لکھنؤ : کہانی کہی اور ان کہی کے درمیان کی چیز ہوتی ہے ۔آج کا مصنف سب کچھ نہیں کہتا بلکہ قاری کے لیے بھی کچھ چھوڑ دیتا ہے۔ آج پڑھی گئیں دونوں کہانیاں ماضی اور حال سےگہرا رشتہ رکھتی ہیں ۔دونوں کہانیوں میں حال کے مسائل اور ان سے مقابلہ کرتے کردار پیش کیے گئے ہیں۔ ہندی کہانی میں جذئیات نگاری اور تفصیلی بیان ملتا ہے جبکہ اردو کہانی میں اشاروں کنایوں میں بات ہوتی ہے ۔ ان خیالات کا اظہارمعروف ناقد اور افسانہ نگار پروفیسر اسلم جمشیدپوری نے 20 جون کو لکھنؤ میں منعقدہ افسانہ خوانی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عوامی کلچرل فورم اور بھارتیہ جن ناٹیہ سنگھ (اِپٹا) کی جانب سے ہندی کے کہانی نویس راجہ سنگھ اور اردو کے افسانہ نگار راجیو پرکاش ساحر کی کہانی سنانے کا اہتمام اِپٹا کے دفتر، واقع قیصر باغ، لکھنؤ کے احاطے میں کیا گیاتھا۔ تقریب کے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرتے ہوئے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ، میرٹھ کے شعبۂ اردو کے سربراہ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے اپنی گفتگو میں آگے کہا کہ ہندی اور اردو ترقی پسند تحریک کے دوران قریب آئے تھے۔ دونوں زبانوں میں اتحاد تھا۔ پریم چند اس کے مرکز میں تھے۔آج کے سیاسی حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں زبانوں کے لوگوں میں اتحادکے عمل کو آگے بڑھایا جائے ، دونوں آپس میں ملیں اور بات چیت کریں۔ اس سمت میں لکھنؤ میں اردو اور ہندی کہانی کاروں کے افسانہ سنانے کا یہ اہتمام ایک اچھی شروعات ہے۔ پروگرام کی صدارت ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ زندگی کی کہانیاں ہیں۔ راجہ سنگھ کی کہانی سوچ پر مبنی ہے۔ زندگی میں جو تبدیلی آئی ہے اسے سامنے لایا ہے۔راجیو پرکاش ساحر کی کہانی خواتین کی زندگی کے حالات کے خلاف مزاحمت کی خوبصورتی کو سامنے لاتی ہے۔ ہندی اور اردو کہانی سنانے کا اہتمام دلوں کو جوڑنے کے لیے ہے۔ ہندیـ- اردو کو قریب لانے کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ایسی تقریبات کا انعقاد باقاعدگی سے ہونا چاہیے۔ پروگرام کی نظامت عوامی کلچرل فورم ، لکھنؤ کے سکریٹری اور نوجوان افسانہ نگار فرزانہ مہدی نے کی۔
اس موقع پر اردو کے افسانہ نگار راجیو پرکاش ساحر نےاپنی کہانی ”مردانی“ سنائی۔ اس کا آغاز مجاز کی اس نظم سے ہوتا ہے جس میں وہ آنچل کو جھنڈا بنانے کی بات کرتا ہے۔کہانی دو خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ یہ” نصیبن“ اور اس کی سہیلی ” سرلا“ ہیں۔ دونوں کے شوہر شرابی، جواری اور نالائق ہیں۔ سرلا بھی اپنے شوہر کے جبر کا شکار ہے۔ گھر چلانے اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دونوں ای رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔ لکھنؤ کی سڑکوں پر دوڑتا اس کاای رکشہ ان لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے جو خواتین کو پدرانہ نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔لیکن وہ دونوں مل کر ایسے شہدوں کو سبق سکھاتی ہیں۔
دوسری کہانی راجہ سنگھ کی” لال کا پَتَن “ تھی۔یہ کہانی ان چار نوجوانوں کی ہے جن کی سماجی بنیاد” لوئر مڈل کلاس“ ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار” وسو“ ہے جو 12 سال بیرون ملک میں رہنے کے بعد اپنے گھر لوٹتا ہے۔ ماضی کے واقعات اس کی آنکھوںکے سامنے گھومتے ہیں۔ ان دنوں معاشرے میں تبدیلی اور سرخ انقلاب کی خواہش سبھی کے اندر تھی۔ تمام ساتھی کامریڈ موہن سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ سبھی ساتھی ایک متبع پیرو کار کی طرح اس کے حکم پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ وسو نے ایک کارروائی کا واقعہ یاد کیا جس میں چاروں ساتھی رات کو پوسٹر چسپاں کرنے نکلتے ہیں۔ پولیس کے ساتھ انکاؤنٹر ہوااور وسو بھی زخمی ہو گیا تھا۔ کہانی ماضی سے حال کی طرف لوٹتی ہے۔وسو کو اپنے ساتھیوں کے حال کا پتہ چلتا ہے۔ اسے معلوم ہوا کہ اس کی زندگی اور سوچ بالکل بدل چکی ہے۔ انقلاب کی منزل ختم ہو چکی ہے۔ تمام ساتھی نظام بدلنے کے بجائے اس نظام کے خادم بن کررہ گئے ہیں۔
بعد ازاں دونوں کہانیوں پر ایک سنجیدہ بحث کا آغاز ہوا جس کی شروعات عوامی کلچرل فورم اتر پردیش کے ایگزیکٹو صدر کوشل کشور نے کی۔دوردرشن لکھنؤ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اور شاعرو ادیب ڈاکٹر شیلیش پنڈت نے کہا کہ اردو افسانوں کی بنیادی خوبی ان کا کہانی پَن ہے۔ ہندی والوں کے یہاں اس کہانی پن کو برقرار رکھنے کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن یہاں پڑھی گئی دونوں کہانیوں میں یہ عنصر موجود تھا۔ تقریب میں ڈاکٹر احتشام خان (ڈائریکٹر امریکن انسٹی ٹیوٹ لکھنؤ)، ڈاکٹر مسیح الدین (مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی)، پروفیسر تقی (شیعہ پی جی کالج)، ڈاکٹر ارشاد سیانوی (میرٹھ یونیورسٹی)،اِپٹاکے قومی کارگزار صدر راکیش سنگھ، شاعر بھگوان سوروپ کٹیار، انڈیا انسائیڈر کے ایڈیٹر ارون سنگھ، شاعرہ ومل کشور اور کلپنا پانڈے، شاہد حبیب فلاحی، راکیش کمار سینی، آر کے سنہا وغیرہ نے اپنے خیالات رکھے۔
اس موقع پر ہونے والی بحث میں یہ بات سامنے آئی کہ راجیو پرکاش ساحر کی کہانی میں معصوم خواہش ہے۔ یہ ایک جیسے مسائل کا سامنا کرنے والوں کے درمیان اتحاد کو ظاہر کرتا ہے۔یہ کہانی موجودہ دور میں خواتین کے بڑھتے ہوئے اور بدلتے ہوئے کردار، آزادانہ پہل اور پدرانہ ذہنیت کے خلاف مزاحمت کو سامنے لاتی ہے۔ خیال یہ بھی آیا کہ ’مردانی‘ کے بجائے ’پرچم بنتا آنچل‘ یا اس سے ملتا جلتا عنوان رکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔ جبکہ راجہ سنگھ کی کہانی پرشرکائے کی رائے بٹی ہوئی تھی۔ ایک رائے کے مطابق یہ لال کے زوال کی کہانی نہیں ہے بلکہ پیٹی بورژوا انقلاب کے زوال کی کہانی ہے۔ کہانی کا ٹریٹمنٹ تکنیکی ہے۔ مقررین میں سے ایک نے اسے سِرِنجے کی ”کامریڈ کا کوٹ“ کا سیکوئل سمجھا تو ایک مقرر نے کہا کہ اس کہانی میں نوجوانی کے ایام کے انقلابی ذہن کی روح ابھرکر آئی ہےلیکن حقیقی زندگی میں داخل ہونے کے بعد ایسی سوچ باقی نہیں رہ پاتی۔ اس کہانی سے واضح ہوتا ہے کہ آج کے دور میں انقلابی ذہن کی مسلسل آبیاری آسان نہیں ہے۔ اس موقع پر پردیپ گھوش، دھرمیندر، کلیم خان، آدی یوگ، پلوی مشرا، اشوک سریواستو، شہزاد رضوی وغیرہ موجود تھے۔ اِپٹا کے رضوان علی نےرسمِ شکریہ ادا کیا۔