متعلم دارالعلوم دیوبند
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم نے جن بنیادی مسئلوں میں اہل سنت و الجماعت کے متفق علیہ موقف کی مخالفت کی ہے اور ایک ناجائز موقف پیش کِیا ہے، ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دین میں حیثیت کیا ہے؟ مہتمم دارالعلوم دیوبند حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی قدس اللہ سرہ (جو اگست 1951 میں علماء کی ایک مؤقر جماعت کے ساتھ یہ مشترک اعلامیہ جاری کر چکے تھے کہ مولانا مودودی مرحوم کے نظریات گمراہ کن ہیں) نے مئی 1957 میں ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں مقامِ صحابہؓ کے مسئلے کی تحقیق فرمائی ہے، جو اس علم دوستی اور انصاف پسندی کی ترجمان ہے جو علمائے دیوبند کا خاصّہ رہی ہے۔ چنانچہ آپ نے معیارِ حق سے متعلق دستورِ جماعتِ اسلامی کی دفعہ کے ناجائز مفہوم کی تردید کرتے ہوئے اس دفعہ کا ایک ایسا مفہوم اور ایسی ترمیم تجویز فرمائی کہ اگر مولانا مودودی اسی مفہوم کو تسلیم کر لیتے تو ان کا اس مسئلے میں اہلِ حق سے اختلاف رفع ہو جاتا۔ قاری صاحب رحمہ اللہ کی تجویز کردہ یہ ترمیم مولانا مودودی اور ان کی جماعت نے کبھی نہیں قبول کی۔ یہی نہیں، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم نے اگست 1961، اکتوبر 1966 اور اپنی وفات سے صرف تین سال قبل اگست 1976 میں خود بہت صراحت کے ساتھ اس مسئلے کا ناجائز مفہوم متعین کر دیا، جس کے بعد اس جائز مفہوم کی گنجائش ہی نہیں بچی جو حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے تجویز کِیا تھا، بلکہ اس کی صریح تردید ہو گئی، اور خود مولانا مودودی کی صراحتوں کی روشنی میں یہ طے ہو گیا کہ وہ مقامِ صحابہؓ کے مسئلے پر اہل سنت و الجماعت کے مخالف ہیں، نیز جو جائز مفہوم قاری طیب صاحب رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا مقالے میں تجویز کِیا تھا، مولانا مودودی اس جائز مفہوم کے قائل نہیں ہیں۔
اس تسلسلِ واقعات کی آخری اور اہم ترین کڑی یہ ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کی وفات کے تین ماہ بعد حضرت مولانا قاری طیب صاحب قاسمی رحمہ اللہ نے مدراس میں مقامِ صحابہؓ کے مسئلے پر ایک تاریخی خطاب فرماتے ہوئے مولانا مودودی مرحوم کا نام لے کر صراحت کی کہ جن مسائل میں وہ اہل سنت والجماعت کے اصول سے اختلاف رکھتے ہیں ان میں ہم انہیں غلط کہتے ہیں، اور اس وقت تک کہتے رہیں گے جب تک رجوع نہ کر لیں۔
اس اجمال کی تفصیل حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا مقالے کا خلاصہ پانچ نکات میں یہ ہے؛
نمبر ایک: دستورِ جماعتِ اسلامی میں معیارِ حق کے سلسلے میں جو دفعہ درج ہے، قاری صاحب نے تحریر فرمایا کہ اس کا بالکل واضح معنی بلکہ اس کا مصداق یہی ہے کہ صحابۂؓ کرام معیارِ حق نہیں ہیں، اور یہ معنی یقیناً اصولِ دین کے خلاف ہے۔
نمبر دو: جماعتِ اسلامی کا دستور مرتب کرنے والے بعض ذمے داران نے ایک کتاب میں یہ وضاحت دی، کہ ہم بھی صحابۂ کرام کو معیار مانتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان وضاحت دینے والے حضرات میں خود مولانا مودودی مرحوم شامل نہیں تھے۔ اس وضاحت کو حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے قبول کِیا، اور فرمایا کہ جماعت کے ان ذمے داران کی ان وضاحتوں کا حاصل یہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ امت کے حق میں کسوٹی ہیں، جو ان پر منطبق ہو جائے وہ مقبول ہے ورنہ مردود۔ اب جب دستور ترتیب دینے والے بعض ذمے داران خود یہ مان رہے ہیں کہ صحابۂ کرام کسوٹی ہیں، تو انہیں معیاریت حق کا منکر نہیں کہا جا سکتا۔
