Home نقدوتبصرہ ’ میں نے رام اللہ دیکھا ‘ : ایک فلسطینی شاعر و ادیب کی جلا وطنی کا نوحہ اور وطن واپسی کا عزم ! – شکیل رشید

’ میں نے رام اللہ دیکھا ‘ : ایک فلسطینی شاعر و ادیب کی جلا وطنی کا نوحہ اور وطن واپسی کا عزم ! – شکیل رشید

by قندیل

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

میں نے فلسطینی شاعر و ادیب مرید البرغوثی ( پیدائش ۸ ،جولائی ۱۹۴۴ء دیر غسانہ – انتقال ۱۴ ، فروری ۲۰۲۱ء عمان ) کی کتاب ’ رأيت رام الله ‘ کا اردو ترجمہ بعنوان ’ میں نے رام اللہ دیکھا ‘ اُس روز پڑھنا شروع کیا تھا ، جب فلسطین کی تحریکِ آزادی کی ایک سرگرم تنظیم حماس نے اسرائیل پر میزائیلوں کی برسات شروع کی تھی اور اس کا مطالعہ اُس روز مکمل کیا ، جب اسرائیل نے غزہ کے ایک اسپتال ’ الاہلی ‘ پر بزدلانہ اور شرم ناک حملہ کرکے ۵ سو سے زائد فلسطینیوں کو ، جن میں مریضوں ، عورتوں ، نوجوانوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی ، شہید کر دیا تھا ۔ یہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا نہ پہلا قتلِ عام تھا ، اور نہ آخری قتلِ عام ہوگا ۔ اسرائیل نے ۱۹۴۸ ء سے قتلِ عام کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے ، جو قتل ہوئے اور جو قتل ہو رہے ہیں ، اُن میں وہ ’ زندے‘ بھی شامل ہیں / تھے ، جنہیں ان کے مولد سے ، جہاں وہ پیدا ہوئے وہاں کی زمین سے ، زمین کی بھینی بھینی خوشبو سے ، اور اُن سب سے جن کے درمیان وہ کھیلے کودے ، شرارتیں کیں ، اور جہاں انہوں نے ہوش سنبھالا ، انہیں شعور آیا ، انہوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور جس کی تہذیب کی گود میں وہ پروان چڑھے ، فلسطینی تہذیب جو سب سے الگ ، سب سے جدا تھی ، سب سے علحیدہ کر دیا گیا ، گویا یہ جیتے جی انھیں اور اُن کے اپنوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا ، یہ بھی ایک طرح کا قتلِ عام ہے / تھا اور مرید البرغوثی انھی زندوں میں سے ایک تھے ۔ مرید البرغوثی ۱۹۶۶ ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے قاہرہ ، مصر گیے تھے اور جب ۱۹۶۷ ء میں چھ روزہ جنگ کے بعد وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے فلسطین لَوٹے تو انہیں ملک میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ۔ بہت سے دوسرے جلا وطن فلسطینیوں کی طرح وہ بھی بیرون ملک رہنے لگے ۔ وطن واپسی میں انہیں تیس سال لگے ! مسلسل جدوجہد کے بعد ہی ، انہیں اپنے آبائی شہر رام اللہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ، اُس شہر میں جو اُن کا اپنا تھا ، جہاں وہ پیدا ہوئے ، اور بڑے ہوئے تھے ! ’ واپسی ‘ کا بارہ روزہ سفر مرید البرغوثی کے لیے کیا معنی رکھتا تھا ، یہ کتاب اُس معنی کو سامنے لاتی ہے ۔ یہ اسرائیل اور فلسطین کے قضیے اور وہاں کی سیاست پر تو بات کرتی ہی ہے ، لیکن اُن جذبات ، احساسات اور اُن کیفیات کو بھی سامنے لاتی ہے ، جو کسی بھی ایسے شخص کے ہو سکتے ہیں جسے برسہا برس تک جبراً اُس کے وطن سے کھدیڑ دیا گیا ہو اور ایک دِن اُسے واپس اپنے وطن جانے کی ، اُسے دیکھنے کی اجازت ملی ہو ۔ لیکن یہ کتاب صرف تیس سالہ جبری مہاجرت کی داستان ہی نہیں ہے ، یہ فلسطین کو ’ یہودیانے ‘ کی بھی داستان ہے اور فلسطینی شہروں ، دیہاتوں اور فلسطینی گھروں کو ’ غیر فلسطینی ‘ بنانے کی کہانی بھی ہے ۔
