مسعود جاوید
سیکولر اور بالخصوص لبرل طبقے کو ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ مسلمان الگ تھلگ رہتے ہیں۔ اور یومیہ کہ مکھیہ دھارا main stream میں شامل نہیں ہونا ہی مسلمانوں کی ہر مصیبت کی جڑ ہے۔ میں بھی بہت حد تک اسی خیال کا ہوں کہ مسلمان علحدہ رہنے ghetto living کی بجائے دیگر برادران وطن کے ساتھ بود و باش اختیار کریں۔ ان کے ساتھ جس قدر میل جول بڑھےگا interaction ہوگا ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہوں گی۔
تاہم جب جب بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں میری یہ سوچ متزلزل ہونے لگتی ہے۔ اور ایسا کسی واہمہ مفروضہ یا افواہ کی بناء پر نہیں زمینی حقیقت کا مشاہدہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
فرقہ وارانہ فسادات گرچہ ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ان میں اس قدر مذہبی تشدد نہیں ہوتا تھا۔ اتنے منظم انداز میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والا فساد شاید یہ پہلا فساد ہے۔ ماضی میں بھی بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے مگر ایک تو یہ کہ ان کو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں دوسرا یہ کہ ان کی نوعیت دو فرقوں کے درمیان تصادم کی ہوتی تھی نہ مذہبی تشدد مذہبی نعروں اور علامتوں کا مظاہرہ کرنے کی۔۔ فرقہ وارانہ فسادات کا مفہوم یا تعریف یہ ہے کہ دو مختلف فرقوں کے چند افراد کے مابین کسی بات کو لےکر جھڑپیں ہوئیں جسے چند غیر سماجی عناصر نے ہوا دے کر ڈنڈے لاٹھی اور پتھراؤ تک پہنچا دیا۔ پولیس آئی دفعہ ١٤٤ لگا دیا گیا دونوں فرقوں کے لوگوں میں سے چند کی گرفتاریاں ہوئیں۔ دونوں فرقوں کے اثر و رسوخ والے افراد پر مشتمل پولیس کپتان کی سربراہی میں پیس کمیٹی کی میٹنگ ہوئی اور امن قائم کرنے کا عہد کیا گیا اور اعتماد بحال ہوگیا۔
لیکن حالیہ فسادات کو بعض سماجی علوم کے ماہرین اور بین الاقوامی سطح کے سینئر صحافی فرقہ وارانہ فساد سے ایک درجہ آگے ” ٹارگیٹڈ حملہ ” اور بعض تجزیہ نگار "نسل کشی” سے تعبیر کر رہے ہیں اور اس کے ثبوت کے طور پر وہ ان مکانوں، دکانوں کو پیش کر رہے ہیں جنہیں نشاندہی کر کے کہ یہ مسلمانوں کے ہیں آگ لگا دیۓ گۓ لوٹے گۓ اور مکینوں پر قاتلانہ حملے کۓ گۓ۔ متعدد مسجدوں غالباً ١٩ کی بے حرمتی کی گئی توڑ پھوڑ آگ زنی کی گئی قرآن مجید کے کئی نسخے آگ کے حوالے کیۓ گئے اور شاید فسادات کی تاریخ میں پہلی بار مینارے پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا اور مذہبی نعرے لگائے گئے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ دو فرقوں کا کوئی آپسی تنازع کا مسئلہ نہیں یہ اسلام مخالف حملہ تھا جس میں کچھ مقامی اور کچھ باہر سے لاۓ گۓ غنڈوں نے منظم حملہ کیا ہے۔
کیا ایسے ماحول میں بے خوف رہنے کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟ ظاہر ہے اس کا سچا اور سیدھا جواب وہی لوگ دے سکتے ہیں جن کی نظروں کے سامنے ان کے اک لگایا گیا جن کی نظروں کے سامنے غنڈے ان کے خون کے پیاسے کھڑے تھے ایسے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ کسی طرح نکل کر قریب کسی محفوظ علاقے میں پہنچنے میں کامیاب ہو ۓ۔
تین دنوں کے ٹانڈو کے بعد حالات معمول پر آنے لگے لیکن اس کے بعد بھی ان میں بہت سے ایسے ہیں جو لوٹ کر اپنے گھروں کو جانے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں۔ جب بھی وہ اپنے دل کو سمجھانا چاہتے ہیں وہ منظر ان کے سامنے ایک ڈراونا خواب کی طرح آکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس خون چکاں داستان بربادی میں کچھ مثبت باتیں بھی ہیں کہ کئی غیر مسلم افراد نے مسلمانوں کی اپنے گھروں میں پناہ دی یا اپنے تحفظ میں ان کو محفوظ مقامات دوسرے مسلم علاقوں میں پہونچایا اسی طرح کئی مسلم افراد نے غیر مسلموں کی جان بچائی اور مندروں کی حفاظت کی۔ گرودوارے اور چرچ نے مظلوموں کے لۓ اپنے دروازے کھول کر قیام و طعام کی پیشکش کی۔
کیا دستور ہند میں دی گئی جمہوریت ، سیکولرازم اور حقوق کی ضمانت کچھ لوگوں کو پسند نہیں ؟ کیا ایک مخصوص طبقہ باہمی ہم آہنگی اور peaceful coexistence کے خلاف کام کر رہا ہے ؟
مسلمانوں کو مکھیہ دھارا سے الگ کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر ملک میں وقفہ وقفہ سے ایسے ہی حالات سامنے آتے رہے تو کیا ghetto living کو بڑھاوا نہیں ملے گا ؟
کیا حالیہ فسادات کی نوعیت جرمن فلسفی اور مفکر کی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مذہب ایک افیم ہے یعنی مذہب کی افیم چٹا کر لوگوں میں مذہبی جنونیت پیدا کیا جاتا ہے پھر وہ عوام جنونی بھیڑ میں تبدیل ہو جاتی ہے جو اپنا ، اپنی سوسائٹی کا اور اپنے ملک کی بھلائی آزادی فرد ، معاشرے کی فلاح و بہبود اور ملک کی تعمیر و ترقی پر مذہبی عصبیت اور مذہب کی بالادستی کو ترجیح دیتی ہے جو ایک مہذب معاشرے کے لئے زہر سے کم نہیں ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)