Home نقدوتبصرہ فلسطینی دردو کرب کو بیان کرنے والی کتاب:میں نے رام اللہ دیکھا-عبدالرحمن قاسمی

فلسطینی دردو کرب کو بیان کرنے والی کتاب:میں نے رام اللہ دیکھا-عبدالرحمن قاسمی

by قندیل

مرید البرغوثی(1944-2021ء) فلسطینی نژاد عظیم شاعر، ادیب اور ناول نگار تھے ، وہ فلسطین کے شمالی گاؤں ’دیرغسانہ‘ میں 8جولائی 1944ء کو پیدا ہوئے، تعلیم حاصل کرنے کے لیے قاہرہ یونیورسٹی کا رُخ کیا، اسی ز مانے میں 1967ء کی مشہور’ عرب اسرائیل‘ جنگ چھڑ گئی ،جس میں عربوں کو شکست ہوئی اور اسرائیل نے فلسطین کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا، اُس کے معاً بعد بے شمار فلسطینی بے گھر زندگی گذرانے پر مجبور ہوگئے بلکہ مجبور کردیے گئے، جو فلسطین سے باہر دیگر ملکوں میں تھے، اُن کے لیے فلسطین میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی، اُن کا وطن واپسی کا خواب بس ایک خواب بن کررہ گیا، مرید البرغوثی بھی اُنہی لوگوں میں سے تھے،جو اسرائیلی قبضے سے پہلے قاہرہ یونیورسٹی مصر میں زیر تعلیم تھے، اس ناگہانی واقعہ کے بعد وہ اپنے وطن ،اپنے گھر ،اپنے اہل خانہ ،اپنے والدین اور اعزہ واقارب سے ایک عرصہ تک ملاقات نہیں کرپائے ، اِس دوران اُن کی زندگی میں کئی واقعات و سانحات رونما ہوئے کبھی اہل ِخانہ سے ملنے کی چاہت ہوتی توتڑپ کر رہ جاتے ، اُس کے لیے اُنہیں کس کس طرح کی دقتوں، پریشانیوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا،اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے ، البتہ اُن کی کتاب’رأیت رام اللہ‘ (میں نے رام اللہ دیکھا) ان کی تیس سالہ جلاوطنی ،اُس کی سختیوں اور پریشانیوں اور وطن واپسی کے بعد اُس کے درودیوار، گلیوں، شاہراہوں اوربچپن کی تعلیم گاہوں ،کھیل گاہوں،اُس کے تغیرات اور تبدیلیوں کو دیکھ کر،اپنے اعزہ و اقارب ،رشے دار ، دوست احباب اور مظلوم فلسطینیوں کی جانبازی ، قربانی اور شہادت کی تفصیلات جان کر اُنہوں نے جو کچھ محسوس کیا،ان احساسات و جذبات اور خیالات کا خوب پتہ دیتی ہے۔ یہ واقعی دل خراش ،دردناک اور اور الم ناک داستاں ہے، اسی وجہ سے ’ میں نے رام اللہ دیکھا ‘ کو ہم محض اُن کی خود نوشت نہیں کہہ سکتے ، اس بارے میں کتاب کے مترجم مولانا نایاب حسن قاسمی نے اچھوتے انداز میں لکھا ہے :
’’ عموماً اس کتاب کو خودنوشت سوانح یا سوانحی ناول کے خانے میں رکھا جاتا ہے ،مگر گہرائی سے جب اس کا مطالعہ کیا جائے، تو اس کی کئی جہتیں اور پرتیں سامنے آتی ہیں ، اس میں ناول جیسا بے مثال کہانی پن بھی ہے ،یہ خود نوشت تو ہے ہی ؛ لیکن یہ سفرنامہ بھی ہے ، رپورتاژ بھی ہے ، اور اس میں جگہ جگہ انشائیے کا رنگ بھی پایا جاتا ہے ‘‘۔(’ میں نے رام اللہ دیکھا ، ص 22)

مرید البرغوثی تیس سال جلاوطنی کی زندگی گزارنے اور اپنے وطن فلسطین واپس آنے کے بعد مکان و وطن کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ تیس سالہ جلاوطنی کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ مکان یا وطن کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے ، دسیوں فلسطینی خواتین ناجائز اسرائیلی حکومت کے ذریعے لگائے گئے بریکیڈ کی وجہ سے اسرائیلی فوجوں کے قدموں تلے سڑکوں کے کنارے وضع ِحمل کو مجبور ہوئیں ، یہاں ’تخت ‘ (چارپائی ) کے معنی بھی بدل جاتے ہیں ، چاہے وہ گھر کی چارہائی ہو یا ہسپتال کا بیڈ اور یہ چارپائی یا بیڈ بھی مکان اور رہائش گاہ کے ذیل میں آتا ہے ، یہ جو بچہ پیدا ہوا ہے ،اس کی پوری زندگی پیدائش کے وقت سے ہی اسرائیلی تسلط کے نشانے پر ہوگی ، اس کے لیے گود کے معنی بھی مختلف ہیں اور گود بھی ایک مکان ( رہائش گاہ ) ہے ، میں نے یوری لوتمان (روسی ، ادیب ،مفکر و مؤرخ ) سے نہیں سیکھا کہ رکاوٹیں اور مشکلات جگہو ں کو تنگ بنادیتی ہیں ؛ بلکہ ذاتی اور خاندانی تجربے سے مجھے یہ علم حاصل ہوا ہے ‘‘۔(’ میں نے رام اللہ دیکھا ، ص 15)

اسی طرح اپنے وطن پر اسرائیلی قبضے کےاثرات و نقصانات کے نقوش کچھ اس طرح کھینچتے ہیں :
’’ بات یہ ہے کہ آپ کے وطن پر کسی غیر کا تسلط آپ کو اپنے طریقے سے زندگی نہیں گزارنے دیتا ، وہ آپ کی پوری زندگی حتی کہ موت میں بھی مداخلت کرتا ہے ، وہ آپ کی بیداری ، آپ کے شوق ،غصہ ،خواہشات اور راہ چلنے میں بھی مداخلت کرتا ہے ،کہیں جانے آنے پر بھی اس کی نظر رہتی ہے ، چاہے آپ پڑوس کے سبزی فروش کے ہاں جارہے ہوں، اسپتال جارہے ہوں ، ساحل ِ سمندر گھومنے جارہے ہوں ، اپنے سونے کے کمرے میں جارہے ہوں یا دور کے کسی شہر جارہے ہوں‘‘۔

ایک جگہ اور اسرائیلی تسلط کے متعلق لکھتے ہیں :
’’اسرائیلی قبضے نے(فلسطینیوں کی) ایسی نسلیں پیدا کردی ہیں، جن کا خارج میں کوئی وطن نہیں،جس کا رنگ بو اور آواز انہیں یاد ہو، اُن کا کوئی وطن ِ اصلی نہیں ہے، جہاں رہنا انھیں یاد ہو نہ اس میں بچھا ہوا وہ بستر، جسے انھوں نے بچپن میں باربار گیلا کیا ہو ، وہ بستر جہاں وہ نرم، رنگین کپڑے اور روئی کی گڑیا بھول گئے ہوں یا جس کے سفید تکیے (گھر کے بڑوں کے غائبانے میں ) ایک دوسرے کی مزے دار لڑائی میں ہتھیار کا کام کرتے رہے ہوں، حقیقت یہی ہے کہ طویل اسرائیلی تسلط نے ہماری ایسی نسلیں تیار کردی ہیں ،جنھیں ایک نامعلوم محبوب سے محبت ہے، ایسا محبوب جو نظروں سے دور، پہنچ دور رہے، جو محافظوں ، دیواروں، جوہری ہتھیاروں اور سراسردہشتوں سے گھرا ہوا ہے ، طویل اسرائیلی تسلط نے ہمیں ’ ابنائے فلسطین ‘ سے’ ابنائے نظریہ ٔ فلسطین ‘ میں تبدیل کردیا ہے‘‘ ۔

الحاصل کہ یہ مرید البرغوثی کی ایک شاندار تخلیقی ، عمدہ، لاجواب،فلسطینی دردو کرب کو بیان کرنے والی ،اُس کی حقیقی عکاسی کرنے والی کتاب ہے،اس کتاب کی مقبولیت کی دلیل یہ ہے کہ اِس کے (عربی زبان میں ) چھپنے کے بعد درجنوں زبانوں میں اس کے تراجم کیے گئے ،جو مقبول عام و خاص ہوئے ،البتہ اردو زبان کا دامن اِس کتاب کے ترجمے سے خالی تھا۔ قابل مبارک باد اور لائق ستائش ہیں معروف قلم کار مولانا نایاب حسن قاسمی، جنہوں نے اس کو اردو کا جامہ پہناکر ایک عظیم کام کیا ہے ۔
اردو زبان و ادب کے مشہور ناقد جناب حقانی القاسمی نایاب حسن کی اس کاوش کی اہمیت وضرورت اور اُن کے ترجمے کی روانی ،سلاست ،شفگتگی اور شیفتگی کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’ اردو میں اس ترجمے کی شدید ضرورت تھی ، کہ قضیہ ٔ فلسطین کا اردو ثقافت اور صحافت سے ایک گہرا جذباتی رشتہ رہا ہے ، نایاب حسن نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ، اسے اردو کا پیرہن عطا کیا ہے، انہوں نے ترجمے کے تلازمات کاپورا خیال رکھا ہے اور کتاب کی روح کو بھی زندہ ر کھا ہے ، جب کہ زیادہ تر ترجموں میں تخلیق کی روح مرجاتی ہے ، ترجمہ کی زبان نہایت سادہ اور سلیس ہے ، اپنےاندر وہی جادوئی کیفیت بھی رکھتی ہے ،جو عربی میں البرغوثی کا امتیاز ہے ، مجھے امید ہے کہ اردو حلقے میں اس کتاب کی پذیرائی انگریزی اور دیگر زبانوں سے کہیں زیادہ ہوگی ‘‘۔
راقم کا خیال ہے کہ ’قضیہ فلسطین ‘ کے تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے،اس سے جہاں ایک فلسطینی شاعر، ادیب اور مصنف کی زندگی کے نشیب و فراز کا علم ہوگا ،اُن کی زندگی کے سانحات سے سبق لینے کا موقع ملے گا ،وہی قضیہ ٔ فلسطین کو اس کے حقیقی تناظر میں سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی ، زبان وادب کی چاشنی سے بھی محظوظ ہوں گے ۔
یہ کتاب تقریب و تمہید اور تاثرات کے علاوہ نوابواب پر مشتمل ہے اور ہر انوکھے اور البیلے طرزِبیاں کا عمدہ نمونہ ہے ، کتاب کی عام قیمت 400روپے جبکہ رعایتی قیمت 280 روپے ہے ، مرکزی پبلیشنز نے اِسے شائع کیا ہے۔ آن لائن منگوانے کے لیے ذیل کے نمبرات پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
70602 71934
98117 94822

You may also like