جب مین اسٹریم میڈیا یا نیشنل پریس کی اکثریت نے اپنی مصداقیت و معتبریت credibility کوکھو دیا تو متبادل میڈیا alternate media کی مقبولیت بڑھی۔ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جھوٹ بولنا آسان نہیں ہے۔ آپ کا کوئی دوست، شناسا،آفس، کاروباری یاکوئی متعلق آپ کو فون کرتا ہے لیکن آپ نہیں چاہتے کہ اس وقت آپ کا دوست آپ کا وقت خراب کرے یا آپ اس کے کسی سوال کا جواب دیں، آفس سے بلا کوئی معقول وجہ غائب ہونے کی وضاحت کریں، کسی کی رقم واپس نہ کرنے کا عذر بتائیں تو آپ اس کا فون اٹینڈ نہیں کرتے، بعد میں ملاقات ہوتی ہے اور اس کی شکایت پر کہتے ہیں کہ اس کا فون نہیں آیا تو وہ فوراً آپ کو مسڈ کال کی فہرست دیکھنے کو کہ کر آپ کو شرمندہ اور لاجواب کر دے گا۔
سیاست دانوں کا ایک مجرب ترین حربہ یہ ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنے بیان سے مکرتے وقت اخبارات کو مورد الزام ٹھہرایا کرتے تھے کہ اخبار نے اس کے بیان کو غلط شائع کیا اور اس کے موقف کو توڑ مڑوڑ کر سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کیا۔ لیکن اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نت نئے وسائل نے ان پلٹووں سے یہ حربہ چھین لیا اگرچہ اب بھی وہ اپنی پرانی روش پر قائم رہتے ہیں؛ لیکن متبادل میڈیا کے پاس ان کے audio visual بیانات محفوظ رہتے ہیں،جن سے وہ ان کو آئینہ دکھا کر ننگا کرتے ہیں -(گر موٹی چمڑی والے سیاستدان اور بھکت قسم کے قارئین اور سامعین نہ ہوں)۔
کل وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں این آر سی کے تعلق سے جو وضاحت پیش کی، اس پر متبادل میڈیاوزیر داخلہ امت ساہ کے متعدد آڈیو ویژول قابل سمع و بصر بیانات اور ان کی باڈی لینگویج بطور ثبوت پیش کر رہا ہےاور قارئین و سامعین کو وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات میں تضاد کو دیکھا رہا ہے۔ وہ لوگ یہ بھی دکھا رہے ہیں کہ ڈیٹینشن کیمپس آسام میں موجود ہیں اور کرناٹک میں زیر تعمیر ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینیر وکیل اور مشہور سوشل اکٹیوسٹ پرشانت بھوشن نے اس کیمپ کا دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں سے احوال واقعی جاننے کی کوشش کی، یہ سب بطور ready reference ہیں اور نشر کیے جا رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے یہ کہنا کہ لوگوں کو اپوزیشن جماعتیں گمراہ کر رہی ہیں اور یہ کہ لوگوں کو این آر سی اور اس کے ممکنہ سنگین صورتحال سے واقفیت نہیں ہے،انہیں سمجھ نہیں ہے،یہ کس قدر مضحکہ خیز ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک وبیرون ملک کے دانشور طبقہ کو اس نئی صورت حال سے تشویش ہے،عوام کے سامنے آسام کا اندوہناک منظر ہے۔ وزیر داخلہ کا بیان اور شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کا نفاذ اور ترتیب سامنے ہے ایسے میں کس طرح عام آدمی کسی کی وضاحت پر بھروسہ کرے؟
ایسے میں عوامی نمائندوں وممبران پارلیمنٹ پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا انہوں نے پارلیمنٹ کے ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں تائید یا مخالفت کرنے سے پہلے اپنے اپنے حلقۂ انتخابات کے رائے دہندگان کی رائے جاننے کی کوشش کی ؟ ظاہر ہےکہ نہیں؛ اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے والی پارٹیاں اپنی ریاستوں میں این آر سی نافذ نہیں کرنے کا اعلان نہیں کرتیں۔یہ اور بات ہے کہ ان کا یہ اعلان ٹرین چھوٹنے کے بعد ہو رہا ہے۔ وزیر داخلہ کا سی اے بی اور این آر سی کو ایک ساتھ ایک ہی تناظر میں بیان کرنے پر اس بل کی عدم منظوری کا اعلان ایوانوں میں کرنا چاہیے تھا۔ ویسے بھی شہریت ایکٹ مرکزی حکومت کے دائرۂ کار میں ہے نا کہ ریاست کے دائرۂ اختیار میں۔ اگر ریاست اس کے نفاذ سے انکار کرتی ہے تو ایسی ریاست کو مرکز ڈسمس کر کے صدر راج کا اعلان کر سکتی ہے، نتیجتاً چھ ماہ بعد اس ریاست میں دوبارہ انتخابات ہوں گے اور ظاہر ہے عوام کی رائے کے برعکس کوئی پارٹی رسک لینا نہیں چاہے گی لہذا وہ نئی حکومت بھی این آر سی نافذ کرنے سے کترائے گی،اس کا مطلب دوبارہ صدر راج اور اس کا لا متناہی سلسلہ۔
If it ain’t broke, don’t fix it
اگر یہ ٹوٹا نہیں تو اسے بنانے کی کوشش مت کروـ
حکومت کے مشیروں اور کارندوں نے شہریت ایکٹ میں چھیڑ چھاڑ کر کے پورے ملک میں بے چینی کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ شہریت ایکٹ نیشنل سیکیورٹی سے وابستہ ایک حساس ایکٹ ہے ،کسی تفریق کے بغیر کسے شہریت دینا ہے اور کسی نہیں دینا ہے یہ حکومت کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے،کبھی بھی یہ عوامی بحث و مباحثہ کا ایشو نہیں رہا؛لیکن ایسا لگتا ہے حکومت نے اپنا ووٹ بینک یقینی بنانے کے لئے اسے انتخابی مہم کاحصہ بناناچاہا، مگر پانسہ الٹا پر گیاہےـ