے کے لئے غور کرتے تو مزید الجھ جاتے۔ کام بہت بڑا تھا اور اسے کامیابی سے چلانا غیرمعمولی کام تھا۔ پھر وہ مدینہ منورہ پہنچے اور رسول اکرمﷺ کے آستانے پر حاضری دی اور جو ذمہ داریاں اور فرائض انہیں سونپے جارہے تھے، ان سے عہدہ برآ ہونے کی دعا مانگی۔

اس کے بعد حاجی امداد اللہ ہندوستان واپس آگئے اور یک سوئی کے ساتھ منصوبہ بندی شروع کردی۔ اس دور میں معاشرتی اور سیاسی زندگی اتنی داغدار تھی کہ سمجھنا مشکل ہورہا تھا کہ شگاف کہاں لگایا جائے اورپھاہا کہاں رکھا جائے۔ میاں جی نور محمدؒ سے ملاقات کی۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ میاںجی نے ان کے لئے قیام گاہ کا انتظام کردیا۔ حاجی امداد اللہ نے اپنے حصے کی جائیداد اپنے بھائیوں کو دے دی تھی۔ ادھر ان کے پاس آنے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ایسے لوگوں کی فہرست تیار کی جانے لگی جو ہمہ گیر انقلاب آزادی میں ان کے ساتھی بننے والے تھے۔ ان میںمولانا محمد قاسم نانوتوی، حافظ محمد ضامن اور مولانا رشید احمد گنگوہی سرفہرست تھے۔

انقلاب آزادی کے لئے تدابیر پر بحث کی جاتی۔ حاجی امداد اللہ نے شاہ ولی اللہؒ کے حوالے سے بتایا کہ ’’سارے انسان برابر ہیں اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود کو دوسرے انسانوں کی گردنوں کا مالک تصور کرے۔ ملک کے سربراہ کی وہ حیثیت ہے، جو کسی وقف کے متولی کی ہوتی ہے۔ سربراہ وقف کے متولی کی طرح اتنا وظیفہ لے سکتا ہے کہ ملک کے عام باشندے کی طرح زندگی گزار سکے۔ ’’شاہ ولی اللہ نے یہ بھی لکھا ہے: دولت کی اصل بنیاد محنت ہے۔ مزدور اور کاشت کار قوت کاسِبہ ہیں جب تک کوئی شخص ملک اور قوم کے لئے کام نہ کرے ملک کی دولت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔

ملک کی آزادی کے لئے طے پایا کہ پہلے مغل فرماںروا کی حمایت وتائید حاصل کی جائے۔ اس کے بعد برطانوی سامراج کے خلاف جنگ چھیڑ دی جائے اور انہیں ملک سے باہر نکال دیا جائے۔ ایک فوجی تنظیم کا قیام عمل میںآیا۔ اس تنظیم کے امیرالمؤمنین حاجی امداد اللہ بنائے گئے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حافظ محمد ضامنؒ اور مولانا محمد منیرؒ کو فوج، تحفظ، عدل وقانون وغیرہ کے شعبے دئے گئے۔ مغل بادشاہ بہادر شاہ کو اس تنظیم میں شامل کرنے کے لئے بادشاہ کے منھ چڑھے نواب شبیر علی مرادآبادی کو بادشاہ کے پاس روانہ کردیا گیا۔ برطانوی افسران کو بھی اس تنظیم کی سرگرمیوں کی بھنک لگ گئی تھی۔ اس دوران جنرل بخت خاں دہلی میں فوج کی قیادت کررہے تھے اور جنرل بخت خاں کے نگراں مولانا سردار علی تھے۔ مولانا سردار علی بھی ولی اللٰہی تحریک سے وابستہ تھے۔ حاجی امداد اللہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دہلی پہنچ گئے۔ انہوں نے جامع مسجد میں بہادر شاہ ظفر سے ملاقات کی۔ بادشاہ کی تائید سے اس انقلابی تنظیم نے یہ سمجھ لیا کہ دہلی میں مضبوط نظام حکمرانی کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اس دوران علمائے کرام نے برطانوی سامراج کے خلاف فتوی جہاد جاری کردیا۔ مجلس شوریٰ میں موجود تمام اراکین جہاد کے لئے متفق ہوگئے، لیکن مولانا محمد محدث تھانویؒ نے اختلاف کیا جن کے اختلاف کو مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے رفع کردیا۔ مجلس کے تمام حضرات حاجی امداد اللہؒ کی جانب بڑھے اور آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے لگے۔ اس کے بعد مجلس برخاست کردی گئی اور سرفروشانِ وطن کا یہ قافلۂ آزادی شاملی (ضلع مظفر نگر) کے لئے روانہ ہوگیا۔

