Home تجزیہ مجلس کی جیت پر ہنگامہ کیوں؟- محمد نوشاد عالم ندوی

مجلس کی جیت پر ہنگامہ کیوں؟- محمد نوشاد عالم ندوی

by قندیل

بہار اسمبلی الیکشن کے رزلٹ کے بعد سوشل میڈیا پر چہ می گوئیاں شروع ہوچکی ہیں۔ اس جیت پر جہاں این ڈی اے کے خیمے میں خوشی کی لہر ہے وہیں آر جے ڈی خیمہ میں شکایتوں کا ٹرینڈ چل پڑا ہے۔ گنتی میں بدعنوانی کی بات کہہ رہے ہیں، ایگزٹ پولز اور ایکزیکٹ پول کو دیکھ کر یقینا کسی کے بھی ذہن میں یہ بات آسکتی ہے۔ بہار الیکشن کے نتائج کے بعد یہ بات تو بالکل صاف ہوچکی ہے کہ اب ووٹروں کو ڈرانے اور دھمکانے والی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ خاص کر سیمانچل کے رائے دہندگان نے سیکولر پارٹیوں کو جو آئینہ دکھایا ہے ، اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ اب ڈرنے اورڈرانے کا وقت ختم ہوگیا ہے۔سیکولر پارٹیاں یہ بات ہمیشہ کہتی رہی ہیں کہ ہم کو ووٹ نہیں دئے تو فلاں جیت جائے گا، ان کا اشارہ شرپسند عناصر اور فاسشٹ طاقتوں کی طرف ہوتا تھا۔ لیکن اب سیمانچل کے جرأتمندانہ فیصلے نے اس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مجلس کی کامیابی سے سیکولر طاقتیں بے چین ہوگئی ہیں، یہ ایک فطری بات ہے۔ سیکولر جماعتیں مسلم رائے دہندگان کو اپنا بندھوا مزدور سمجھتی آرہی ہیں۔ کیونکہ پچھلے ستر سالوں سے یہ دیکھاگیا ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بھی کسی دوسری پارٹی کو ووٹ نہیں کیا ، ہمیشہ سیکولرپارٹیوں کو ہی اپنا ووٹ دیا خواہ وہ کانگریس ، سماجوادی، آر ایل ڈی ، لوک دل ہو یا پھر آر جے ڈی ہو، اور اس دوران اگر بیچ میں کوئی مسلم پارٹی آبھی جاتی تو اس کو بالکل دھتکار دیا جاتا رہا ہے، اس کو بالکل ہی ووٹ نہیں کیا ہے۔ لیکن بہار الیکشن سے ایسا لگتا ہے کہ اب مسلمانوں کی سوچ بدلی ہے۔ مجلس نے پہلے مہارا شٹر اور اب بہار میں اپنا پیر جمایا ہے۔ اور کیو ں نہ ہو؟ سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کے ساتھ صرف اور صرف ووٹ کی حد تک سیکولر رہتی ہیں۔ ووٹ کے بعد ان کا رویہ وہی رہتا ہے جو بی جے پی اور دوسری پارٹیوں کا رہتا ہے۔
اس الیکشن میں مجلس کے بیس (20) میں سے پانچ ہی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ جس طرح کا الزام ان پر سوشل میڈیا پر لگایاجارہا ہے وہ بہت حد تک غلط ہے۔ انہوں نے مہا گٹھ بندھن کا ووٹ اتنا نہیں کاٹا کہ اثر انداز ہوسکیں۔ اس الیکشن میں سیمانچل میں نو (9) سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن کے امیدوار اور چھ(6) سیٹوں پر این ڈی اے کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، پھر بھی سب کی زبان پر ایک ہی گلہ و شکوہ ہے کہ اویسی نے ووٹ کاٹ لیا، اویسی نے مہاگٹھ بندھن کا کھیل بگاڑ دیا۔ کانگریس پارٹی شاید یہ بھول رہی ہے کہ وہ تو یوپی، بہار، بنگال میں پہلے ہی مسلم ووٹ کھوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مسلمانوں کو سوکالڈ سیکولرپارٹیوں پر بہت بھروسہ نہیں رہا، ان پر سے اعتماد بالکل ختم ہوتاجارہا ہے، کیونکہ یہ پارٹیاں اب یا تو جاتی واد، یا پریوارک پارٹیاں بن کر رہ گئی ہیں۔ ووٹ لینے کے لیے سیکولر رہتی ہیں، لیکن ووٹ کے بعد ان کا رویہ وہی رہتا ہے جو باقی پارٹیوں کا رہتا ہے۔ ایک تازہ مثال شاید ابھی آپ کے ذہن میں ہوگی، وہ ہے دہلی میں عام آدمی پارٹی کی ۔ یہ بھی ووٹ لینے سے پہلے بہت  سیکولر تھی، لیکن جیتنے کے بعد اور خاطرخواہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس میں اور بی جے پی میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا جارہا ہے۔ یہی حال سیمانچل کا ہے، آزادی کے بعد سے کانگریس، اس کے بعد لالو، اس کے بعد نتیش نے حکومت کی، مگرترقی کے نام پر اب بھی یہ خطہ زیرو ہے۔ اپنی خستہ حالی پر اب بھی ماتم کناں ہے۔ سیمانچل کاہی وہ خطہ ہے جس نے سید شہاب الدین اور ایم جے اکبر جیسے سیاستدانوں کو بھی قسمت آزمانے کا موقع دیا ہے، صرف اور صرف سیمانچل کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ،لیکن ان لوگوں نے جو کیا وہ اظہر من الشمس ہے۔ وہاں کسانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کا ذریعۂ معاش صرف اور صرف کاشت کاری ہے، اس کے باوجود ہر سال سیلاب کی آفت سے وہاں کے لوگ اور کسان پانی پانی ہو جاتے ہیں اس سیلاب سے انہیں نجات دلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