نمبر تین: قاری صاحب نے یہ تنقیح فرمائی کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ و سلم بالذات معیارِ حق ہیں، اور صحابۂ کرام بالذات معیارِ حق نہیں ہیں بلکہ بالعرض معیارِ حق ہیں۔ یعنی نبیِ کریم صلّی اللہ علیہ وسلم تو خود اپنی ذات میں معیارِ حق ہیں، اور صحابۂ کرام اس لیے معیارِ حق ہیں کیوں کہ انہیں قرآن کریم اور رسول اللہﷺ نے حق پر ہونے کی سند دی ہے۔اس فرق سے اس حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا صحابۂ کرام بھی معیارِ حق ہیں، خواہ بالعرض ہی کیوں نہ ہوں۔
نمبر چار: قاری صاحب رحمہ اللہ نے یہ اصرار کِیا کہ معیارِ حق کے بارے میں دستورِ جماعتِ اسلامی کی دفعہ یہ معنی رکھتی ہے کہ اہلِ جماعت اسلامی کے نزدیک صحابۂ کرام نہ تو بالذات معیارِ حق ہیں اور نہ بالعرض، اس لیے اس دفعہ میں ترمیم کرنا ضروری ہے، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ جماعتِ اسلامی صحابۂ کرامؓ کو بالذات معیارِ حق نہیں مانتی مگر بالعرض معیارِ حق مانتی ہے، یعنی دستور میں درج نفی کا محمل معیاریتِ بالذات ہے، معیاریت بالعرض نہیں۔ یہ مسئلہ کوئی ضمنی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ جماعت کا دستور ہے، اور دستور کے مؤلف ابھی حیات ہیں، اس لیے یہ بات بے حد ضروری ہے کہ جماعتِ اسلامی کے دستور میں یہ ترمیم کر لی جائے جس سے یہ واضح ہو جائے کہ وہ بھی صحابۂ کرام کو معیار اور کسوٹی مانتے ہیں۔
آج تک جماعت اسلامی کے دستور میں قاری صاحب رحمہ اللہ کی تجویز کردہ ترمیم نہیں ہوئی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مولانا مودودی مرحوم نے آنے والے برسوں میں قاری صاحب رحمہ اللہ کی تجویز کو قبول کرنا اور دفعہ میں ترمیم کرنا تو کجا، مزید قوت کے ساتھ معیارِ حق اور مقامِ صحابہ کے مسئلے پر ایسی تصریحات کر دی ہیں جو اسی غلط مفہوم پر افسوس ناک حد تک اصرار کرتی ہیں جس کی حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے تردید کی تھی، اور جماعتِ اسلامی ہند کے دستور میں معیارِ حق کی دفعہ پر جو حاشیہ لگا ہے وہ مولانا مودودی کی انہی افسوس ناک تصریحات پر مبنی ہے۔ ان تصریحات کے نقل کرنے سے پہلے اس بات کی تفہیم ضروری ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے بالعرض معیارِ حق ہونے کا کیا مطلب ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے قرآن و سنت بالذات معیارِ حق ہیں، جو شخص اس معیار پر کھرا اترے وہ برحق ہے۔ اب یہ معلوم کیسے ہو گا کہ فلاں شخص قرآن و سنت کے معیار پر اترتا ہے؟ یہ معلوم ہونے کے دو راستے ہو سکتے ہیں، ایک راستہ یہ ہے کہ خود قرآن و سنت یہ اعلان کر دیں کہ فلاں شخص قرآن و سنت کے طے کردہ معیار پر کھرا اترتا ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ امت کسی شخص کو قرآن و سنت میں طے کردہ معیار پر پرکھے اور پھر یہ طے کرے کہ یہ شخص اس معیار پر اترتا ہے یا نہیں۔