معروف مؤرخ مولانا محمد میاں کے مطابق جہاد کی تیاریاں شروع ہوگئیں، حاجی امداد اللہؒ کو امام (امیر جہاد) مقرر کیا گیا۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سپہ سالار، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ قاضی بنائے گئے۔ مولانا محمد منیر نانوتویؒ کو میمنہ اور حافظ محمد ضامنؒ کو میسرہ کا افسر مقرر کیا گیا۔ ان کے مرید اور تلامذہ کے علاوہ عام مسلمان بھی تھانہ بھون اور شاملی میں جمع ہونے لگے۔ اس وقت اسلحہ رکھنے پر پابندی نہیںتھی۔ عموماً لوگوں کے پاس ہتھیار تھے، مگر پرانے تھے۔ توڑے دار بندوقیں تھیں، کارتوسی رائفلیں صرف برطانوی افواج کے پاس تھیں۔ اس طرح ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین آزادی تھانہ بھون اور اطراف میں جمع ہوگئے اور آزاد حکومت قائم کرلی گئی، جو انگریزوں کے ملازم تھے انہیں نکال دیا گیا۔

انہی دنوں شاملی (جو ضلع سہارنپور کے تحت تھا، پھر ضلع مظفر نگر میں رہا اور اب خود ضلع شاملی بن گیاہے) کے ایک رئیس مہارسنگھ نے برطانوی استعمار کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ برطانوی سامراج نے سکھ اور گورکھا فوج کی یلغار سے بغاوت کو کچل کر شاملی پر قبضہ کرلیا۔ ملک کی آزادی کے متوالے علما کی اس جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ غیور ہندوستانی مہارسنگھ کی مدد کی جائے اور شاملی کو آزاد کرایا جائے۔ اسی دوران معتمد مخبرو ںنے یہ خبر دی کہ انگریزی فوج کا توپ خانہ سہارنپور سے شاملی کے لئے روانہ کردیا گیا ہے اور خاصی تعدادمیں فوج بھی ساتھ ہے۔ یہ خبرسنتے ہی علما کی یہ جماعت فکر مند ہوگئی کہ برطانوی فوج نے اگر توپ سے حملہ کردیا تو اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا، لیکن امیر جہاد حاجی امداد اللہؒ نے ان کی ہمت بندھائی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بھروسہ رکھنے کی تلقین کی۔ پھر انہوں نے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی قیادت میں 40مجاہدین کا ایک دستہ تیار کیا اور قصبہ کی سڑک کے پاس واقع شیر علی کے باغ میں چھپ جانے کی تائید کی اور ہدایت دی گئی کہ جب برطانوی فوج کا توپ خانہ اس سڑک سے گزرے تو اپنی کمین گاہ سے گولیاں برسائیں۔ یہ جنگی حکمت عملی مفید ثابت ہوئی۔ اندھیرے میں مجاہدین آزادی کی اچانک فائرنگ سے برطانوی سپاہی بوکھلا گئے۔ انہیں یہ خوف ہوا کہ گھنے باغ میں کوئی بہت بڑی فوج ہے، وہ تمام اپنی جانیں بچاکر فرارہوگئے اور توپ خانہ پر مجاہدین آزادی کا قبضہ ہوگیا۔ اس کے بعد مجاہدین آزادی نے شاملی پر چڑھائی کردی۔ مجاہدین آزادی کے لشکر کو دیکھتے ہی برطانوی فوج نے تحصیل کی چہار دیواری پر مورچہ سنبھال لیا۔ ادھر مجاہدین آزادی کھلے میدان میں تھے۔ اس لئے دیوار کی آڑ سے ہونے والی فائرنگ میں بہت سے مجاہدین آزادی شہید ہوگئے۔ سوانح قاسمی میں لکھاہے: مجاہدین کا ہجوم باہر میدان میں تھا، جہاں کوئی آڑ نہ تھی، اس طرح مجاہدوں کو کافی جانی نقصان ہوا۔ اتفاق سے تحصیل کے قریب ایک چھپر پڑا ہوا تھا۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی نظر اس پر پڑی- چھپرا ٹھاکر تحصیل کے دروازے پر ڈالا گیا اور اس میں آگ لگا دی گئی، جس سے پھاٹک جل گیا اور اندر جانے کاراستہ صاف ہوگیا۔ اب برطانوی فوج کو مقابلے کی تاب نہ رہی۔ کچھ سپاہی کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوئے، کچھ مقتول ہوئے اور باقی گرفتار کرلئے گئے۔ اس طرح مجاہدین آزادی نے شاملی پر قبضہ کرلیا۔ شاملی اور تھانہ بھون میں جشن آزادی کی خبر کے ساتھ ہی کیرانہ میں ہزاروں غیور شیوخ اور گوجر مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے پرچم تلے جمع ہوگئے اور ان کی قیادت میں کیرانہ بھی آزاد کرالیا گیا۔ علاقہ میں عام اعلان ہونے لگا: ملک بادشاہ کا، حکم مولوی رحمت اللہ کا‘‘ جب کیرانہ کی خبریں برطانوی فوج کے اعلیٰ افسران کو پہنچیں تو برطانوی ٹڈی دل فوج نے کیرانہ پر حملہ کردیا، لیکن مولانا رحمت اللہ نے بہادرجرنیل کی طرح فوج کا مقابلہ کیا۔ برطانوی افواج کی زبردست گولہ باری سے اس جنگ کا انجام بھی شکست کے ساتھ ہوا، لیکن یہ آزادی کے جذبات کی جنگ تھی، جس میں لڑنے والے فنا ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے جذبے زندہ رہتے ہیں۔