بہار اسمبلی انتخابات میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی ۵؍ سیٹوں پر کامیابی سے اب سیکولر طاقتیں بے چین ہو گئی ہیں ۔ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر مجلس کے ذمے داران پر طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں،جو افسوسناک ہے۔ یقینا جمہوریت میں سب کو اپنی اپنی بات کہنے کا حق ہے اسی طرح اویسی کو بھی ہر جگہ سے الیکشن لڑنے کا حق ہے۔ یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ مجلس کی جیت پر بدتمیزی اور بدکلامی کی جارہی ہے جو کہ شرمناک اور جمہوریت کی خوبصورتی پر بدنما داغ ہے۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ، لیکن جیت پر پارٹی کی حوصلہ افزائی کرنا اپنی جگہ۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ مجلس سے اختلاف کی وجہ صرف اور صرف موجودہ وقت کی سیاسی حکمت عملی تھی، یعنی فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینا،تو کسی حد تک مانی جاسکتی ہے۔ لیکن جہاں جہاں سے اویسی جیتے ہیں ان میں سے اکثر حلقوں میں این ڈی اے رنراپ میں ہے، صرف چھ حلقوں میں مہاگٹھ بندھن سے ان کا مقابلہ ہوا ہے۔ اگر مجلس کی پانچ سیٹ ملا بھی لیں تو بھی مہاگٹھ بندھن حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں دکھائی دے رہی ہے۔کانگریس کے ترجمان کی مان لیں تو ان کا اگر یہ کہنا ہے کہ مجلس نے کھیل بگاڑا ہے تو ان کو یہ بھی کہنا چاہیے کہ ہماری وجہ سے اکثریت نہیں ملی۔ کانگریس کی کارکردگی بہار میں اچھی نہیں رہی۔ آپ ووٹوں کے شیئر میں جائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کچھ حلقوں میں مہا گٹھ بندھن کے مسلم امیدواروں کو یادووں کا ووٹ نہیں ملا، جو سوچنے اورغورکرنے کا مقام ہے۔ سیمانچل کے مسلم حلقوں میں مہاگٹھ بندھن کے امیدواروں کو مسلم ووٹ تو ملا ، لیکن دیگر حلقوں میں مسلم امیدواروں کو یادو ووٹ نہیں ملا۔ اس لیے ایم وائی کی سیاست سے اوپر اٹھ کر دیکھنا ہوگا۔ اسی طرح آپ دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ نتیش کمار کی پارٹی کاووٹ تو بی جے پی کو ٹرانسفر ہوا لیکن بی جے پی کا ووٹ نتیش کمار کو ٹرانسفر نہیں ہوا جس کی وجہ سے نتیش کمار کمزور پڑ گئے ۔ آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے درمیان پسماندہ برادری کا ووٹ بینک تقسیم ہوا ہے ۔ مسلم پاکٹ میں مسلم ووٹ بینک بھی تقسیم ہواہے ۔ اب ہم اس کے لیے مجلس کو قصوروار کہہ سکتے ہیں لیکن کب تک ۔یہ بھی ایک سچ ہے کہ کانگریس نے اپنی وِننگ طاقت سے زیادہ سیٹیں لے لیں جس کا نقصان ہوا ہے ۔ اس کو ۴۰؍ سیٹیں ہی رکھنی چاہئے تھیں ۔اس پر کہیں کوئی چہ می گوئی نہیں ہورہی ہے، جبکہ گٹھ بندھ کی شکست کی سب سے اہم وجہ یہی ہے۔
خیر ، کیا ہوا اور کیا ہونا چاہیے یہ اہل سیاست جانیں۔ لیکن اتنا توضرور ہے کہ مہاراشٹر کے بعد بہار میں زبردست کامیابی ملنے کی وجہ سے اویسی کے حوصلے کافی بلند ہوئے ہیں، وہ اب آسام ، مغربی بنگال اور اتر پردیش میں بھی اپنے امیدوار میدان میں اتاریں گے چنانچہ سیاسی گلیاروں میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئی ہیں ۔سوشل میڈیا پر زبانی جنگ تیز ہو گئی ہے ۔ فیس بک پر ایک کارٹون تیزی سے شیئر کیا جا رہا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ دو لوگ اویسی کو پکڑے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اب بنگال چلو ۔ ان تمام بحثو ں کے درمیان اب سیکولر پارٹیوں کو بہر حال یہ فکر ہونے لگی ہے کہ ایم آئی ایم کو نظر انداز کرکے کم از کم اب مسلم اکثریتی حلقوں میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔بہار کے عوام نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اب جمہوریت میں اکثریت کا خوف دکھاکر سیاست سے کنارہ کشی کا مشورہ دینا ناقابل قبول ہے۔

You may also like

Leave a Comment