جس شخص کو قرآن و سنت یہ سند دے دیں کہ یہ قرآن و سنت کے معیار پر کھرا اترتا ہے، وہ شخص محض یہ نہیں کہ انفرادی حیثیت سے برحق ہو گا، بلکہ وہ اس سند کی بناء پر خود حقانیت کا پیمانہ بن جائے گا، یعنی بالعرض معیارِ حق بن جائے گا، یہ ہے بالعرض معیارِ حق ہونے کا مطلب۔ اس کے برخلاف جس شخص کو امت پرَکھ کر یہ سند دے کہ یہ قرآن و سنت کے پیمانے پر کھرا اترتا ہے، اسے اپنی ذات کی حد تک برحق تو سمجھا جائے گا، مگر وہ اس شخص کی طرح حقانیت کا پیمانہ نہیں بنے گا جسے برحق ہونے کی سند قرآن و سنت نے دی ہے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ اتھارٹی جب خود کسی کو یہ سند دے دے کہ فلاں ادارہ یا شخص یا گروہ اتھارٹی کے طے کردہ معیار پر سو فیصد کھرا اترتا ہے، تو وہ ادارہ یا شخص یا گروہ خود ایک پیمانہ بن جاتا ہے جس پر دیگر ادارے یا اشخاص اپنے آپ کو پرَکھتے ہیں، اگرچہ نظری طور پر یہ معیاریّت بالعرض ہوتی ہے، مگر اس سے اس سچائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ بھی معیار ہے۔ اس کے برخلاف جس ادارے وغیرہ کو معیار پر اترنے کی سند خود اتھارٹی کی جانب سے نہ ملی ہو بلکہ کسی اور نے تحقیق کر کے سند دی ہو، اسے درست تو سمجھا جاتا ہے مگر اول الذکر کی طرح درستی کا پیمانہ نہیں سمجھا جاتا۔
صحابۂ کرامؓ وہ جماعت ہے جس کی محض زبانوں کو نہیں بلکہ قلوب کو، محض کمیتِ اعمال کو نہیں بلکہ کیفیتِ اعمال کو، محض دنیوی احوال کو نہیں بلکہ عاقبت کو جانچ کر قرآن و سنت یہ اعلان کر چکے ہیں کہ یہ وہ جماعت ہے جن کے دلوں کو اللہ تقویٰ کے لیے پرَکھ چکا، یہ وہ گروہ ہے جن کے تھوڑے سے صدقے کی برابری احد پہاڑ کے برابر سونا بھی نہیں کر سکتا، یہ وہ ہستیاں ہیں جن میں باہم فرقِ مراتب کے ساتھ سارے کے سارے جنّتی ہیں۔
قرآن و سنت نے صحابۂ کرامؓ کو یہ سند دے دی کہ یہ جماعت قرآن و سنت کے طے کردہ معیار پر سو فیصد کھَری اتری ہے، یہ ایک منزّل من اللہ حقیقت ہے۔ اس سند کے بعد صحابۂ کرامؓ محض اپنی ذات کی حد تک برحق نہ رہے بلکہ حقانیت کا پیمانہ بن گئے، یعنی معیارِ حق بن گئے، یہ ایک بدیہی سچّائی ہے۔
مولانا مودودی کی تصریحات
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم اگست 1961 کے ماہنامہ ترجمان القرآن میں امارتِ شرعیہ بہار کے ایک جامع سوال نامے کا جواب دیتے ہوئے معیارِ حق کے مسئلے پر فرماتے ہیں:
”ہمارے نزدیک معیار حق سے مراد ہے وہ چیز جس سے مطابقت رکھنا حق ہو اور جس کے خلاف ہونا باطل ہو۔ اس لحاظ سے معيار حق صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے۔ صحابہ کرام معیارِ حق نہیں ہیں بلکہ کتاب و سنت کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔
کتاب و سنت کے معیار پر ہی جانچ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ گروہ برحق ہے۔
ان کے اجماع کو ہم اس بناء پر حجت مانتے ہیں کہ ان کا کتاب و سنت کی ادنیٰ سی خلاف ورزی پر بھی متفق ہو جانا ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے۔“
اوپر ذکر ہو چکا کہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے جماعت اسلامی کے عہدے داران کی وضاحت کو یہ کہہ کر قبول ک۰یا تھا کہ اگر آپ صحابہ کرام کو کسوٹی مانتے ہیں، جو ان پر منطبق ہو جائے اسے مقبول اور جو منطبق نہ ہو اسے مردود مانتے ہیں، تو ہمیں آپ کا موقف قبول ہے۔ پھر مولانا مودودی کی صراحت ملاحظہ فرمائیے جس میں بے جھجک فرما دیا کہ ہمارے نزدیک صحابۂ کرام کی یہ شان نہیں ہے کہ جو ان کے مطابق ہو وہ حق ہے اور جو ان کے مخالف ہو وہ باطل۔ یہ وہ کھلا تباین ہے جو قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کی تجویز اور مولانا مودودی کی تصریح میں پایا جاتا ہے۔
