Home تجزیہ مقبول بٹ اور افضل گرو کے لیے دوہرا معیار کیوں؟ ـ افتخار گیلانی

مقبول بٹ اور افضل گرو کے لیے دوہرا معیار کیوں؟ ـ افتخار گیلانی

by قندیل

6فروری1984ء کی خنک آلود دوپہر جب دہلی سے انڈین ایئر لائنز کا طیارہ ریاست جموں و کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں ایئرپورٹ پہنچا، تو سانولے رنگ کا ایک پست قد شخص تیزی کے ساتھ سیڑھیاں طے کرتے ہوئے نیچے اترا۔ دیگر مسافر تو ایئرپورٹ بلڈنگ کی طرف روانہ ہوئے، یہ شخص ایک بریف کیس تھامے سیڑھی کے ساتھ ہی پارک کی گئی ایک ایمبسڈر کار میں بیٹھ گیا، جو فوراً ہی حرکت میں آگئی۔اس کی منزل سیکرٹریرٹ سے متصل جموں کا اسمبلی کمپلیکس تھا، جہاںجموں میں متعین بھارت کے خفیہ محکموں کے چند افراد پورچ میں بے چینی کے ساتھ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اسمبلی کمپلیکس پہنچ کر اس شخص کو تیزی کے ساتھ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے چیمبر میں لے جایا گیا۔ جلد ہی وزیر قانون اور پولیس کے سربراہ پیر غلام حسن شاہ بھی چیمبر میں آن پہنچے۔

ان دنوں ریاست کے واحد انگریزی اور کثیر الاشاعت اخبار کشمیر ٹائمز کے مدیر وید بھسین کسی کام کے سلسلے میں کمپلیکس میں موجود تھے۔ پہلے تو انہیں لگا کہ یہ کوئی روٹین میٹنگ ہے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے، وید جی کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کے چیمبر کے اطراف ماحول خاصا تناؤ سے پُر تھا۔ سیکورٹی کا حصارکھینچا گیا تھا۔ ان دنوںدہلی سے سرینگر بذریعہ جموں فلائٹ آتی تھی ، جو واپسی پر مسافروں کو چھوڑنے اور لینے کےلیے پھر جموں میں رکتی تھی۔ایئر پورٹ سے خبر آگئی تھی کہ فلائٹ واپس جموں آچکی تھی اور کسی وی وی آئی پی کو د ہلی لےجانے کےلیے ایئر پورٹ پر ایک گھنٹہ سے انتظار کر رہی تھی۔ بلڈنگ سے نکلتے ہی وید جی نے چیف جوڈیشل آفیسر، ٹھاکر پوتر سنگھ کو‘ جو اس وقت ایک سیشن جج تھے‘ گاڑی سے اترتے دیکھا۔ ان کو بھی وزیر اعلیٰ کے چیمبر میں پہنچایا گیا۔پوتر سنگھ کے اندر جانے کے آدھے گھنٹہ کے بعد سانولا شخص، جو بھارت کی وزرات داخلہ کا ایک افسر تھا، ہاتھ میں بریف کیس لیے ایئرپورٹ کی طرف تیزی کے ساتھ روانہ ہوا۔

بعد میں پوتر سنگھ نے وید جی کو بتایا کہ چیمبر میں ان سے ایک طرح سے زبر دستی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کشمیر حریت پسند راہنما محمد مقبول بٹ کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط لیے گئے۔ وہ پہلے مصر تھے کہ یہ ایک عدالتی کارروائی ہے، جو عدالت میں یا زیادہ سے زیادہ جج کے چیمبر میں ہونی چاہئے تھی۔ ایک جج کو وزیر اعلیٰ کے چیمبر میں بلانے پر بھی انہوں نے احتجاج درج کروایا تھا۔ بہرحال اگلے دن ’کشمیر ٹائمز‘ کی یہ بڑی خبر تھی ۔معروف صحافی ظفر معراج سرینگر میں کشمیر ٹائمز کا آفس سنبھالنے کے علاوہ ایک اردو اخبار آئینہ کی ادارت کا کام بھی کرتے تھے۔ دونوں اخبارات کا نیوز شیئر کرنے کا ایک بندوبست تھا۔ خبر و سرخی تیار کرنے کے بعد ظفر معراج اور ان کے ایک دوست کیپٹن تکو نے مشور ہ کیا کہ مقبول بٹ کو سزائے موت سے بچانے کی آخری کوشش کرنی چاہیے۔

مقبول بٹ چونکہ کشمیر میں ایک انڈر گرائونڈ لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، اس لیے بہت کم افراد ان سے ذاتی طور پر واقف تھے۔ واقف کار حلقہ میں ایک نام میاں سرور کا تھا، جو 70کی دہائی میں الفتح سے وابستگی کے نتیجے میں جیل بھگت چکے تھے اور اب کورٹ کمپلیکس کے باہر سرینگر کے واحد فوٹو اسٹیٹ سینٹر کے مالک تھے۔ 3فروری 1984ء کو لندن میں بھارتی سفارت کار رویندر مہاترے کا اغوا اور بعد میں قتل کیا گیا۔ ایک نامعروف گروپ کشمیر لبریشن آرمی نے اغوا کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مقبول بٹ کی رہائی اور ایک ملین پونڈ کے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ دو دن بعد سفارت کار کی لاش لندن کے نواح میں برآمد ہوگئی۔ اسی رات وزیرا عظم اندرا گاندھی نے ایک میٹنگ بلاکر مقبول بٹ کی موت کا فرمان جاری کیا۔ ظفر معراج، میاں سرور اور دیگر دوستوں کا خیال تھا کہ اس وقت مقبول بٹ کو پھانسی پر چڑھانا انتقامی کارروائی کے زمرے میں آتا ہے۔ خیر قانونی مشورہ کےلیے آدھی رات گئے، ریاست کے نامور وکیل مظفر بیگ سے رابط کیا گیا، جو اسوقت کسی کیس کے سلسلے میں دہلی میں تھے۔ انہوں نے میاں سرور کو کورٹ کے پیپرز تیار رکھنے اور بٹ کے اہل خانہ کو سرینگر پہچانے کےلیے کہا ، تاکہ وہ وکالت نامہ پر دستخط کر سکیں۔ اگلی صبح میا ں سرور نہ صرف کورٹ سے کاغذات وغیرہ نکال چکے تھے، بلکہ مقبول بٹ کے برادر اکبر غلام نبی بٹ کو بھی کپواڑہ ضلع کے ترہگام سے سرینگر لانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

7فروری کو سرینگر واپس آکر بیگ نے کاغذات کھنگالنے کے بعد نعرہ یا ہو بلند کیا کہ وہ آدھی جنگ جیت چکے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اگست 1968ء کو جج نیل کنٹھ گنجو کی طرف سے سزائے موت کا فیصلہ صادر کرنے کے بعد تاحال جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اس کی تصدیق و توثیق نہیں کی تھی۔ بیگ نے ہائی کورٹ جاکر ریکارڈ دوبارہ چیک کیا اور رجسٹرار ملک سیف الدین سے اس سلسلے میں ایک باضابطہ دستخط شدہ سرٹیفکیٹ بھی حاصل کی ۔ جس میں بتایا گیا کہ مقبول بٹ کا معاملہ ابھی ہائی کورٹ میں زیر غور ہے۔ ان حالات میں قانونی طور پر بلیک وارنٹ پر عمل کرنا ممکن نہیں تھا اور سبھی قانون دانوں کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ سزا کو موخر کر دے گی۔

