ماضی کے ہندوستانی علما و مفکرین میں مولانا سید مناظر احسن گیلانی (1892-1956)کی شخصیت اپنی بے پناہ علمیت،زورِ بیان،قوتِ استدلال،علمی مصادر سے اخذ و استنباط کی بے مثال صلاحیت،فکر و نظر کی روشنی اور دل و نگاہ کی شفافیت کے اعتبار سے نہایت ممتاز و منفرد رہی ہے۔ ان کی عملی زندگی بہت ہی سرگرم اور بافیض ثابت ہوئی،بہار کے چھوٹے اور غیر معروف گاؤں گیلان سے اٹھ کر ٹونک ہوتے ہوئے دیوبند پہنچے ،وہاں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی،علامہ انور شاہ کشمیری،علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے وقت کے اجلِ علما و اساتذہ سے تحصیل علم کی۔ تکمیل علوم کے بعد وہیں سے تدریس و تصنیف کا سلسلہ شروع ہوا،وہاں سے اٹھے تو حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کی مسندِ تدریس کو رونق بخشی اور طویل عرصے تک اس یونیورسٹی میں اسلامیات پڑھاتے اور سیکڑوں طلبہ کی علمی،ذہنی و فکری تربیت کرتے رہے،اسی عرصے میں ان کا قلم بھی علم و فکر کے گہرہاے آبدار و تابدار لٹاتا رہا،حدیث و قرآن کی تدوین کی تاریخ لکھی،ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی تاریخ پر دادِ تحقیق دی،سلوک و تصوف کے رموز و اسرار واشگاف کیے،مسلمانوں کی فرقہ بندی کے اور چھور کا جائزہ لیا،ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ کے روشن و خفی گوشوں سے پردہ اٹھایا،سیرتِ پاک پر ایک منفرد اور البیلی کتاب لکھی،حضرت ابوذر غفاریؓ اور اویس قرنیؒ کی نہایت خوب صورت سوانح لکھی اور نہ جانے کن کن علوم و فنون پر ان کی توجہ ہوئی اور انھیں اپنی تصنیف و تحقیق سے مالامال کیا۔ اخیر عمر میں دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی کی ایسی جامع اور مبسوط سوانح لکھی کہ وابستگانِ دیوبند عش عش کر اٹھے۔ الغرض ایک ایسی شخصیت کہ جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کیا اور جس شعبۂ علم و نظر کا رخ کیا،اس کے تمام اطراف و مباحث پر سیر حاصل مواد اکٹھا کردیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ان کے بارے میں درست فرمایا تھا کہ’’مناظر احسن کے تمام مناظر احسن ہیں‘‘ اور جنھوں نے انھیں ’’سلطان القلم‘‘کہا وہ اپنی اس رائے بالکل حق بجانب تھے۔
مولانا گیلانی کی زندگی اور خدمات پر باضابطہ تصنیف کا ڈول مفتی ظفیرالدین مفتاحی نے ڈالا اور 336صفحات پر مشتمل’’حیاتِ گیلانی‘‘لکھی ۔ ان کے بعد بھی کئی لوگوں نے ان پر لکھا اور اب بھی کچھ نہ کچھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی کی دہائی میں ایک مختصر سی کتاب ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری نے بھی لکھی تھی۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے ’’معاصرین‘‘ میں،مولانا علی میاں ندوی نے’’پرانے چراغ‘‘میں اور مولانا انظر شاہ کشمیری نے’’لالہ و گل‘‘ میں مولانا گیلانی پر بڑے دلنشیں مضامین لکھے ہیں۔ ابھی حال ہیں دارالعلوم دیوبند کے زیرِ اہتمام عربی زبان میں ایک کتاب ’’العلامۃ المحقق السید مناظر أحسن الکیلاني حیاتہ و مآثرہ‘‘کے نام سے شائع ہوئی ہے،جس کے مصنف جامعہ رحمانی مونگیر کے استاذ مولانا جنید احمد قاسمی ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک زریں کڑی ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی کی کتاب’’مناظرِ گیلانی‘‘بھی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار2006 میں شائع ہوئی تھی اور اب اس کا دوسرا ایڈیشن خاطر خواہ اضافوں کے بعد شائع ہوا ہے۔
اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مختصراً مولانا کے احوالِ زندگی کے ساتھ ان کے منظوم کلام کو بھی بڑی تحقیق و جستجو کے بعد حاصل کرکے جمع کیا گیا ہے۔ ان کی نثری تصانیف کے مانند ان کی شاعری میں بھی تنوع ہے،جس میں حمد و نعت اس وقت کے مسلمانوں کے حالات کی ترجمانی کرنے والی ملی نظمیں،شکوہ و جوابِ شکوہ، مثنوی، مرثیہ(اقبال ، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد وغیرہ کے مرثیے) اور متفرق اشعار شامل ہیں۔ ان کی نظموں میں ملی دردمندی اور قومی حمیت کا رنگ نمایاں ہے،لفظیات کا انتخاب شاندار اور فنی تقاضوں پر کھرا اترنے والا ہے۔ اقبال ، سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے مرثیے ان سے تعلقِ خاطر کی غمازی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان حضرات کے علمی قد و قامت اور ہندوستان گیر سطح پر ان کی عظمت و علوِ منزلت کا حسنِ اعتراف ہیں۔’’اسلام کی روانی‘‘،’’ایہا المسلم‘‘،’’نغمۂ ہمت‘‘،’’اشکِ حقیقت‘‘، ’’مضراب‘‘، ’’نواے قدس‘‘(فارسی نظم) ان کی ملی حمیت سے سرشاری کی نمایندگی کرتی ہیں۔ایک دلچسپ نظم’’جرمِ مولوی‘‘ کے عنوان سے ہے،جس میں سماج کے مختلف طبقوں کی جانب سے علما پر کیے جانے والے اعتراضات کا خوب صورت جواب دیا گیا ہے۔ ان کی دعائیہ نظم اور نعتیں جو مگدھی زبان میں کہی گئی ہیں،اپنے اندر خاص دلکشی اور معصومیت و لطافت رکھتی ہیں۔ مولانا علی میاں ندوی اور مولانا عبدالماجد دریابادی ان کی شیرینی و سحر انگیزی سے بہت متاثر تھے۔ فارسی پر بھی مولانا کو بھر پور دسترس حاصل تھی اور اس کتاب میں ان کی کئی فارسی نظمیں اور اشعار اس کی خوب صورت مثالیں ہیں۔ الغرض فاروق اعظم صاحب نے مولانا گیلانی کی دریافتِ نو کا فریضہ بڑی دیدہ وری سے انجام دیا ہے اور مصنف،مدرس،مفکر و محقق گیلانی کے اندر چھپے شاعر گیلانی کو منظرِ عام پر لاکر اہلِ علم کی بھرپور لطف اندوزی کا سامان کردیا ہے۔ کتاب کے تازہ ایڈیشن کی مرکزی پبلی کیشنز نئی دہلی نے نہایت دیدہ زیب و دلکش طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ صفحات 168 اور قیمت سو روپے ہے ۔ ناشر و مصنف سے ان نمبرات 9718921072,9811794822پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