ریسرچ اسکالرشعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی،دہلی
9918998144
’ارمغان‘شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سالانہ ریسرچ اور ریفریڈ جرنل ہے ۔اس کا شمارہ نمبر 11(2022)جامعہ کے شعبۂ اردو کی پچاس سالہ تاریخ پر مبنی ہے۔شعبۂ اردوکا باقاعدہ قیام 25نومبر1972 کو عمل میںآیا۔اس کے پہلے صدرِشعبہ ڈاکٹر تنویر احمدعلوی تھے۔واضح رہے کہ اس شعبے کوجامعہ کالج کا پہلاگریجویٹ شعبہ بننے کا شرف بھی حاصل ہے۔ زیر نظر شمارہ پانچ حصوںپر مشتمل ہے، جن کی تفصیلات اس طرح ہیں؛شعبۂ اردو کی تاریخ،شعبۂ اردو کی علمی اورادبی خدمات،شعبۂ اردو سے وابستہ سابق اساتذہ ،شعبۂ اردو کے موجودہ اساتذہ اورشعبۂ اردو کی حصولیابیاں ۔ارمغان کے تازہ شمارے کے مدیر اعلیٰ شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر احمد محفوظ ہیں اور پروفیسر ندیم احمد کومدیرکی حیثیت حاصل ہے۔تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل اس مجلے میں شعبے کی تمام علمی وادبی کارگزاریاں مستند حوالو ں کے ساتھ یکجا ہو گئی ہیں۔ علاوہ ازیں،شعبۂ اردو سے وابستہ تمام اساتذہ کی تصویریں اور شعبے کی گولڈن جبلی کے موقعے پر منعقدہ پروگرام کی منتخب تصویریں بھی اس شمارے کی زینت ہیں۔
زیر نظر شمارے میں شعبۂ اردو کی تاریخ سے متعلق تین گراں قدر مضامین شامل ہیں۔پہلا مضمون ’’شعبۂ اردو:تاریخ کے آئینہ میں‘‘ پروفیسراحمد محفوظ کا تحریر کردہ ہے، جو انتہائی پر مغز اور معلوماتی ہے۔اس میں انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام سے لے کر شعبۂ اردو کی پچاس سالہ تاریخ کا اجمالی جائزہ پیش کیاہے۔انھوں نے اساتذہ اور طلبہ سے متعلق شعبے کی تمام اہم اور قابل ذکر سرگرمیوں کا نہایت جامع انداز میں احاطہ کیاہے۔ شعبۂ اردو کی تاریخ کے تعلق سے دوسرا مضمون عبداللطیف اعظمی (مرحوم)کا ہے جو ’’کوائف جامعہ‘‘ کے عنوان سے شاملِ رسالہ ہے۔اس مضمون سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سید اعجازحسین کی صدارت میں شعبۂ اردو کے افتتاح کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ شعبۂ اردو کے پہلے صدرڈاکٹر تنویر احمد علوی نے اس موقع پر شاہ نصیر کی شاعری پر ایک مقالہ پڑھا تھا،جس کی تلخیص اس شمارے میں شامل ہے۔عبد اللطیف اعظمی کے مذکورہ مضمون میں اور بھی ضمنی واقعات وحادثات اور حالات کا ذکر موجود ہے۔ شعبۂ اردو کی تاریخ سے متعلق آخری مضمون ’’کیفی صاحب ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور میں‘‘ کے عنوان سے پروفیسرگوپی چند نارنگ کا ہے۔ انھوں نے حنیف کیفی اور اپنی کار گزاری کے ساتھ ساتھ اس زمانے کی جامعہ اور اس کی سرگرمیوں کی بھر پور منظر کشی کی ہے۔ اس مضمون کے مطالعہ سے وہ پورا عہد ہماری آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا دکھائی دینے لگتا ہے ۔ گوپی چند نارنگ کے اسلوب بیان نے بلاشبہ اس میں افسانوی رنگ پیدا کردیاہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے عہد کی کئی بڑی شخصیات کا ذکر بھی کرتے گئے ہیں۔جامعہ سے متعلق اس طرح کی تحریریں شاذ ہی لکھی گئی ہیں ۔
ارمغان کے دوسرے حصے میں ’’شعبۂ اردو کی علمی وادبی خدمات ‘‘کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت کل پانچ مضامین شامل ہیں۔موضوعات کے لحاظ سے اگر ان کی تقسیم کی جائے تو تخلیقی نثر پر حقانی القاسمی ،اردو تنقیدپرڈاکٹر تابش مہدی، افسانوی ادب پرپروفیسر ندیم احمداور شعراکی تاریخ پر ڈاکٹر محمد مقیم کے مضامین خاصے اہم اور کارآمد ہیں۔ان تمام تحریوں کا تعلق شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ان ادیبوں ،شاعروں،نقادوںاور محققوں سے ہے، جن کی کاوشوں سے اردو ادب کے مختلف گوشوں کو روشنی ملتی رہی ہے۔یہ مضامین قاری کو مختلف انداز سے شعبۂ اردو کے بارے میں غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں ۔
ارمغان کا ایک اہم حصہ ’’شعبۂ اردو سے وابستہ سابق اساتذہ‘‘سے متعلق ہے۔اس میں ان کی خدمات کا نہایت جامع انداز میں تعارف کرایا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ ان کی ادبی زندگی کے اہم پہلو اور دیگر تفصیلات سامنے آجائیں ۔شعبہ کی نصف صدی کی تاریخ میں سابق اساتذہ کی حیثیت سے قیصر زید ی ،پروفیسر محمد ذاکر ،پروفیسر عنوان چشتی ،ڈاکٹر تنویر احمد علوی ،پروفیسر گوپی چند نارنگ ،پروفیسر حنیف کیفی ،پروفیسر عظیم الشان صدیقی ،پروفیسر مظفر حنفی ،پروفیسر شمیم حنفی ،پروفیسر صغریٰ مہدی ،ڈاکٹر صادقہ ذکی ،پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی ،پروفیسر شمس الحق عثمانی ،پروفیسر خالد محمود ،پروفیسر شہناز انجم ،پروفیسر وہاج الدین علوی ،ڈاکٹر شکیل جہانگیری (مرحوم )،پروفیسر شہپر رسول ،ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی اور پروفیسر عبدالرشید جیسے ممتاز لوگ شامل رہے ہیں ۔اگر ان تمام مضامین کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نوعیت تحقیقی اور تنقیدی نہیں ہے، بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف قارئین کو جامعہ کے سابق اساتذہ اور ان کے علمی وادبی کار ناموں سے واقف کرانا ہے۔یہ شمارہ اس لحاظ سے بھی دستاویزی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں شعبۂ اردو کے موجو دہ اساتذہ( یعنی صدر شعبہ پروفیسر احمد محفوظ تا ڈاکٹر محمد مقیم) سب کا بھرپور تعارف ان کی تصنیفات و تالیفات کی تفصیل کے ساتھ شامل ہے ۔دورانِ مضمون مختصرطورپرسوانحی خاکہ،عملی زندگی، تصانیف اور ان کے مخصوص میدان کا ذکر کیا گیا ہے۔اس سے ان تمام اساتذہ کی شخصیت کو سمجھنے میںآسانی ہوتی ہے اور ان کے خاص میدان سے متعلق معلومات بھی مل جاتی ہیں ۔
مجلہ ارمغان کا ایک حصہ ’’شعبۂ اردو کی حصولیابیاں‘‘ کے زیر عنوان ہے ۔ اس میں چھ مضامین شامل ہیں۔ شعبۂ اردو ہمیشہ سے سرگرم ادبی کارگزاریوں کے لیے جانا جاتا رہا ہے ۔اس کے مختلف پہلو ہیں، جن میںیادگاری اور توسیعی خطبات کا بھی ایک شاندار سلسلہ ہے ۔اس وقت شعبے میں فراق یادگاری خطبہ ،منشی نول کشور یادگاری خطبہ اورسجاد ظہیر یادگاری خطبے کے علاوہ ہر برس چار توسیعی خطبات بھی پابندی کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں ۔سمینار اور دیگر علمی مذاکروں کا اہتمام اس پر مستزاد ہے ۔ارمغان میں ان تمام سرگرمیوں کا احاطہ اس سلیقے سے کیا گیا ہے کہ گذشتہ نصف صدی کی ادبی سرگرمیاں’ ارمغان‘ کے توسط سے تاریخ ادب کا ناقابل فراموش حصہ بن گئی ہیں ۔مختلف النوع اعزازات و ایوارڈ حاصل کرنے والے اساتدہ کا بھی یہاں ذکر موجود ہے ۔اس کے علاوہ شعبۂ اردو کی گولڈن جبلی تقریب کی روداد اور ایم ۔فل اور پی ایچ۔ڈی کے مقالات کی طویل فہرست تفصیل کے ساتھ دی گئی ہے ۔اس فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ جامعہ کے شعبۂ اردو میں پہلی پی ایچ ڈی پروفیسر صغرا مہدی کو 1977میں ایوارڈ ہوئی تھی ۔۲۰۲۲تک ۱۵۳ طلبہ کو ڈاکٹریٹ اور ۲۰۹ طلبہ کو ایم فل کی ڈگریاں تفویض کی جاچکی ہیں ۔اس فہرست یہ بھی پتہ چلتاہے کہ پروفیسر محمد حنیف کیفی ،پروفیسر شمس الحق عثمانی ،پروفیسر خالد محمود ،ڈاکٹر شمع افروز زیدی ،پروفیسر شہپر رسول ،پروفیسر عبدالرشید،ڈاکٹر شاہ عالم اور پروفیسر خالد جاویدجیسی ممتاز ادبی شخصیات نے اسی شعبے سے ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی ہے ۔اردو کے موجودہ منظرنامے کے چند نمایاں نام مثلاً ڈاکٹر عمیر منظر، ڈاکٹر انوارالحق ،ڈاکٹر خالد مبشر ، ڈاکٹر محمد مقیم،ڈ اکٹر شاہ نواز فیا ض،ڈاکٹر محضر رضا،ڈاکٹر نوشاد منظر ،ڈاکٹر سلمان فیصل ،ڈاکٹر زاہد ندیم احسن،ڈاکٹر محمد ساجد ذکی فہمی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی وغیرہ بھی اس شعبے سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔
ارمغان کے اس شمارے (نمبر 11)کے مطالعے کے بعد یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ شعبۂ اردو کی تاریخ کے تعلق سے یہ شمارہ دستاویز ی حیثیت کا حامل ہوگیا ہے۔ اسے بنیاد بناکر جامعہ کے شعبۂ اردو کی تاریخ جیسے موضوعات پر بہت سے تحقیقی مقالے قلم بند کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف شعبۂ اردو کی تاریخ مرتب ہوگی بلکہ اردو ادب کے بہت سے ایسے تخلیق کاروں کی علمی وادبی خدمات بھی سامنے آئیں گی جو کہیں گم ہو گئے یافراموش کردیے گئے۔
صدر شعبہ پروفیسر احمد محفوظ اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انھوں نے شعبۂ اردو کے تمام پہلوؤں کو محیط ایساخاص شمارہ شائع کردیا ہے کہ اب یہ محض ایک شمارہ نہیں بلکہ تاریخی دستاویزہے۔شعبۂ اردو سے متعلق علمی کام کرنے والوں کے لئے ارمغان کا یہ شمارہ حوالہ جاتی حیثیت کا حامل ثابت ہوگا ۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جیسے جیسے وقت گذـرتا جائے گا، اس شمارے کی اہمیت اور معنویت مزید بڑھتی جائے گی ۔