Home ادبیاتکہانی میں امین ہوں -رئیس صِدّیقی

میں امین ہوں -رئیس صِدّیقی

by قندیل

میں امین ہوں -رئیس صِدّیقی

ؑEmail: rais.siddiqui.ibs @ gmail.com
ایک دن کی بات ہے کہ گاؤں کے کچھ بچّے روزانہ کی طرح ایک ہرے بھرے سبزہ زار میں بکریاں چرا رہے تھے کہ اچانک وہاں کچھ ڈاکو آگئے۔
ان کی وحشت ناک آنکھیں، خوفناک شکلیں اور چمکتی ہوئی تلواریں دیکھکر،بچّے مارے ڈر کے کپکپانے لگے اور بدحواسی کے عالم میں سر پٹ اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگے۔
لیکن اُن میں سے ایک بچہ ایسا بھی تھا جس کے چہرے پر ذرّہ برابر بھی خوف یا ڈر کے آثار نہ تھے۔ وہ اطمینان سے بکریاں چراتا رہا۔ یہاں تک کہ ڈاکو آگئے۔
جب اُن لٹیروں نے بکریاں یکجا کرکے لے جانا چاہا تو وہ آگے بڑھ کر ڈاکوؤں سے نظریں ملاتے ہوئے بڑی سنجیدگی اور متانت سے بولا۔
”تم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بکریاں میری نہیں ہیں۔ ان کو مجھے گاؤں والوں نے چَرانے کے لئے میرے سپرد کیا ہے۔ یہ ان کی امانت ہیں اورمیں ان سب کا امین ہوں۔میں ان سب کا امانت دار ہوں۔ اگر تم لوگ ان کو لے جانا چاہتے ہو، تو پہلے ان کے مالکوں سے اجازت لے لو، پھِر لے جانا۔تم لوگ کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتے!“
سبھی ڈاکوبچّے کی اس بات پر بے اختیار ہنس پڑے اور یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ نے لگے کہ
”یہ کس قدر بھولا بچّہ ہے۔ بھلا کوئی شخص چوری اور ڈکیتی کرنے کی اجازت دے گا۔ شاید یہ معصوم نہیں جانتا کہ ہم لوگ کون ہیں اور ہمارا کام کیا ہے!“
جب بچے نے دیکھا کہ وہ لوگ میری بات سُنی اَن سُنی کر کے بکریاں لے جارہے ہیں تو وہ تیرکی طرح ان کی طرف جھپٹا اور ان کے سامنے راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔
یہ دیکھ کر، ڈاکوؤں میں سے ایک بے حد غضب ناک ہوکر بولا:
”تو ہٹتا ہے یا میں خود تجھ کو ہٹادوں۔“
”نہیں، میں اپنے راستے سے کبھی نہیں ہٹوں گا۔ خواہ تم لوگ میرے ساتھ کتنا ہی برا سلوک کرو مگر میں اپنے جیتے جی، ان بکریوں کو نہیں لے جانے دوں گا۔“
اس معصوم لیکن دلیر بچے نے فیصلہ کن انداز میں اپناعزم ظاہر کیا۔
اس کی جرأت اور شجاعت سے سبھی ڈاکو بے حد متاثر ہوئے اور وہ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ اتنا سا بچّہ اِس قدر دلیر اور بہادر!
ڈاکوؤں کا سردار اس بچے کی طرف بڑھا اور اسے گود میں اٹھا کر شفقت سے پوچھا:
”بیٹا ‘ تم کس کے فرزند ہو؟“
”میں عبدالمطلب کا پوتا ہوں۔“
اس بچے نے اپنے دادا کا نام بتایا۔
سارے عرب میں ایک بھی شخص ایسا نہ تھا جو حضرت عبدالمطلب کے نام سے واقف نہ ہو!
سردار آپ کا نام سنتے ہی بے اختیار کہہ اُٹھا:
”بیشک! سردارِ قریش کے پوتے کو ایسا ہی دلیر اور بہادر ہونا چاہیے!!۔
میرے عزیز! میں تمھاری ہمت اور جرأت کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ تمھاری پیشانی کا نور کہہ رہا
ہے کہ جب تم بڑے ہوگے، تو نہ صرف بنو ہاشم بلکہ سارا عرب تمھاری ذات پر فخر کرے گا!!!
میرے عزیز! میں یہ تمام بکریاں صرف تمھاری وجہ سے چھوڑ رہاہوں مگر تم نے اپنا نام نہیں بتایا۔ کیا نام ہے تمھارا؟“
اس معصوم، پُر نور، دلیر اور بہادر بچے نے اپنی نر م اور راحت بخش آواز میں، بڑے اعتماد سے کہا۔
” محمدّ“

You may also like

Leave a Comment