Home تجزیہ مین اسٹریم میڈیا میں مسلمانوں کی حصے داری: ایک جائزہ-پروفیسر اسلم جمشید پوری

مین اسٹریم میڈیا میں مسلمانوں کی حصے داری: ایک جائزہ-پروفیسر اسلم جمشید پوری

by قندیل

ہندوستان کو آزاد ہوئے تقریباً 72 سال کا ایک طویل عرصہ ہو چکا ہے۔ اس طویل عرصے میں ہم نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے، کانگریس کی حکومت دیکھی۔ جنتا پارٹی،جنتا دل اور بی جے پی کی حکومتیں دیکھیں۔ فرقہ پرستی کے انتہائی خطرناک منظرنامے دیکھے۔ بھاگل پور، جمشیدپور، مرادآباد، میرٹھ، رانچی، علی گڑھ، گجرات، ممبئی، مظفر نگر جیسے سینکڑوں شہروں کو جلتے ہوئے دیکھا۔ 92 کا بابری مسجد انہدام دیکھا۔ سی اے اے۔ این پی آر، لاگو کرنے پر سرکار کی ضداورحق کی آواز دبانے کوملک گیر دہشت و بربریت دیکھی۔ طلاق ِ ثلاثہ پرقانون بناکر پرسنل لاء میں سرکار کی مداخلت دیکھی۔ 370 کوختم ہوتے دیکھا۔ سرکار یں آتی جاتی رہیں لیکن اقلیتوں کے خلاف ہونے والی سازشیں اور منصوبے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ تازہ ترین،دہلی کے ایک بڑے علاقے میں بھی فرقہ پرستی کا ننگا ناچ دیکھا۔ تبلیغی جماعت کی ذراسی، بھول چوک کو ایسا رنگ دیا کہ کورونا کو ہی مسلمانوں سے جوڑدیا گیا۔
آئیے اب ان حالات میں میڈیاکے کردار اور رد عمل پر بھی ایک نظر ڈالیں۔ملک کی سطح پر برپا ہونے والے ایسے کسی بھی معاملے اور واقعے کی رپوٹنگ کا انداز بھی Main Stream Media میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہتے ہیں،کیا اپنا کردار ایماندارانہ طور پر ادا کر سکا۔اگر میڈیا حق کا طرف دار نہیں رہ سکتا تو کم از کم،غیر جانب دار ہی ہو۔ لیکن میڈیا نے نہ صرف حق سے آنکھیں موند لیں،بلکہ یکطرفہ ہوگیا۔ ایسے وقت پر بار بار یہ خیال آیا کہ کاش ہمارا بھی ایک مضبوط میڈیا ہوتا تو ہم اپنی بات، اپنے طور پر رکھ پاتے۔ میڈیا جسے ہم پرنٹ اورالیکٹرانک میں تقسیم کر لیں اور جائزہ لیں تو آج اردو پرنٹ میڈیا میں تو کسی قدر اطمینان کی سانس لی جا سکتی ہے۔ آزادی کے بعد سے آج تک کے دور میں موجودہ اردو پرنٹ میڈیا اپنے سب سے اچھے دور سے گذر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے آج سے 25-30 برس قبل تک اخبارات کی دنیا میں ہمارے پاس کئی مقبول ِ عام ہفت روزہ اخبار ات تھے، جن میں نشمین، بلٹز، نئی دنیا، اخبار ِ نو، ہمارا قدم، ملی اتحاد، ملی ٹائمز،دعوت،الجمیعۃ،مسائل، سیکولر قیادت کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان اخبارات میں قومی ملکی مسائل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح کی خبریں بھی سرخیوں کے ساتھ موجود ہوتی تھیں۔ ان اخبارات کی ریڈرشپ بھی اچھی خاصی تھی۔ روزناموں کی بات کریں تو قومی آواز، سیاست، انقلاب، اردو ٹائمز، منصف، آزاد ہند، اخبار مشرق، کشمیر عظمیٰ، سنگم،صدائے عام،ساتھی،ہمارا نعرہ،امن چین، قومی تنظیم، اقراء، رہنمائے دکن، سالار،ان دنوں،عوام،جیسے روزنامے تھے۔ آج ہفت روز اخبارات میں قابلِ ذکر نام صرف نئی دنیا، ہی ہے، وہ بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اس کی ریڈر شپ میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔ ہاں روز ناموں میں قومی آواز، آزاد ہند،اقراء، سنگم،صدائے عام،ساتھی،ہمارا نعرہ،امن چین، ان دنوں،عوام،اب قصّہ پارینہ ہوچکے ہیں۔ پرانے اخبارات کے ساتھ ساتھ کئی نئے روزنامے بڑے طمطراق کے ساتھ میدان میں آگئے ہیں۔ راشٹریہ سہارا، انقلاب (شمالی ہند کے ایڈیشنز) صحافت، اودھ نامہ، نیا نظریہ، لازوال، تاثر،آگ، عکاس،نوائے بنگال، اردو ٹائمز، ممبئی نیوز، ہندوستان، ہمارا سماج،ہندوستان ایکسپریس، سیاسی تقدیر، سیاسی افق، الحیات، آج کا انقلاب، ہم آپ، اُڑان،جدید خبر،خدمت وغیرہ اخبارات نے اردو صحافت کے نہ صرف معیار کو بلند کیا ہے بلکہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو بھی نبھایا ہے اور قومی بیداری میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