اوپر یہ قرآنی حقیقت بیان ہوئی کہ صحابۂ کرامؓ کے قرآن و سنت کے معیار پر پورا اترنے کی سند قرآن و سنت نے خود دی ہے، اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ صحابۂ کرام محض برحق نہیں معیارِ حق بھی ہیں، اگرچہ یہ معیاریّت بالعرض ہو۔ جب کہ مولانا مودودی صراحت کر رہے ہیں کہ انہوں نے خود صحابۂ کرامؓ کو قرآن و سنت کے معیار پر پرکھا ہے، جس کا صریح مطلب ہے کہ وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ صحابۂ کرام کو جانچنے پرَکھنے کا کام خود قرآن و سنت نے کر دیا، بلکہ وہ اپنی فہم سے صحابۂ کرام کو جانچنے پرکھنے پر مُصِر ہیں۔
عقل حیران ہے کہ جنہیں قرآن و سنت پرَکھ چکے انہیں پرکھنے کی ضرورت آپ کو کیوں آن پڑی، اور جب صحابۂ کرام کی حقانیت معاذاللہ مولانا مودودی کے پرَکھنے سے متحقق ہوئی ہے تو اس کا بدیہی مطلب یہ ہوا کہ صحابۂ کرام اپنی ذات کی حد تک برحق تو ہوں مگر معیارِ حق بالعرض نہ ہوں کیوں کہ مولانا مودودی خود اتھارٹی نہیں ہیں، چنانچہ یہی وہ بات ہے جس کی صراحت مولانا مودودی نے صاف لفظوں میں کر دی ہے کہ ہمارے پرکھنے سے صحابۂ کرام کو حقانیت کی سند تو مل گئی ہے، مگر وہ حقانیت کا پیمانہ بھی بن گئے ہوں، ایسا ہمیں قبول نہیں ہے۔
اس عبارت کے آخر میں مولانا مودودی نے صحابۂ کرام کے اجماع کی حجیت کو ذکر کِیا ہے، حجیتِ اجماع اور معیاریتِ حق دو الگ مسئلے ہیں جیسا کہ قاری صاحب رحمہ نے اپنے مقالے کے اخیر میں فرمایا ہے۔
یہ تو مولانا مودودی کی اس تصریح کا تجزیہ ہوا جو انہوں نے اگست 1961 میں فرمائی، جس میں انہوں نے محض اصولی نوعیت کی بات کی ہے، اس اصول کا کوئی عملی اطلاق پیش نہیں کِیا، نیز اس تصریح میں کم از کم اتنا احسان کِیا ہے کہ صحابۂ کرامؓ کو خود اپنی تحقیق پر پرَکھ کر ہی سہی برحق مان لیا۔ لیکن اکتوبر 1966 میں اپنی تالیف ”خلافت و ملوکیت“ میں انہوں نے یہ احسان بھی واپس لے لیا۔ صرف پانچ سال قبل انہوں نے یہ اعتراف کِیا تھا کہ میں نے اپنی تحقیق میں صحابۂ کرام کو قرآن و سنت کے معیار پر کھرا پایا ہے، لیکن اس نئی تالیف میں وہ اپنے ہی تسلیم کردہ اصول کے خلاف جا کر اس بات پر اَڑ گئے کہ صحابۂ کرام بس روایتِ حدیث میں جھوٹ بولنے کے گناہ سے پاک ہیں، باقی شعبہ ہائے حیات میں ان کی پاکبازی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، اور پھر انہوں نے اس اصول کا جو عملی اطلاق اپنی تالیف میں فرمایا اس میں ان کا مدعا ہی یہ تھا کہ صحابیِ رسول فاسق بلکہ بدعتی ہو سکتا ہے معاذاللہ۔ یہ تعبیر شاید گراں گزرے، مگر یہ ایک پرخلوص دعوتِ فکر ہے۔ جس مفکر کا بنیادی عقیدہ یہ ہو کہ اسلام میں سیاسی نظام کی حیثیت کسی آلہ اور ذریعہ کی نہیں ہے بلکہ سیاسی نظام ہی اسلام ہے، جب وہ مفکر کسی شخص پر یہ الزام لگائے کہ اس نے اس سیاسی نظام کو بدل دیا، تو یہ محض جزوی الزام نہیں ہے بلکہ اس مفکر کے عقیدے کی روشنی میں وہ شخص اسلام کی جڑ کاٹنے والا اور کم از کم بدعتی قرار پائے گا معاذاللہ۔ کیا اس موحّش طرزِ عمل کو اس مخلصانہ تجویز سے دور دور تک کوئی واسطہ ہے جو حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے 1957 میں پیش کی تھی؟
