امت مسلمہ کایہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اس روئے زمین پر نسل انسانی میں انبیاء ومرسلین کے بعد کسی کاعالی مرتبہ اور درجہ ہے ،تو وہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاہے۔
کیوں کہ ان ہی کےذریعہ ہم تک یہ دین اسلام پہنچاہے اور آج ہم مسلمان ہیں،ورنہ آج ہم ضلالت وگمرہی کی کس وادی میں بھٹک رہےہوتے ،کسی کوکچھ خبرنہیں۔
اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :مااناعليه وأصحابي .کی روشنی صحابہ کرام ہی معیارحق اور معماردین ہیں۔
ان کی اتباع در اصل ملت اسلامیہ کی اتباع ہے اور ان سے الفت ومحبت درحقیقت پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت و محبت کرنے کےمترادف ہے؛کیوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کاواضح فرمان ہے:من احبهم فبحبي احبهم ومن ابغضهم فببغضي ابغضهم.اور اسی طرح ان کی مدح وسرائی میں رطب اللسان رھنا یقینافخرکائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال وابستگی اوربےپناہ قربت کی ایک واضح دلیل ہے؛اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات مبارکہ ہم نابکاروں کے لیے مشعل راہ ہے۔
مزید برآں یہ کہ صحابہ کرام آسمان ھدایت کے تابندہ وپائندہ ستارے ہیں ؛کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اصحابي كالنجوم بايهم اقتديتم اهتديم (الترمذي )۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ جماعت صحابہ کرام کا وجود ہے جن کے واسطے اللہ جل جلالہ نے اپنے حبیب ومحبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے عالمگیر پیغام رسالت کو خطہ ارضی کے ہر گوشہ تک اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلایا ۔
صحابہ کرام نے اپنی پوری زندگی تبلیغ و ترویج کےلئےوقف کردیا تھا اور ان کے قلب وجگر میں ایمان ویقین اس طرح پیوستہ ومنجمد تھا کہ اولاد کی محبت کو درکنا کرکے دامن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےوابستہ رہنے کوہمہ وقت اپنےلیےسعادت ونیک بختی شمار کرتے تھے۔
لفظ صحابی کی لغوی واصطلاحی تحقیق:
لغوی تحقیق :صحبت کا لغوی مفہوم :دو افراد کا باہمی تعلق ہے،طویل ہو یا مختصر،حقیقی ہو یامجازی(المنھج الاسلامی فی الجرح والتعدیل)لفظ صحابی کی نسبت، صحابہ کی طرف ہے،جو مصدر ہے اور صحبت کے معنی میں ہے۔
اصطلاحی تحقیق:جس نے بھی بحالت ایمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیااور پھراس کاخاتمہ بھی ایمان ہی پرہواہو ،وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں،”قید ملاقات "کے تحت وہ تمام افراد آتے ہیں:جو طویل وقفے کے لئے آپ کی مجلس میں رہے یا مختصر وقفے لئے؛آپ سے روایت نقل کی ہویا نہ کی ہو ؛کسی غزوہ میں شریک ہوئے ہوں یا نہ ہونے ہوں؛جس نے بھی آپ کو ایک بار بھی دیکھ لیاہو،اوراگرکسی عذر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدارہی کرنے سے قاصر وعاجز رہا ہو مثلا:وہ نابیناتھا؛لیکن اسے آپ کی مجلس میں بیٹھنے کاشرف حاصل ہواہو،وہ بھی اس تعریف کی روشنی میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
چناں چہ جس نے بھی حالت کفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کاہو یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے وقت تو کا فر تھا ؛لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد مشرف بہ اسلام ہوگیا۔یا کسی اورپر ایمان کی حالت میں آپ سے ملاہو مثلا اہل کتاب؛ایسے تمام لوگ صحابی رسول نہیں کہلائیں گے؛لھذا جس نے بحالت ایمان آپ سے ملاقات کیا،بعدہ- نعوذباللہ -مرتد ہوگیا اور حالت ارتداد ہی میں مرگیا؛وہ اس تعریف سے خارج ہے۔جیسے عبد اللہ بن خطل اور عبیداللہ بن جحش ،اور جس نے بحالت ایمان آپ سے ملاقات کااور پھر-نعوذباللہ – مرتد ہوگیا، پھربتوفیق ایزدی آپ کی وفات سے قبل مشرف بہ اسلام ہوگیا،وہ صحابی کی تعریف میں داخل ہے ۔مثلا اشعث بن قیس، اور قرہ بن ہبیرہ،(ارشاد الفحول ص/7)۔