اردو کے دو اہم اوربڑے روزنامے راشٹریہ سہارا اورانقلاب، غیر مسلم اردو دوست اداروں کے ترجمان کے طور پر اردو کی خدمت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مسائل کو بھی دیگر اخبارات سے زیادہ جگہ دے رہے ہیں۔ ان دو اخبارات کو منہاکر دیا جائے تو شمالی ہندوستان خصوصاً بہار، اتر پردیش، پنجاب، راجستھان جسیے بڑے علاقے میں اردو صحافت خصوصاً اخبارات کے ذیل میں ہمارے پاس بہت کچھ نہیں بچے گا۔
انگریزی اور ہندی کے اخبارات کی بات کی جائے تو یہاں بھی مایوسی ہاتھ آئی ہے۔ آزادی کے بعد سے ہم کوئی انگریزی روزنامہ نہیں نکال پائے۔ ملی گزٹ،اور ریڈئنس نے کچھ ہمت ضروردکھائی(لیکن یہ ہفت روزہ ہیں)۔ ہندی کے اخبارات کے معاملے میں بھی ہم زیرو جیسے ہی ہیں۔ گذشتہ دہائیوں میں ”شاہ ٹائمز“ نام کا اخبار، مظفر نگر سے رانا گروپ نے شروع کیاتھا۔ میرٹھ، مظفر نگر، دہرہ دون سے نکلنے والا یہ اخبار بھی ہمارے آنسو نہیں پونچھ سکا۔ غازی آباد سے یگ کروٹ، نام کا اخبار نکلتا ہے،ایسے اور بھی کئی اخبار ات ہیں۔ لیکن انہیں بھی آپ، بس کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے اخبارہیں۔ ہم دینگ جاگرن، امر اُجالا، ہندوستان، نوبھارت، جن ستا، جن وانی، آج، آواز، پربھات خبر، نئی دنیا، راجستھان پتریکا، لوک مت،پنجاب کیسری، جیسے اخبارات نہیں نکال سکتے۔ مانا کہ ہم ان جیسے اخبارات دو چار سال میں نہیں نکال سکتے، لیکن اگر کوشش کریں گے تو آج نہیں تو دس سال بعد ہم ان میں سے کسی ایک اخبار تک تو ضرور پہنچ سکتے ہیں۔ ادھر کئی اردو اخبارات نے ہندی ایڈیشن یا دو چار صفحات ہندی اورانگریزی میں بھی شایع کرنا شروع کیا ہے۔مثلاً اودھ نامہ،آگ،سیاست وغیرہ۔لیکن ان کی خبریں اور پیش کش سے اردو اور اسلامی رنگ وبو ہی زیادہ نظر آتا ہے۔غیر مسلم ہندی والے ان اخبارات کو ہاتھ لگانا بھی گوارا نہیں کرتے۔اس کے بر عکس ہماری آبادی کا ایک بڑا طبقہ صرف ہندی اخبارات پڑھتا ہے۔ایسے میں اگر ہمارے ذریعہ کوئی معیاری،قومی سطح کاہندی روزنامہ نکلتا ہے،تو اسے بہت جلد مقبولیت مل سکتی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کی بات کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم بہت پیچھے ہیں۔ آزادی کے بعد سے آج تک ہم کوئی معیاری، قومی سطح کا ایک ٹی وی چینل نہیں شروع کر پائے۔ معاف کریں آپ کہہ سکتے ہیں کہ کئی چینل ہیں۔ منصف اور سیاست نے کوشش کی اور اچھے مقامی چینل قائم کئے۔حیدرآبادمیں ایک اور مقامی چینل 4 ٹی وی کے نام سے اچھا کام کر رہا ہے۔گذشتہ پچیس تیس برسوں میں کئی کوششیں ضرور ہوئیں۔ سابق مرکزی وزیر سی ایم ابراہیم کی رہنمائی میں فلک اورالہند نام کے چینل پر کام شروع ہوالیکن وہ لانچ نہیں ہو پائے۔ الکتاب نام کا چینل بھی شروع ہوا لیکن یہ بھی پرانی کتاب بن گیا۔ آج تک، زی نیوز، نیوز24، نیوز18، اے بی پی، این ڈی ٹی وی، انڈیا ٹی وی، آر ٹی وی، ٹی وی 9، نیوز نیشن، اسٹار نیوز، جیسے قومی اور اثر دار چینل جیسا ایک بھی چینل ہم نہیں بنا پائے۔ کیا ہمارے پاس سرمائے کی کمی ہے؟ کیا ہمارے پاس ایسے پیسے والے نہیں ہیں جو کروڑوں کا منفعت بخش کاروبار کر سکیں؟ کیا ہم ٹکنالوجی میں پیچھے ہیں؟ ہمارے پاس اسکلزکی کمی ہے؟ یا ہم پیشہ ور نہیں ہیں؟ ہمارے پاس کئی بڑے ادارے موجود ہیں۔ بڑے بڑے سرمایہ دار موجود ہیں (حضور صل اللہ علیہ وسلم کا پوسٹر بنانے والے کے سر پر 52 کروڑ کا انعام اعلان کرنے والے اور کورونا جیسی وبا کے دنوں میں سینکڑوں اور ہزاروں کروڑ روپے سرکار کو عطیہ دینے والے موجود ہیں۔) پیشہ وارانہ مہارت کی بھی کمی نہیں۔ پھر پیشہ ور تو ملازم بھی رکھے جا سکتے ہے، پھر کیا بات ہے؟ کیوں ہم دوسرے چینلز پر اپنی بے عزتی ہوتے دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم کچھ بھی کریں، میڈیا اُسے منفی بنا کر پیش کرتا ہے۔ ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، آخر کار کب وہ دن آئے گا جب ہماری شرمندگی دور ہوگی۔
آج ویب چینلز کا بھی زمانہ ہے۔بے شمار ویب چینلز آج یو ٹیوب کو ذریعہ بنا کر میڈیا کی دنیا میں اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ان میں کئی ہمارے مسلم صحافیوں کے بھی ہیں۔ہی اچھی شروعات ہے۔دوسری طرف اودھ نامہ(لکھنؤ)،نیا نظریہ(ایم پی) جیسے کئی اخبارات کے Audio-Video Edition بھی بہت اچھی کوششیں ہیں۔لیکن یہ سب اونٹ کے منہ میں زیرے کے مانند ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ اب ہمیں منصوبہ بند طریقے سے اپنا میڈیا ہاؤس قائم کرنا ہوگا۔ ہندی، انگریزی اخبارات کے لیے کوششیں کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی قومی سطح کے ٹی وی چینل کے لیے بھی منصوبہ بنانا ہوگا۔ ریڈیو کے لائسنس بھی اب ملنے لگے ہیں۔ ہم ریڈیو بھی شروع کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس نہ پیسے کی کمی ہے اور نہ دماغ کی۔ کمی ہے تو اتحاد کی اور منصوبہ بندی کی، جب کہ منصوبہ بندی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو سکھائی۔ جنگ اُحد اور جنگ خندق اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ہمیں اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے ایسی ایک جنگ کی منصوبہ بندی کرنی ہے جو ظلم اور ظالم کے خلاف عوامی جنگ ہوگی۔ ہمیں اپنا میڈیا قائم کرنا ہے۔ ہمیں اپنی قوم کی جہالت کے خلاف جنگ کرنی ہے۔ ہمیں اپنا میڈیا کھڑا کرکے اپنے مسائل کو قومی سطح پر آواز دینی ہے۔ اسلام پر ہو رہے حملوں کے خلاف ہمیں منظم طور پر ایک جنگ کی شروعات کرنی ہے۔ یہ جنگ دماغ کی جنگ ہوگی۔ یہ جنگ قلم کی جنگ ہوگی۔ یہ جنگ حق ثابت کرنے کی جنگ ہوگی۔ یہ جنگ ظلم کے خلاف ہر مسلمان کی ہی نہیں ہر ہندوستانی کی جنگ ہوگی۔ ہم ہر ظلم کے خلاف جنگ لڑیں گے۔
انسانیت کے دشمنوں کے خلاف، ملک کے دشمنوں کے خلاف، فرقہ پرستوں کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ اور اس کی شروعات ہمارے اپنے میڈیا ہاؤسز سے ہوگی۔
آخر ی بات کے طور پر ہمیں اس کی کوشش کے لیے ملک گیر سطح پر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بڑے ملّی،تعلیمی ادارے اور سیاسی، مذہبی اور علمی شخصیات کو ایک مضبوط و مستحکم لائحہ عمل بناکر کام کرنا ہوگا۔الحمدللہ آج ہمارے پاس،ہرطرح کے ہنرمند،قابل اور پیشہ ورانہ قابلیت اور اہلیت والے افراد موجود ہیں۔نئی نسل میں سینکڑوں نوجوان مختلف چینلز پر اپنا ہنر دکھا رہے ہیں۔ منصوبہ بند طریقے سے ایک پلٹ فارم بنا کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ورنہ اقبال کا یہ مصرعہ ہمیں یاد کر لینا چاہئے:
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment