فریدی صدیقی مصباحی،مسقط (عمان)
جس کی تجلیوں سے حرارت لہو میں ہے
جانبازی کا چراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
جن سے ملے ہیں بسمل و اشفاق جیسے لال
اُن ماؤں کا سُراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
میرے گُلوں کو آتا ہے شعلوں سے کھیلنا
ایسا نڈر دماغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
ہرگز جُھکے گا ظلم کے آگے نہ میرا سر
گرچہ میں داغ داغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
زخموں میں مسکرانے کا فن مجھ سے سیکھیے
ہر غم سے بافراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
ہے میرے میکشوں میں نشہ ، صبر و عزم کا
خودداری کا اَیاغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
بُزدل نہیں ، یہاں پہ ٹھہرتے ہیں سرفروش
بَرتَر زِ حَدِّ زاغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
غنچے بھی اے فریدی یہاں کے دلیر ہیں
ہمت سے باغ باغ ہوں ، شاہین باغ ہوں