صحابہ کرام کے فضائل ومناقب ،شمائل وخصائل،مقام ومرتبہ،عظمت وجلالت ،قدرومنزلت ،عزت ورفعت قرآنی آیات و احادیث میں بکھرے ہوئے ہیں ؛مگر یہاں صرف دوقرآنی آیتیں اور دواحادیث مبارکہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔
شان صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین قرآن کے آئینے میں:(1)محمد رسول الله والذين معه اشداء علي الكفار رحماء بينهم تراهم ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله ورضوانا سيماهم في وجوههم من اثر السجود.ذلك مثلهم في التوراة ومثلهم في الانجيل .(الفتح:29)۔
ترجمہ:حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلےمیں تیز ہیں، آپس میں مہربان ہیں ،اے مخاطب!تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کررہےہیں، کبھی سجدہ کررہے ہیں، اللہ تعالی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہمہ وقت لگے ہوئے ہیں ۔ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ کے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں ،یہ ان کے اوصاف توریت میں ہیں اور انجیل میں بھی۔
آیت کریمہ ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا یہ امتیاز بتاتی ہےکہ وہ بڑے نمازی، مخلص،نیک دل،رضائے الہی وثواب کے خواہاں ہیں،اوران کے چہرے کی علامت بتاتی ہےکہ وہ کثرت سے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور یہ کہ کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں رحم دل ہیں اور بھائی بھائی بن کر،محبت وتعاون اور رحم وکرم کی فضامیں زندگی گذارتے ہیں ۔
(2)الذين أمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله باموالهم وانفسهم اعظم درجة عند الله وأولئك هم الفا ئزون (سورة توبة /20)۔
ترجمہ:جوایمان لائے،گھر چھوڑے اور لڑے اللہ کی راہ میں،اپنے مال اور جان سے،ان کے لئے بڑا درجہ ہے،اللہ کے یہاں اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں ۔
یہ آیت کریمہ واضح کررہی ہےکہ صحابہ کرام، ایمان والے ہیں، انہوں نے راہ خدا میں،اپنا گھر چھوڑا،اپنی جان ومال کو قربان کیا،جس کےسبب،اپنے قدر داں پروردگار کے پاس،عظیم ترین مقام کے مستحق ہوئے ہیں۔
شان صحابہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں:حضرابوسعید خدری رضی اللہ اللہ عنہ سےرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادعالی منقول ہے:لاتسبوا اصحابي فوالذي نفسي بيده لو أنفق أحدكم مثل احد ذهبا مابلغ مد أحدهم ولا نصيفه (بخاري/كتاب الفضائل)۔
ترجمہ:میرے صحابہ کو برابھلا مت کہو؛کیوں کہ تم میں سےاگر کوئی آدمی احد پہاڑ کے برابربھی سونا،اللہ کی راہ میں خرچ کرےگا،پھر بھی وہ صحابہ کرام کے ایک "مد”بل کہ نصف مد کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتاہے۔
اس حدیث سے یہ بات آشکارا ہوتی ہےکہ صحابہ کرام اللہ کے یہاں اس قدراعلی وارفع مقام پر فائز تھے،کہ بعد کے لوگ بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دیں، تو بھی وہ صحابہ کرام کے مقام عالی کوکسی بھی صورت میں نہیں پاسکتےہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اذارأيتم الذين يسبون أصحابي، فقولوا:لعنة الله على شركم.(ترمذي/كتاب المناقب)۔
ترجمہ:جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو کہ جو میرے صحابہ کو برابھلا کہتے ہیں،تو ان سے کہو:خدا کی لعنت ہو،اس پر جو تم دونوں( صحابی اور تم)میں سے برا ہو۔
اس حدیث میں صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے والے کو مستحق لعنت قرار دیا گیا ہے ۔
اللہ تبارک و تعالی ہم تمام مسلمانوں کےقلوب میں صحابہ کرام کی عظمت ودیعت فرمائے،آمین ۔