مگر شاید ان کو معلوم نہیں تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ آزاد اور خود اختیار ہی سہی، مگر جب اہل کشمیر کا معاملہ یہاں پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ 29سال بعد افضل گورو کو پھانسی دیتے وقت اور کشمیر کے ان گنت کیسوں کو نپٹاتے وقت بھی اس کورٹ نے مایوس ہی کیا ہے۔ مظفر بیگ نے دہلی پہنچ کر معروف وکیل اور کانگریس کے موجودہ سینئر لیڈر کپل سبل کی خدمات حاصل کیں۔ مقبول بٹ کے وکیل رمیش چندر پاٹھک اور راجہ محمد طفیل نے معاونت کیلئے خدمات پیش کیں۔ مقبول بٹ کے برادر غلام نبی بٹ کی دہلی روانہ کرنے کےلیے ٹکٹ وغیر ہ کا انتظام میاں سرور کر چکے تھے، مگر سرینگر ایئرپورٹ پر ان کو روک کر حراست میں لیا گیا۔

10 فروری 1984ء کو کپل سبل نے چیف جسٹس ، جسٹس چندرا چوڑ کی عدالت میںخصوصی اور فوری سماعت کےلیے عرضی دائر کی۔ سبل نے زور دار بحث کرکے دلیل دی کہ ہائی کورٹ کی طرف سے سزا کی توثیق کئے بنا ، سزائے موت پر عمل درآمدنہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی دستخط و مہر شدہ سند بھی پیش کی۔ اٹارنی جنرل کے پراساران نے دلائل کا جواب دیئے بغیر بس ایک سادہ ٹائپ شدہ کاغذ چیف جسٹس کے حوالے کیا ، جس پر کسی کے دستخط نہیں تھے، اور دعویٰ کیا کہ یہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا توثیق نامہ ہے۔ چیف جسٹس نے سبل کی اپیل مسترد کی اور مداخلت کرنے سے انکار کیا۔ بس ایک مراعت کے نام پر مظفر بیگ، رمیش چندر پاٹھک اور راجہ محمد طفیل کو تہاڑ جیل میں آخری ملاقات کی اجازت دی۔ اس حکم نامہ کو لے کر تینوں افراد تہاڑ کی جیل نمبر تین کے گیٹ کے باہر پہنچے ، جہاں ان کو گھنٹوں انتظار کروایا گیا۔

سورج غروب ہو رہا تھا ، کہ ایک جیل افسر نے باہر آکر کہا کہ بس رمیش چندر پاٹھک پانچ منٹ کےلیے قیدی سے اس کی سیل میں ملاقات کر سکتے ہیں۔ پاٹھک ہائی سکیورٹی وارڈ کی پیچ در پیچ برآمدوں کو پار کرتے ہوئے اس پورشن میں پہنچے، جہاں پھانسی پانے والے مجرموں کو آخری دس دن رکھا جاتا ہے۔ راقم بھی2002ء میں تہاڑ جیل کے اس سیل میں کئی روز قید رہا ہے، تاآنکہ رحم کھاکر جیل انتظامیہ نے بعد میں جنرل وارڈ میں منتقل کیا۔ پاٹھک نے پوری عدالتی کاروائی مقبول بٹ کے گوش گزار کی۔ انہوں نے پاٹھک کا شکریہ ادا کیا اور مظفر بیگ و راجہ محمد طفیل تک بھی شکریہ پہنچانے کےلیے کہا۔ پاٹھک کی غالباً1997ء میں موت ہوئی ۔ ان کی دختر وسندرا پاٹھک مسعودی بھی فی الوقت سپریم کورٹ کی نامور وکیل ہے۔ بقول پاٹھک، جن کے ساتھ دہلی میں انکے چیمبر اور ان کے گھر پر اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں، مقبول بٹ کے آخری الفاظ تھے۔’’کل مجھے پھانسی پر چڑھایا جائیگا، مجھے کوئی افسوس نہیں ہے‘‘۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم ہیں چراغ آخری شب، ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔ نہ مسکراؤ میری بے بسی پر اے تارو۔تم اپنی خیر مناؤ کہ رات جاتی ہے۔

