Home ادبیات میں شاہین باغ ہوں

میں شاہین باغ ہوں

by قندیل

 

فریدی صدیقی مصباحی،مسقط (عمان)

جس کی تجلیوں سے حرارت لہو میں ہے
جانبازی کا چراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں

جن سے ملے ہیں بسمل و اشفاق جیسے لال
اُن ماؤں کا سُراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں

میرے گُلوں کو آتا ہے شعلوں سے کھیلنا
ایسا نڈر دماغ ہوں ، شاہین باغ ہوں

ہرگز جُھکے گا ظلم کے آگے نہ میرا سر
گرچہ میں داغ داغ ہوں ، شاہین باغ ہوں

زخموں میں مسکرانے کا فن مجھ سے سیکھیے
ہر غم سے بافراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں

ہے میرے میکشوں میں نشہ ، صبر و عزم کا
خودداری کا اَیاغ ہوں ، شاہین باغ ہوں

بُزدل نہیں ، یہاں پہ ٹھہرتے ہیں سرفروش
بَرتَر زِ حَدِّ زاغ ہوں ، شاہین باغ ہوں

غنچے بھی اے فریدی یہاں کے دلیر ہیں
ہمت سے باغ باغ ہوں ، شاہین باغ ہوں

You may also like

Leave a Comment