جب یہ کتاب ۱۹۹۷ء میں پہلی بار عربی زبان میں شائع ہوئی تھی ، تب اس نے عالمِ عرب میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا ، جس کا ذکر اِس کتاب کے مترجم اور کئی کتابوں کے مصنف نایاب حسن نے ’ تقریب ‘ کے عنوان سے کتاب کے تعارف میں کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ اس کا پہلا ایڈیشن دارالہلال ، قاہرہ سے شائع ہوا اور منظرِ عام پر آتے ہی اس کی پوری دنیا میں دھومیں مچ گئیں ، نہ صرف اسے اس سال کا نجیب محفوظ ایوارڈ برائے تخلیقی ادب ملا ؛ بلکہ سال دو سال کے اندر مصر ، بیروت اور فلسطین وغیرہ سے پے در پے اس کے کئی ایڈیشنز شائع ہوئے ، اور اب تک درجنوں بار یہ کتاب شائع ہو چکی ہے ۔‘‘ اس کتاب کے انگریزی ، فرنچ ، سپینیش ، ہالینڈی ، نارویجین ، ڈچ ، ڈینیش ، پرتگالی ، انڈونیشیائی ، اطالوی ، ترکی اور چینی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں ، ایک ترجمہ ملیالم زبان میں بھی ہوا ہے ۔ نایاب حسن لکھتے ہیں ،’’ میں نے ۲۰۲۰ء کے وبائی دنوں میں اس کا مطالعہ کیا تھا اور اسی دوران یہ خیال آیا کہ اتنی شاندار کتاب ، جو اب تک دنیا بھر کی درجنوں زبانوں میں منتقل ہو چکی ہے ، کا اردو ترجمہ بھی ہونا چاہیے ؛ چنانچہ ۲۰۲۰ ء کے آواخر میں ہی ترجمہ شروع کر دیا تھا ،‘‘ جو ۲۰۲۳ ء میں مکمل ہوا ، اور اب کتابی صورت میں سامنے ہے ۔ کتاب کا مقدمہ ، جو ’ تقدیم ‘ کے عنوان سے اس ترجمے میں شامل ہے ، معروف فلسطینی ادیب و دانشور ایڈورڈ سعید کا لکھا ہوا ہے ۔ ایڈورڈ سعید کو ’ فلسطین واپسی ‘ میں ۴۵ سال لگے تھے ، اس لیے وہ مرید البرغوثی کے جذبات کو خوب سمجھتے تھے ، اسی لیے انھوں نے لکھا ’’ ایسے موقعے پر ایک فلسطینی کی جو جذباتی کیفیت ہو سکتی ہے ، اس سے میں اچھی طرح واقف ہوں ؛ کیوں کہ میں خود بھی اس تجربے سے گزر چکا ہوں ۔ ایسے موقعے پر خوشی ، افسوس ، غم ، وحشت ، غصہ اور ایسے ہی دوسرے احساسات سے دوچار ہونا فطری ہے ، جن سے میں بھی گزرا ، جن سے مرید البرغوثی بھی گزرے ہیں ۔‘‘ ایڈورڈ سعید کی اس کتاب کے تعارف میں لکھی ہوئی تین سطریں بڑی اہم ہیں ’’ اس کتاب کا بنیادی امتیاز یہ ہے کہ یہ گھر واپسی اور تجدیدِ ملاقات کے باوجود احساسِ محرومی کا اظہاریہ ہے اور برغوثی اس محرومی کے اسباب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور یہی چیز ان کی شاعری کو گہری معنویت و مواد اور ان کی نثر کو پختگی و توانائی عطا کرتی ہے ۔‘‘
