Home تجزیہ منی پور : تین مظلوم برہنہ عورتوں سے لے کر بلقیس بانو اور مظفر نگر کی انصاف سے محروم خواتین تک ! – شکیل رشید

منی پور : تین مظلوم برہنہ عورتوں سے لے کر بلقیس بانو اور مظفر نگر کی انصاف سے محروم خواتین تک ! – شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)

وہ جو تشدد زدہ منی پور میں تین کوکی خواتین کو ، جن میں سے ایک کم عمر لڑکی تھی ، برہنہ کرکے ، سڑک پر دوڑاتے ہوئے ، کھینچ کر دھان کے کھیت میں لے جا کر گینگ ریپ کر رہے تھے ’ درندے ‘ نہیں تھے ، کیونکہ انہیں درندے کہنا حقیقی درندوں کی توہین ہے ۔ وہ حیوان بھی نہیں تھے ، کہ حیوان ان سے بہتر ہوتے ہیں ، انہیں کچھ تو شرم اور حیا ہوتی ہے ! لیکن انہیں ’ بے شرم ‘ بھی نہیں کہا جا سکتا ، کیونکہ یہ جس عمل کے مرتکب ہوئے ہیں ، ویسا عمل ، شرم کی ساری حدیں پار کرنے والا بھی نہیں کر سکتا ۔ انہیں کیا نام دیا جائے ؟ شاید ان کے لیے لغت میں کوئی لفظ موجود نہیں ہے ! انہیں خنزیر کہا جا سکتا ہے ، حالانکہ خنزیروں کو اس پر اعتراض ہو سکتا ہے ، لیکن ہم انہیں انسان ، آدمی یا مَنُش کہنے کی ہمت نہیں کر سکتے ۔ منی پور کا یہ واقعہ ۴ ، مئی کا ہے ، یعنی ۷۴ دن پہلے کا ، لیکن اس کی اطلاع ہمارے وزیراعظم نریندر مودی جی ! کو ، اور منی پور کے وزیراعلیٰ ایم بیرین سنگھ کو اب ملی ہے ! کیا اِس بات پر کوئی یقین کر سکتا ہے ! ساری ایجنسیاں پی ایم مودی کے ہاتھ میں ہیں ، جو اپوزیشن کے گناہوں کو ، چاہے وہ زمین کے ساتویں طبق میں ہی کیوں نہ چھپے ہوں ، ڈھونڈ لیتی ہیں ، لیکن اس واقعے کی اطلاع پی ایم کو نہیں ملی ، اور نہ منی پور کے وزیراعلیٰ کو ملی ! یہ بات مانی نہیں جا سکتی ۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ پی ایم اور وزیراعلیٰ دونوں ہی اس انسانیت کو لرزا دینے والی واردات سے واقف تھے ، لیکن اسے چھپایا گیا ! کیوں ؟ اس لیے کہ پی ایم کو امریکہ کا دورہ کرنا تھا ، اور اقوامِ سفید کو بتانا تھا کہ ’’ ہماری رگوں میں جمہوریت ہے ۔‘‘ کیا واقعی ہندوستان میں جمہوریت بچی ہے ؟ کیا واقعی اس ملک میں آئین پر عمل ہو رہا ہے ؟ کیا واقعی اس دیش میں لاء اینڈ آرڈر کے لیے جو ذمہ دار ہیں ، پولیس اور ایجنسیاں ، وہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ؟ خبر ہے کہ ایک ہزار افراد پر مشتمل ہجوم نے ایک گاؤں پر حملہ کیا تھا ، گاؤں کو تاراج کرکے تین خواتین کو اٹھا لیا تھا ، ان سے جبراً کہا تھا کہ اگر انہیں زندہ رہنا ہے تو وہ ازخود ننگی ہو جائیں ، وہ عورتیں برہنہ ہو گئیں ، ان کی آنکھوں کے سامنے ایک کے بھائی اور باپ کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا گیا ، اور تینوں برہنہ خواتین کو بھیڑ بکریوں کی طرح سڑک پر دوڑایا گیا ، ان کے جسم کے اُن