اس کے بعد پاٹھک نے اپنی ڈائری میں انگریزی میں مقبول بٹ کا آخری جملہ درج کیا ہو ا تھا۔ "I am confident that tomarrow my chidren (peopel of Kashmir) will realise the truth and legitimacy of what I stood for all these years and for what I am today sacrifising my life.” ’’مجھے یقین ہے کہ کل میرے بچوں(کشمیر عوام)کو میری جدوجہد کی سچائی کا ادراک ہوگا، جس کےلیے میں آج اپنی زندگی قربان کر رہا ہوں‘‘ اگلے روز 11فروری کی صبح مظفر بیگ بی بی سی کے نمائندے ستیش جیکب کے ہمراہ جیل کے گیٹ پر آپہنچے کہ جیل کے افسر نے باہر آکر اعلان کیا کہ صبح سویرے مقبول بٹ کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے اور انکی نعش کو جیل کے احاطہ میں ہی دفن کر دیا گیاہے۔ بیگ نے وکالت نامہ دکھا کر ڈائری و قیدی کے زیر استعمال دیگر اشیاء حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ۔ جیل افسران نے ایسی کسی بھی چیز کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

مقبول بٹ اور افضل گورو کا کیس بھارتی عدلیہ کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ قانون کے کئی طالب علموں نے حق اطلاعات قانون کا سہارا لیکر کئی بار سپریم کورٹ سے مقبول بٹ کے کورٹ پیپریز مطالعہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی، جس کو متعدد بار مسترد کر دیا گیا۔ ان دونوں افراد کو تختہ دار تک پہنچانے میں کشمیر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس بھی کچھ کم ملوث نہیں ہے۔ اس پارٹی کے لیڈروں کے دامن پر یہ ایک بدنما داغ ہے، جو شاید ہی کبھی دھل سکے۔ اقتدار کی نیلم پری کے قرب نے اس پارٹی کو نہ صرف بزدل بنا کر چھوڑا ہے ، بلکہ اس کے لیڈروں کی خود اعتمادی بھی چھین لی ہے۔

مقبول بٹ کی پھانسی کے سلسلے میں جو رول 1984ء میں فاروق عبداللہ نے ادا کیا تھا، ان کے فرزند عمر عبداللہ نے فروری 2013ء میں اسی کا اعادہ کرکے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔8فروری 2013ء کی رات جب وہ دہلی کے ایک ریسٹورنٹ میں ڈنر کر رہے تھے ، تو وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے ان کو فون کر کے بتایا کہ ’’جو بات اس دن ہوئی تھی ، وہ کل ہو رہی ہے، خیال رکھیے گا۔‘‘ دس روز قبل 30جنوری کو عمر عبداللہ کی ملاقات شنڈے سے ان کے دفتر میں ہوئی تھی اور ان کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاستی حکومت نے گران قدر یہ مشورہ دیا تھاکہ اگر پھانسی پر عملدرآمد کرنا ہے تو موسم سرما میں ہو کیونکہ دارالحکومت سرینگر شفٹ ہونے کے بعد سکیورٹی میں پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ وہ پنجاب کی اکالی دل حکومت یا تامل ناڈو میں تامل قوم پرستوں کی صوبائی حکومت کی پیروی کرسکتے تھے۔ آخرکیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کی سخت گیر حکومت بھی بلونت سنگھ روجانہ اور دیوندر پال سنگھ بھلیر کی عدالت کی طرف سے دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کر پاتی ہے؟

تامل ناڈو حکومت راجیو گاندھی کے قتل کی معاونت میں 27 سالوں سے جیل میں بندمجرموں کو آزاد کرنے پر بضد ہے۔ سابق وزرائے اعظم اندرا گاندھی،راجیوگاندھی کے قاتلوں ،جنوبی بھارت کے بدنام زمانہ ڈاکو ویراپن کے ساتھیوں ، حتیٰ کہ ممبئی بم دھماکوں میں ملوث یعقوب میمن کی رحم کی درخواستوں پر کئی دن سپریم کورٹ نے سماعتیں کیں ۔ ان کے نا منظور ہونے پر ان کے اہل خانہ کو مطلع کیا اور انہیں سپر یم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کے لیے مہلت دی گئی لیکن مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کے سلسلے میں دہرا معیاراپنایاگیا۔ آخر کیوں؟

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment