Home تجزیہ اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کے نام پر مہاراشٹر میں کشیدگی کیوں ؟- شکیل رشید

اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کے نام پر مہاراشٹر میں کشیدگی کیوں ؟- شکیل رشید

by قندیل

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
کیا مغل فرمانروا اورنگ زیب عالمگیر اور مجاہدِ آزادی ٹیپو سلطان کے نام پر مہاراشٹر کو جلانے کی تیاری کی جا رہی ہے ؟
یوں تو مہاراشٹر میں مہاوکاس اگھاڑی کی سرکار کے گرنے کے بعد ، اور ایکناتھ شندے و دیویندر فڈنویس کی سرکار بننے کے بعد ہی سے فرقہ وارانہ واقعات کی شروعات ہو گئی تھی ، لیکن گزشتہ چار مہینے سے ’ فرقہ وارانہ اُبال ‘ میں مزید تیزی آئی ہے ، شرپسند کبھی مندر ، تو کبھی مسجد ، لاؤڈاسپیکر ، لوجہاد ، لینڈ جہاد ، تبدیلیٔ مذہب تو کبھی سوشل میڈیا کی پوسٹوں کے بہانے تشدد کے بہانے ڈھونڈتے رہے ہیں ، مگر اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ سِول سوسائٹی اور پولیس نے اب تک کسی نہ کسی طرح حالات کو قابو میں رکھا ہے ، لیکن اب ’ اُبال ‘ قابو سے باہر ہو رہا ہے ، اور اندیشہ ہے کہ ، فرقہ وارانہ تناؤ کے یہ چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے پیمانے کے فسادات میں نہ تبدیل ہو جائیں ۔ ابھی ابھی ، یہی تین سے چار روز کے اندر ، کولہا پور اور بیڑ میں آشٹی کا علاقہ فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں آئے ہیں ، ان مقامات پر تناؤ بنا ہوا ہے اور پولیس حساس مقامات پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے ۔ مارچ سے لے کر جون کے رواں مہینے تک اورنگ آباد ، اکولہ ، شیوگاؤں ، احمدنگر ، جلگاؤں ، سنگمنیر ، ممبئی ، کولہاپور ، بیڑ اور ناسک کے علاقے بارہ دفعہ فرقہ وارانہ تشدد سے سلگے ہیں ، جان و مال کا نقصان ہوا ہے ، لوگ زخمی ہوئے ہیں ، اورایک خوف کا ماحول ہر جگہ بنا ہوا ہے ۔ سالِ رواں کے مارچ مہینے کی ۲۴ ، تاریخ کو کولہاپور سے ، جہاں پہلے ہی سے ایک ہندو لڑکی کے ایک مسلم نوجوان کے ساتھ بھاگ جانے کی واردات سے تناؤ پھیلا ہوا تھا ، اورنگ زیب عالمگیر کے نام سے فرقہ وارانہ کشیدگی کی شروعات ہوئی تھی ۔ دو مسلم نوجوانوں ، ۱۹ سالہ محمد مومن اور ۲۳ سالہ فیضان سوداگر ، نے اپنے ’ واٹس ایپ ‘ پر اورنگ زیب کی تعریف میں چند جملے لکھے تھے ، اور شہر اورنگ آباد کے نام کو تبدیل کرکے سمبھا جی نگر کرنے پر اعتراض جتایا تھا ، نتیجتاً کٹر وادی ہندو تنظیموں میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے دودن کے بند کا اعلان کر دیا ۔ جن مسلم نوجوانوں نے ’ واٹس ایپ ‘ پر اورنگ زیب کی تعریف کی تھی ، پولیس نے اُن میں سے ایک محمد مومن کو حراست میں لے لیا ، فیضان روپوش ہوگیا ، اور سَاودرے نامی گاؤں میں ، جہاں مومن اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتا تھا ، کشیدگی کو دیکھتے ہوئے ، پورے گھرانے کو چند دنوں کے لیے گھر چھوڑ کر کہیں اور بھیج دیا گیا ۔ اب مومن پولیس حراست سے چھوٹ کر گھر آچکا ہے اور فیضان کو ضمانت مل گئی ہے نیز گاؤں چھوڑ کر جانے والا گھرانہ بھی گاؤں واپس لوٹ آیا ہے ، لیکن اس واقعے کے بعد سے کولہا پور میں تناؤ بنا ہوا تھا جو پھر ۸ ، جون کو پھوٹ پڑا ۔ اب فرقہ وارانہ کشیدگی پوری ریاست میں آہستہ آہستہ پھیل گئی ہے ، اور جگہ جگہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات شروع ہوگئے ہیں ۔
کولہاپور کے مذکورہ واقعہ کے چار دن بعد ۳۰ مارچ کو ، جلگاؤں میں ایک مسجد کے سامنے ڈی جے بجانے پر تو تو میں میں جھڑپ میں بدل گئی ۔ ۳۱ ، مارچ کو ، رام نومی کے دِن عروس البلاد ممبئی میں مالونی ، ملاڈ کے علاقہ میں رام نومی کا جلوس نکالا گیا ، اور مسجد کے سامنے جلوس کو روک کر شرپسندی کی گئی ۔ پولیس نے مقدمات درج کیے ، لیکن پولیس پر یکطرفہ کارروائی کا الزام ہے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ ’ ہندو سکّل سماج ‘ کے جھنڈے تلے ریاست بھر میں نکلنے والے ’ ہندو جن آکروش مورچہ ‘ کی ریلیوں میں مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی تھیں ، لوجہاد اور لینڈ جہاد کے نام پر نفرت پھیلائی جا رہی تھی ۔ ان ریلیوں نے ہر جگہ جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ ممبئی میں بھی یہ ریلیاں نکلی تھیں ، اور ان کے ذریعے جو زہر پھیلایا گیا تھا ، مالونی ، ملاڈ میں اس کا اثر دیکھنے کو ملا ۔ رام نومی کے موقعہ پر اورنگ آباد اور دیگر مقامات پر بھی تشدد کے واقعات ہوئے ۔ اورنگ آباد کے کردپورہ کے علاقہ میں دس افراد زخمی ہوئے ، الزام ہے کہ شرپسندوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ پاٹ کی ، حالانکہ پولیس نے اس کی تردید کی ہے ، لیکن یہ الزام ہنوز لگ رہا ہے ۔ اکولہ میں ۱۳، مئی کو فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا ، معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کا تھا ۔ کرن ساہو نامی ایک کٹّروادی نے کشیدگی کو ہوا دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ، یہ شخص ’ چھتر پتی ساہو سینا ‘ نام کی ایک تنظیم کا سربراہ ہے ۔ اکولہ میں تشدد کے دوران ولاس گائیکواڑ نام کا ایک دلت نوجوان مارا گیا ، یہ اپنے گھر کا واحد کمانے والا تھا ۔ ایک دن بعد ۱۴ ، مئی کو احمدنگر میں چھترپتی سمبھا جی مہاراج جینتی کے موقعہ پر کشیدگی پھیلی ، وہاں کے شیوگاؤں کے علاقہ میں جھڑپیں ہوئیں اور لوگوں کو مالی نقصانات اٹھانا پڑے ، اسی روز ناسک میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد کی واردات ہوئی ۔ ترمباکیشور کا ایک مندر ہے ، یہ شور اٹھا کہ اس مندر میں بڑی تعداد میں مسلمان زبردستی گھس رہے ہیں ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ایک قدیم ریت ہے ۔ ایک بار پھر ۴ ، جون کو ، احمدنگر اس وقت لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا جب یہ خبر اڑی کہ دم باڑہ ہزاری بابا درگاہ کے عرس میں لوگ اورنگ زیب کے پوسٹر لیے ہوئے ہیں ۔ دو کی گرفتاری عمل میں آئی ۔ لیکن احمدنگر میں حالات کشیدہ ہی رہے ، دو دن بعد ۶ ،جون کو ’ سکّل ہندو سماج ‘ کا ایک مورچہ احمدنگر کے سنگمنیر میں نکالا گیا اور جم کر توڑ پھوڑ کی گئی ۔ یہ مورچہ دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے درمیان ٹریفک معاملہ میں ہوئی تکرار کے خلاف نکالا گیا تھا ۔ جون کی ۷ تاریخ کو کولہا پور میں اورنگ زیب عالمگیر اور شہید ٹیپو سلطان کی واٹس ایپ پر تعریف کرنے کے نتیجہ میں تشدد ہوا ، دوکانیں لوٹ لی گئیں ، اور ان نوجوانوں کو ، جن پر اورنگ زیب عالمگیر اور ٹیپو سلطان کی تعریف کرنے کا الزام تھا مارا پیٹا گیا ، پولیس نے دونوں طرف کے لوگوں پر مقدمات قائم کر دیے ، اور ۳۶ لوگوں کو گرفتار کر لیا ۔ اورنگ زیب کے مبینہ پوسٹر لے کر چلنے کا ایک معاملہ ۸ ، جون کو احمدنگر میں پیش آیا ، اور ۹ ، جون کو آشٹی میں ایک ۱۴ سالہ نوجوان نے سوشل میڈیا پر اورنگ زیب کی تعریف کر دی تو اس پر ہنگامہ ہوگیا ۔
سوال یہ ہے کہ یہ اچانک کیوں اورنگ زیب کے نام پر فرقہ وارانہ ہنگامے شروع ہو گئے ہیں ؟ اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ ہنگامے کولہاپور اور احمدنگر کو مرکز بنا کر کیوں کیے جا رہے ہیں ؟ اِن سوالوں کے سیدھے سے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سارے ہنگامے ، کشیدگی اور فرقہ وارانہ تشدد گندی سیاست کا حصہ ہیں ۔ جب سے ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس کی سرکار کا قیام ہوا ہے مہاراشٹر سلگ رہا ہے ۔ دو واقعات نے بھس میں چنگاری کا کام کیا ہے ، ایک تو ہے اورنگ آباد کا نام بدل کر سمبھاجی نگر رکھنا ، اور عثمان آباد کا نام بدل کر دھار شیو رکھنا ۔ ویسے ناموں کی تبدیلی ، ادھو ٹھاکرے کی سرکا ر نے جاتے جاتے کی تھی ، لیکن ادھو سرکار کے فیصلے کو روک کر اِس سرکار نے خود ناموں کی تبدیلی کا اعلان کیا ، مقصد ناموں کی تبدیلی کا سہرا اپنے سر باندھنا تھا ۔ ناموں کی تبدیلی کے خلاف مسلمانوں نے تحریک چھڑ رکھی ہے ، معاملہ عدالت تک گیا ہے ، اور فی الحال اورنگ آباد نام استعمال کرنے کی آزادی ہے ۔ ناموں کی تبدیلی کے اعلان کے بعد سے اورنگ زیب کے نام پر فرقہ پرستی کی سیاست شروع ہوئی ہے ۔ چونکہ چھترپتی شیواجی مہاراج اور شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے درمیان ایک لڑائی تھی ، سیاسی لڑائی ، اس لیے اِن دونوں کو ایک دوسرے کا حریف مانا جاتا ہے ، یہاں تک تو ٹھیک ہے ، لیکن ان دونوں کی لڑائی کو ’ دھرم یدھ ‘ بنا کر سارے معاملے کو مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے ، اس لیے یہاں مہاراشٹر میں ، ایک طبقہ اورنگ زیب کو شیواجی کا حریف ہی نہیں ، دھرم مخالف بھی گردانتا ہے ، اور وہ اورنگ زیب کو تاریخ سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کانگریس اور این سی پی سے لے کر بی جے پی اور شیو سینا کے دونوں گروپوں تک ، شیواجی کو نظرانداز کرنے کی جرات نہیں کرسکتی ، اس لیے شیواجی کے نام پر ہر کوئی اپنے اپنے لحاظ سے سیاست کرتا ہے ۔ اب بی جے پی اور شندے کی شیو سینا کی یہ کوشش ہے کہ وہ خود کو ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کے مقابلے زیادہ بڑا شیواجی بھکت ثابت کریں ۔ اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھائیں ۔ مہاوکاس اگھاڑی ، یعنی ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا ، کانگریس اور این سی پی کا الزام ہے کہ شندے اور فڈنویس کی حکومت اورنگ زیب کے نام پر ریاست میں فرقہ وارانہ ماحول خراب کر رہی ہے ۔ شیو سینا کے لیڈر سنجے راؤت نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ کرناٹک میں بجرنگ بلی کا جادو نہیں چلا تو بی جے پی نے اورنگ زیب پر سیاست شروع کر دی ہے ۔ اور جس طرح سے حالات کشیدہ ہو رہے ہیں اُس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اورنگ زیب کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے ۔ ریاست کے وزیرداخلہ فڈنویس نے مذکورہ واقعات پر جو بیان دیا ہے ، اس سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ اورنگ زیب کے نام پر اسمبلی الیکشن میں اترنے کا مَن بنا چکے ہیں ۔ فڈنویس نے ’’ اورنگ زیب کی اولاد ‘‘ کہہ کر یہ وضح کر دیا ہے کہ وہ شرہسندوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ ’’ اچانک یہاں اورنگ زیب کی اولادیں پیدا ہو گئی ہیں ، وہ اورنگ زیب کا اسٹیٹس لگاتی اور پوسٹر دکھاتی ہیں ۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ اورنگ زیب کی اولادیں کہاں سے آتی ہیں ؟ کون ہے پیچھے ؟ ہم اس کا پتہ لگا لیں گے ۔‘‘ فڈنویس نے یہ بھی کہا ’’ مہاراشٹر میں اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کی تعریف برداشت نہیں کی جائے گی ۔‘‘
فڈنویس ’ ہندتو ‘ کا خطرناک کارڈ کھیل رہے ہیں ۔ اس کارڈ نے پوری ریاست کو کشیدہ کر دیا ہے ۔ لیکن شاید فڈنویس کے پاس یہی ایک کارڈ بچا ہے کہ ان کا اور ایکناتھ شندے کا اتحاد اس ریاست کے عوام کی اکثریت نے ٹھکرا دیا ہے ، اور انہیں کئی بلدیاتی انتخابات میں اور ضمنی انتخابات میں ہار کا منھ دیکھنا پڑا ہے ۔ ٓاحمد نگر سے شیواجی کے خاندان کا تعلق ہے ، اس لیے وہاں کے حالات خراب کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے ۔ کولہا پور کے لوگوں نے کبھی بھی بی جے پی کو گھاس نہیں ڈالی اس لیے کوشش ہے کہ وہاں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلے ۔ کولہاپور کی دس اسمبلی کی سیٹوں میں سے ایک پر بھی بی جے پی نہیں جیت سکی ہے ، ۲۰۲۲ء کے ضمنی الیکشن میں بھی بی جے پی کو ہار ملی ہے ، وہاں چھترپتی شاہو مہاراج کا گھرانہ ہے جو ہندو ۔ مسلم اتحاد کا علمبردار ہے ، اسی لیے شرپسندوں نے کولہاپور کو اہنی تجربہ گاہ بنایا ہے ۔ یہ سارا ہنگامہ سیاسی ہے ، لیکن کیا سیاست کے نام پر لوگوں کی جان و مال سے کھیلنا جائز ہے ؟ اس سوال کا جواب ہم سیاست دانوں کے روزانہ کے ’ کارناموں ‘ سے پا لیتے ہیں ۔ ایک سوال مزید ہے ، بھلا کوئی کیوں چھوڑ دے اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کا نام لینا ؟ فڈنویس ، بھاجپائی اور سنگھی تو مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کے نام کی مالا جپتے ہیں !

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like