دوسری طرف برطانوی فوج نے شاملی میں فوراً ہی خود کو یک جا کیا اور فائرنگ شروع کردی گئی۔ ایک گولی حافظ محمد ضامن شہید کی ناف کے نیچے لگی۔ حالات بدل گئے، حافظ محمد ضامن کی وصیت کے مطابق مولانا رشید احمد گنگوہی انہیں فوراً قریب کی مسجد میں لے گئے اور اپنے زانو پر حافظ محمد ضامن کا سر رکھا اور اسی عالم میں یہ شہید آزادی محبوب حقیقی سے جاملا۔ حافظ محمد ضامن کی شہادت کے بعد پہلے پہل خبر آئی کہ دہلی پر دوبارہ برطانوی افواج کا قبضہ ہوگیا۔ پھر اس طرح کی خبریں ہر جگہ سے آنا شروع ہوگئیں۔ پہلے برطانوی فوجی چھپتے پھرتے تھے، لیکن وہ پھر تازہ دم فوج کی طرح دندنانے لگے۔ 19؍ستمبر 1857ء کو بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے بعد ہندوستان کا نقشہ ہی بدل گیا۔ دہلی پر قبضہ کے بعد برطانوی افواج نے دہلی کے اطراف کے علاقوں کو نشانہ بنایا، جس میں تھانہ بھون، کیرانہ، شاملی اور میرٹھ شامل تھے۔ اس لئے کہ برطانوی سامراج سمجھتے تھے کہ مسلمان مجاہدین ہی ان کے خلاف ہیں۔ انہیں دباکر رکھنا ضروری ہے۔

ان تاریخی واقعات کا سلسلہ 10؍مئی 1857سے شروع ہوا تھا، جو بالآخر 19؍ستمبر کو ہزاروں علمائے ہندکی شہادت کے بعد جنگ آزادی کی ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوا۔

تحریک آزادی کی ناکامی کے بعد برطانوی حکومت نے حاجی امداد اللہؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ وغیرہ کے نام وارنٹ جاری کردئے۔ حاجی امداد اللہؒ پنجلاسہ (انبالہ) میں رائو عبداللہ اور گڑھی پختہ کی ایک حویلی میں کچھ دنوں مقیم رہے۔ حاجی امداد اللہؒ کی طرف سے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ بڑے بے چین اور مضطرب تھے۔ پنجلاسہ میں حاجی امداد اللہؒ سے ملاقات کی بہت روئے اور دریافت کیا کہ اب کیا حکم ہے۔ حاجی امداد اللہ نے فرمایا: مشیت کو ابھی شاید وہ سب منظور نہیں، جو ہم چاہتے ہیں اور یہی کام شاید کسی اور سے لیناچاہتی ہے۔ اس کے بعد حاجی امداد اللہؒ نے فرمایا کہ میںاب مکہ معظمہ جارہا ہوں اور تحریک آزادی کو وہیں سے جاری رکھا جائے گا۔ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اپنے متعلق دریافت کیا تو حاجی امداد اللہؒ نے انہیں ہندوستان میں رہنے کے لئے کہا اور یہ بھی کہا کہ قدرت شاید تم سے سے کوئی بڑا کام لیناچاہتی ہے۔ اس کے چند روز بعد مولانا رشید احمد گنگوہیؒ رام پور منیہاران سے گرفتارکرلئے گئے۔ پہلے سہارنپور اس کے بعد مظفر نگر لایا گیا، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ ثابت نہیں ہوسکے۔ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے کم وبیش 6مہینے مظفر نگر کی جیل میں گزارے۔ اس کے بعد جنوری 1860ء میں رہا ہوئے۔

علمائے ہندنے آزادی ہند کے لئے جو قربانیاں پیش کیں کسی بھی ملک کی تاریخ آزادی ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔ ان آزادی کے متوالوں کی سالہا سال کی قربانیاں رنگ لائیں اور 15؍اگست 1947ء کو بالآخر ہندوستان آزاد ہوا۔

مآخذ:

موجِ کوثر: شیخ محمد اکرام

حیاتِ امداد: پروفیسر انوار الحسن شیر کوٹی

علمائے ہندکا شاندار ماضی: مولانا سید محمد میاں

فخر وطن: فاروق ارگلی

روشنی کے مینار: مضمون: حاجی امداد اللہ مہاجر مکی

سوانح قاسمی

]

You may also like

Leave a Comment