مقامات پر ، جو کپڑوں میں چھپائے جاتے ہیں ، برہنگی کے بعد ، ہاتھوں سے ضربیں لگائی گئیں ، اور انہیں کھینچتے ہوئے کھیت میں لے جایا گیا ، کم عمر لڑکی کے ساتھ ، دیگر دو برہنہ عورتوں کی آنکھوں کے سامنے ، گینگ ریپ کیا گیا ، ویڈیو بنائی گئی اور جب انٹرنیٹ بحال ہوا تو وہ ویڈیو وائرل کر دیا گیا ، اور یہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہوا ۔ یہ تینوں خواتین کسی کی مائیں ، بیویاں اور بیٹیاں تھیں ، لیکن اس ہجوم کے لیے یہ بس ’ دشمن قبیلے ‘ سے چھینا ہوا ’ مالِ غنیمت ‘ بن کر رہ گئی تھیں ، ایسا ’ مالِ غنیمت ‘ جس کو روندا جا سکے ، جس کو آپس میں بانٹا جا سکے ! منی پور کو جلتے ہوئے ڈھائی مہینے ہو گئے ہیں ، ان گزرے ہوئے دنوں میں پی ایم مودی کرناٹک کا الیکشن لڑ آئے ، امریکہ گھوم آئے ، مٖصر ، فرانس اور یو اے ای کا سفر کر آئے ، لیکن ان کی زبان سے منی پور کا ’ م ‘ بھی نہیں نکلا ۔ اس وقت بھی پی ایم مودی خاموش تھے جب ، منی پور میں میتئی فرقے کے لوگوں کے ہاتھوں کوکی فرقے کے چرچ جلائے جاتے رہے ، مندر مسمار کیے گئے ، تشدد سیاست دانوں کے گھروں تک پہنچ گیا اور سیکڑوں افراد کی لاشیں بچھ گئیں ۔ نہ جانے کتنی خواتین کو اُسی مالِ غنیمت کی طرح ، جیسے یہ ویڈیو والی خواتین تھیں ، برہنہ کر کے دوڑایا گیا ہوگا ، اور ان کی عصمت کو تار تار کیا گیا ہوگا ! چونکہ پی ایم اور سی ایم کو کوئی ’ خبر ‘ نہیں ہے ، اس لیے جب مزید ویڈیو وائرل ہوں گے تب صحیح صورتِ حال کا پتہ چلے گا ۔ اگر کوئی ایسا پی ایم اور کوئی ایسا سی ایم ہوتا ، جسے یہ پتہ ہوتا کہ اخلاق نام کی کوئی چڑیا ہوتی ہے ، تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گیا ہوتا ۔ لیکن ہمارے پی ایم مستعفی ہونے والے نہیں ہیں ، انہوں نے جمعرات کو منی پور کے اس واقعے پر تبصرہ کیا ، تبصرہ جو صرف ۳۶ سیکنڈ کا تھا ! کیا آپ جانتے ہیں کہ منی پور میں آر ایس ایس نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں ، اور منی پور کو تجربہ گاہ بنا کر سنگھ عرصے سے وہاں نفرت کے جراثیم پھیلانے کا کام کر رہا ہے ! ساورکر نے ایک فارمولہ دیا تھا کہ دشمن کی عورتوں کی بے عزتی جائز ہے ، تو کیا مان لیا جائے کہ اس فارمولے پر عمل ہو رہا ہے ؟ ویسے یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے ، گجرات میں بھی تو یہی ہوا تھا ، نفر کی بھینٹ چڑھی بلقیس بانو اس کی زندہ مثال ہے ، مظفر نگر میں بھی یہی ہوا تھا ، وہاں کی کئی مظلوم عورتیں ہیں جنہوں نے حقائق بیان کیے ہیں ۔ یہ جو نفرت سے بھرے ہوئے لوگ ہیں ان کے لیے ہر عورت ، چاہے ماں ہو کہ بیٹی ، بہن یا بیوی بس عورت ہوتی ہے ، ایسی عورت جس کی عصمت کو تار تار کیا جائے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like