اول تو یہی بات ہر قسم کی تلبیس کے دفع کرنے کے لیے کافی تھی کہ مولانا مودودی مرحوم نے قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کی تجویز کو قبول نہیں کِیا، دوسرے یہ کہ انہوں نے محض عدم قبول پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ صراحت کے ساتھ اس پورے تصور کو رد کر دیا جو حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے پیش کِیا تھا، اس دوسری بات کا ثبوت دو درج بالا دو حوالوں سے ہی ہو گیا۔ لیکن بطور تاکید ایک اور حوالہ پیش کِیا جاتا ہے، جس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ مودودی صاحب کی زندگی کے اخیر برسوں کا ہے۔ اگست 1976 کے ترجمان القرآن میں مودودی صاحب لکھتے ہیں:
”معیارِ حق تو صرف اللہ کا کلام اور اس کے رسولؐ کی سنت ہے۔ صحابہ معیارِ حق نہیں بلکہ اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سونا کسوٹی نہیں ہے، لیکن سونے کا سونا ہونا کسوٹی پر کسنے سے ثابت ہوتا ہے۔“ یہاں بھی آپ نے صحابۂ کرامؓ کو سونا یعنی برحق تو تسلیم کِیا، مگر دوبارہ یہ اصرار کِیا کہ وہ کسوٹی یعنی معیارِ حق نہیں ہیں۔ اوپر ذکر ہو چکا کہ قاری صاحب رحمہ اللہ نے اسی شرط پر بعض ذمے داران جماعت کی وضاحتوں کو قابلِ قبول مانا تھا کہ آپ صحابۂ کرام کو حق کی کسوٹی تسلیم کریں، اور مولانا مودودی زندگی کی اخیر بہاروں تک اسی کی تردید پر مُصِر رہے۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه، و أرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه.
آخر میں خود حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی ایک تاریخی تصریح پیش ہے۔ مولانا مودودی کے انتقال کے تین ماہ بعد حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کا مدراس میں مقامِ صحابہؓ کے موضوع پر خطاب ہوا، اور اس کے آخر میں قاری صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:
”مودودی صاحب کا انتقال ہوا تو تعزیت کے تار خط بہت سے علماء نے دیے، میں نے بھی تار دیا اور خط بھی لکھا، اس سے بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوا کہ گویا میں تو ان کے مسلک اور عقائد کا حامی ہو گیا، یہ بالکل غلط ہے۔ موت اور مصیبت ایسی چیز ہے کہ دوست دشمن اس میں برابر ہوتے ہیں، کفار بھی مرتے ہیں تو آپ تعزیت ادا کرتے ہیں۔ جواہر لال اور سردار پٹیل کی موت پر ہم نے تعزیت کا تار دیا تھا، اب ہندو کہنے لگیں کہ چونکہ تعزیت ادا کی لہذا یہ ہندومت کے حامی ہو گئے، یہ سمجھنا حماقت ہو گا۔ مودودی صاحب کو ہم نے یہ سمجھ کر تار دیا کہ ان کی تکفیر تو کسی نے کی نہیں، بہر حال ایک مفکر تھے، یہ الگ چیز ہے کہ ان کے تفکر میں اور ہمارے تفکر میں زمین آسمان کا فرق ہے، اور بہت سی چیزوں میں ہمارا اختلاف ہے اور ہم انہیں ان چیزوں میں بالکل غلط جانتے ہیں، لیکن تعزیت کرنے سے یہ سمجھنا کہ ہم ان کی ساری چیزوں کے حامی بن گئے، یہ محض غلط کاری ہے۔ مسالک میں جو اختلاف ہے وہ بدستور ہے اور جو چیزیں غلط ہیں ہم بدستور غلط کہہ رہے ہیں اور کہتے رہیں گے جب تک کہ وہ رجوع نہ کریں، اس واسطے اس سے دھوکہ نہ کھایا جائے، یہ تلبیس کی بات ہوگی، ہم اس چیز میں ہرگز حامی نہیں جس میں وہ اہل سنت والجماعت کے اصول سے اختلاف رکھتے ہیں، اس میں نہ ہم ان کے حامی ہیں نہ ان کے ساتھ ہیں، اختلاف رہے گا۔ باقی رہی تعزیت تو بھائی مصیبت اور موت میں دوست دشمن برابر ہوتے ہیں، تعزیت کی جاتی ہے، وہ کی گئی اس سے کوئی دھوکہ نہ کھائے۔“
(تحقیقاتِ حکیم الاسلام مرتبہ مولانا عمران قاسمی بگیانوی، جلد اول)