کتاب میں البرغوثی کی ’ تمہید ‘ بھی شامل ہے ، جو اس کتاب کے لیے نہیں لکھی گئی تھی ، بلکہ یہ ان کے آخری دنوں کی ایک تحریر ہے ، ۲۰ اکتوبر ۲۰۲۰ء کی ، یہ ایک ویب سائٹ کے لیے خصوصی کالم کے طور پر لکھی گئی تھی اور چونکہ اس کالم کی ساخت بقول مترجم ’ میں نے رام اللہ دیکھا ‘ سے مربوط اور متعلق ہے ، اس لیے اسے ’ تمہید ‘ کے طور پر شامل کر لیا گیا ہے ۔ ’ تمہید ‘ میں جلاوطنی پر بات کی گئی ہے ، البرغوثی لکھتے ہیں ’’ نثر میں مَیں تصورِ مکان و وطن کے تئیں حسرت و اشتیاق اور بے وطنی سے زیادہ واضح زبان میں مربوط ہو سکا ، مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ اس کا براہِ راست اثر نہ ہو ۔ جب میں نے یہ کتاب لکھی ، تو مَیں اُن تیس سالوں کے بارے میں لکھ رہا تھا ، جن کے دوران میری آرزوئیں شکست و ریخت سے دوچار ہوئیں اور مَیں اپنے وطن لوٹنے سے محروم رہا ۔ مَیں نے اس کتاب کا نام ’ رأيت رام الله ‘ ( مَیں نے رام اللہ دیکھا ) رکھا ، عائد اِلی رام اللہ ( رام اللہ واپسی ) نہیں رکھا ؛ کیونکہ مسلسل ہجرتوں کے اندیشے کی وجہ سے میرے اندر کسی جگہ جم کر رہنے اور اس سے مستقل وابستہ ہونے کی جرأت نہیں رہی ۔‘‘
کتاب نو ابواب میں منقسم ہے ۔ پہلا باب ’ پُل ‘ کے عنوان سے ہے ، دریائے اردن پر بنا ہوا وہ پُل جو جلا وطنی اور وطن واپسی دونوں ہی صورتوں میں فلسطینیوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔ اِس پُل کا مرید البرغوثی کی زندگی میں ایک خاص کردار ہے ۔ تیس سال پہلے مرید البرغوثی اِسی پُل سے قاہرہ گیے تھے ، تعلیم حاصل کرنے اور تیس سال بعد جب ’ واپسی ‘ ہوئی تو اِ سی پُل سے ہوئی ! وہ لکھتے ہیں ’’ پُل پر گرمی شدید ہے ، میری پیشانی سے ٹپکنے والے پسینے کے قطرے چشمے کے فریم تک پہنچ رہے ہیں ۔ میری نگاہوں کے سامنے دھند سی چھاتی جا رہی ہے ، جو میرے سامنے کے مناظر ، میری امیدوں اور میری یادوں کو دھندلائے دے رہی ہے ۔ میرے اندر ایک عمر سے محوِ سفر انسان متحرک ہے ، جس کا اکثر حصہ یہاں تک پہنچنے کی کوشش میں گزرا … اب میں دریائے اردن عبور کر رہا ہوں ، اپنے قدموں کے نیچے لکڑی کی کھٹکھٹاہٹ سن رہا ہوں ، میرے بائیں کندھے پر ایک چھوٹا سا بیگ ہے ، میں معمول کے قدموں سے مغرب کی سمت رواں دواں ہوں ، میرے پیچھے ایک دنیا ہے اور میرے سامنے میری دنیا ہے ۔‘‘ یہ سامنے کی دنیا مصنف کا وطن ہے؛ لیکن چھ روزہ جنگ کے سبب مصنف کے بقول ’’ پیر کی دوپہر ، ۵ جون ۱۹۶۷ء کو میں بے وطن ہو گیا تھا ۔‘‘ اس باب میں پُل پر سے ’ جانے ‘ اور ’ آنے ‘ کی یادوں کے ساتھ ، بیتے دنوں کی اور اپنوں کی ، جن میں بڑا بھائی منیف سرِ فہرست ہے ، یادیں ہیں ، اور مشاہدات و تاثرات بھی، ’’ دریائے اردن ہمیشہ سے کم چوڑا تھا ، بچپن سے ہی ہمیں اس کے بارے میں معلوم تھا ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنے سالوں بعد یہ دریا تو موجود تھا ، مگر اس میں پانی تقریباً نہیں تھا ، قدرت کی ستم ظریفی اور اسرائیل نے مل کر اسے خشک کر دیا تھا ، پہلے اس کی موجوں کے اچھلنے کی آوازیں آتی تھیں ، اب یہ خاموش ہے ، ایسے جیسے سنسان سڑک پر کوئی گاڑی کھڑی ہو ۔‘‘ مشاہدات و تاثرات سے یہ کتاب بھری ہوئی ہے ، ’’ اور اب مَیں اپنی جلا وطنی سے ان کے وطن …. اپنے وطن ؟ مغربی کنارے اور غزہ ؟ مقبوضہ سرزمین ؟ خطہ ؟ یہودا اور سامرہ ؟ خود مختار حکومت ؟ اسرائیل ؟ فلسطین ؟ کی طرف بڑھ رہا ہوں ۔ کیا دنیا میں کوئی اور بھی ملک ہے ، جس کا نام آپ کو اتنا پریشان کر دے ؟ پچھلی بار میرا دل و دماغ صاف تھا اور چیزیں واضح تھیں ، اب مَیں بھی مذبذب اور مبہم ہوں اور ساری چیزیں بھی پردۂ ابہام و اغماض میں ہیں ۔ مگر یہودی ٹوپی والا یہ فوجی کسی ابہام کا شکار نہیں ہے ، کم از کم اس کی بندوق تو بہت چمک دار ہے ، اس کی بندوق میری ذاتی تاریخ ہے ، یہ میری جلا وطنی کی تاریخ ہے ، اس کی بندوق نے ہی ہم سے ہماری سرزمینِ شعر و ادب چھین لی اور ہمارے حصے میں بس اس سرزمین پر شاعری کرنا رہ گیا ، اس کی مٹھی میں مٹی ہے اور میرے ہاتھ میں سراب ہے ۔‘‘
’ یہ رام اللہ ہے ‘ کتاب کا دوسرا باب ہے ۔ مرید البرغوثی نے اس شہر کا جو نقشہ کھینچا ہے ، وہ دل نکال لیتا ہے ! ’ دیر غسانہ ‘ کتاب کا تیسرا باب ہے ، یہ وہ گاؤں ہے جہاں مرید البرغوثی پیدا ہوئے تھے ، کھیلے کودے اور پڑھائی کی تھی ، کتنی یادیں ہیں جو مصنف کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں ، اور ذہن میں دوڑتی ہیں ! ’ چوک ‘ ، ’ وقت کے حصار میں ‘ ، ’ عمو بابا ‘ ،’ نقلِ مکانی ‘ ، ’ تجدیدِ ملاقات ‘ اور ’ قیامت خیز شب و روز ‘ یہ اس کتاب کے بعد کے ابواب ہیں ، جن میں مرید البرغوثی اپنی یادیں یوں بکھیرتے ہیں کہ قاری تحریر کے سحر میں کھو جاتا ہے ، کہیں ہنستا ہے تو کہیں سسکتا ہے ۔ ملاحظہ کریں ، ’’ سب کچھ ختم ہو گیا ہے ، حقائق یکسر تبدیل ہو گئے ہیں ۔ طویل ( اسرائیلی ) تسلط کے دورانیے میں کئی نسلیں پیدا ہو چکیں ، جو اسرائیل کو اپنا ’ وطن ‘ جانتی ہیں ، جب کہ اسی عرصے میں کئی ایسی فلسطینی نسلیں جنمی ہیں ، جو خود فلسطین کے لیے ’ اجنبی ‘ ہیں ، جلا وطنی میں پیدا ہوئیں اور اپنے وطن کے بارے کہانیوں اور خبروں کے علاوہ کچھ نہیں جانتیں ، وہ نسلیں جو دور دراز کے ملکوں کی گلیوں ، شہروں اور قصبوں کا گہرا علم رکھتی ہیں ، لیکن خود اپنے ملک کا نہیں ، وہ نسلیں جنہوں نے اپنے ہی ملک میں کبھی پودے لگائے ، نہ تعمیر کی اور نہ ہی چھوٹی چھوٹی انسانی غلطیاں کیں ، جن نسلوں نے کبھی ہماری دادیوں اور نانیوں کو زیتون کے تیل سے کھانے کے لیے تندوروں کے سامنے بیٹھ کر روٹی پکاتے نہیں دیکھا ۔‘‘
اس کتاب میں بین گورین ، اسحاق رابین ، نتن یاہو اور شمعون پیریز کا ذکر ہے ، یاسرعرفات ، پی ایل او کا اور الفتح کا ذکر ہے اور حماس کا بھی ، کیمپ ڈیوڈ ، لبنان ، حزب اللہ ، معاہدۂ اوسلو اور فلسطین و لبنان میں کیے گیے قتلِ عام کا ذکر ہے ۔ فلسطینی تنظیموں کے کرتوتوں اور فلسطینیوں کے ذریعے فلسطینیوں کی ہی زمینیں ہڑپنے کا بھی ذکر ہے ، اور یہودی آبادکاروں کی بستیوں کا بھی ، وہ لکھتے ہیں ’’ ہم نے انہیں یہ ساری بستیاں کیسے بنانے دیں ، یہ قلعے ، یہ بیرکیں ، سال بہ سال کیسے بنتے گیے ؟ ‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ، ’’ اسرائیلی تسلط نے فلسطینی گاؤں کو اپنے حال پر رکھا اور ہمارے شہروں کو گاؤوں میں تبدیل کر دیا ۔ ہمارا ماتم گاؤں کی چکیوں کی تباہی کا ماتم نہیں ہے ؛ بلکہ شہر کے کتب خانوں اور لائبریریوں کے اجڑنے کا ماتم ہے ۔ ہم اپنے ماضی کو نہیں ؛ بلکہ اپنے مستقبل کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آنے والے کل کو پرسوں کی طرف ڈھکیلنا چاہتے ہیں ۔ مستقبل کے قدرتی راستوں پر فلسطین کی پیش قدمی کو جان بوجھ کر روکا گیا ، گویا اسرائیل پورے فلسطین کو اسرائیلی شہر کا ایک دیہی حصہ بنانا چاہتا ہے ، اس سے بھی بڑھ کر وہ ہر عربی شہر کو عبرانی ریاست کے دیہی علاقے میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔‘‘ اس کتاب میں المیہ کے ساتھ طربیہ بھی ہے ، کیونکہ مرید البرغوثی کا یہ ماننا تھا کہ المیہ اور طربیہ ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ! جیسا کہ ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے ، یہ کتاب مرید البرغوثی کے ’ احساسِ محرومی کا اظہاریہ ‘ ہے ، لیکن وہ ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ مَیں اس سرزمین پر دو مساوی حقوق کو تسلیم نہیں کرتا ؛ کیونکہ مَیں اس زمین پر اسرائیلی الوہی نظام کو قبول نہیں کرتا ۔ مجھے کبھی بھی اس نظریاتی بحث میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی کہ فلسطین پر کس کا حق ہے ؟ کیونکہ ہم نے فلسطین کو کسی معقول مباحثے کے نتیجے میں نہیں کھویا ، اسے ہم سے زبردستی چھینا گیا ہے ۔ جب ہم فلسطینی اپنے ملک میں تھے ، تو ہم یہودیوں سے نہ نفرت کرتے تھے ، نہ انہیں ناپسند کرتے تھے ، نہ ان سے ہمیں کوئی دشمنی تھی ۔ ان سے نفرت تو قرون وسطیٰ کا یورپ کرتا تھا ، ہم نے ان سے نفرت نہیں کی ، انہیں فرڈی ننڈ اور ازابیلا نے ناپسند کیا ، ہم نے نہیں ، ہٹلر نے ان سے نفرت کی ، ہم نے نہیں ، مگر پہلے تو انہوں نے ہمارے ملک میں پناہ لی اور پھر سارے ملک پر قابض ہو گئے اور ہمیں وہاں سے نکال دیا ، تو انہوں نے خود ہمیں اور اپنے آپ کو مساوات کے قانون سے باہر کر لیا ۔ اب وہ ہمارے دشمن بن گیے اور طاقت ور ہو گیے ، جبکہ ہم بے گھر اور کم زور ہو گئے ۔‘‘ بے گھری اور کم زوری کے باوجود انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے بیٹے تمیم کے ساتھ ، جس نے فلسطین نہیں دیکھا ہے ، لوٹیں گے ، ’’ میں اس کے ساتھ یہاں ( رام اللہ ) پھر آؤں گا ، وہ اس شہر کو دیکھے گا ، اس میں مجھے دیکھے گا اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے سے وہ سوالات کریں گے ، جو عرصے سے ہمارے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں ۔‘‘
یہ ایک لاجواب کتاب ہے ، اسے یادیں بھی کہہ سکتے ہیں ، خودنوشت بھی ، سفرنامہ بھی ، انشائیہ بھی ، شاعری بھی اور ناول بھی ؛ لیکن چاہے جو نام دیں اس کو، یہ سب حقیقت ہے ۔ نایاب حسن کا ترجمہ لاجواب ہے ، ان کا شکریہ کہ یہ کتاب ہم اردو والوں تک پہنچائی ۔ اسے ’ مرکزی پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ نے شائع کیا ہے ۔ کتاب 256 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 400 روپیہ ہے ۔ اسے موبائل 9560188574 / 7011079777 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

You may also like