محرم کے معنی معظم، محترم اور معزز کے ہیں۔ یہ مہینہ ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں ’’اشہرِ حرم‘‘ یعنی محترم مہینے کہا جاتا ہے، جن کی عظمت وفضیلت کتاب وسنت میں آئی ہے اور جن میں اعمالِ صالحہ کا اجر وثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ مہینہ ایسی بزرگی والا ہے جس کا ادب واحترام اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں اہلِ کتاب اور کفارِمکہ بھی کیا کرتے تھے۔
اللہ تبارک و تعالی نے سال کے بارہ مہینے بنائے، لیکن ان میں چار مہینے وہ ہیں جن کی حرمت وعظمت کو اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے وقت ہی لکھ دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَھرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۔ ( التوبہ:36)
’’بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے، جو اللہ کے فیصلہ کے مطابق اسی دن سے ہے، جس دن کہ اس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا فرمایا ، ان میں سے چار مہینے خاص ادب اور حرمت کے ہیں ۔‘‘
پھر ان چار مہینوں میں بھی بعض علمائے سلف نے محرم الحرام کو افضل لکھا ہے، چنانچہ حافظ ابن رجب حنبلی ؒ فرماتے ہیں:
’’وقداختلف العلماء في أي الأشھرالحرم أفضل؟ فقال الحسن البصريؒ: أفضلھا شھر اللہ المحرم، ورجَّحہٗ طائفۃ من المتاخرین۔‘‘ (1)’’ علماء کرام نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ اشہرِحرم میں کونسا مہینہ افضل ہے؟ حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا: ان میں افضل مہینہ اللہ کا مہینہ محرم ہے ،اور متاخرین میں سے ایک جماعت نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔‘‘
حرمت والے مہینوں کی فضیلت قرآن کی روشنی میں
حرمت والے مہینوں کی فضیلت قرآن کریم کی کئی آیتوں میں بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ فرمان الہی ہے:
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَھرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۔ ( التوبہ:36)
’’ بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے، جو اللہ کے فیصلہ کے مطابق اسی دن سے ہے، جس دن کہ اس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا فرمایا ، ان میں سے چار مہینے خاص ادب اور حرمت کے ہیں ۔‘‘
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ( البقرۃ: 194)
حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینہ کے بدلہ ہے اور ادب و حرمت کا پاس رکھنے میں بھی برابری ہے۔ تو جو تم پر (حرام مہینہ میں ) زیادتی کرے، اس کی زیادتی کے مطابق تم بھی بدلہ لو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ بے شک اللہ تقوی اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِؕ-قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌؕ۔ ( البقرۃ: 217)-
لوگ آپ سے حرام مہینوں میں جہاد کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ، آپ کہہ دیں کہ اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىٕدَ وَ لَاۤ مِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًاؕ- (المائدۃ : 2)
اے ایمان والو! اللہ کے شعائر کی، حرام مہینہ کی ، مکہ لے جانے والے قربانی کے جانور کی، گلے میں پٹے ڈالے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور بیت حرام کے ارادہ سے جانے والوں کی جو اپنے پروردگار کے فضل اور خوشنودی کے خواستگار ہیں، بے حرمتی نہ کرو۔
محرم الحرام کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
عن ابي هريرۃ قال: جاء رجل الى النبي ﷺ وقال أي الصيام افضل بعد شهر رمضان؟ قال: شهر الله الذي تدعونه المحرم (2)
حضرت ابو ہریرہ نے بیان فرمایا کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ رمضان کے بعد کون سے مہینے کے روزے افضل ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالی کا وہ مہینہ جسے تم محرم کہتے ہو۔
اس ماہ میں کرنے کے کام
اس ماہ میں ہمیں مندرجہ ذیل امور انجام دینا چاہیے:
1. محرم کے مہینہ میں کثرت سے روزے رکھنے کا اہتمام کرنا ۔
2. خاص طور پر یوم عاشوراء کا روزہ اور اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا رکھنا۔
3. گھر والوں پر خرچ میں توسُّع کرنا۔
4. فرائض کا اہتمام اورنفلی عبادات بکثرت کرنا۔
5. گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا۔
6. اتباعِ سنت کا التزام کرنا۔
محر م الحرام میں روزوں کی فضیلت
ماہِ محرم الحرام کو دیگر مہینوں پر بڑی فضیلت حاصل ہے اور اس میں نفلی روزوں کی بڑی اہمیت ہے، ماہِ محرم الحرام میں مطلقاً کسی بھی دن روزہ رکھنا رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ شمار ہوتا ہے، نیزنو اور دس محرم یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھنا اور بھی زیادہ فضیلت کی چیز ہے، کیونکہ اس مہینہ کو اللہ سے نسبت حاصل ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے:
أفضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم۔(3)
اس لئے اس مہینے میں کثرت سے روزوں کا اہتمام کرنا چاہئے۔
یوم عاشوراء کے روزے کی فضیلت
عن ابن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينه فوجد اليهود صياما يوم عاشوراء، فقال لهم رسول الله ﷺ ما هذا اليوم الذي تصومونه؟ فقالوا: هذا يوم عظيم أنجی الله فيه موسى وقومه وغرق فرعون وقومه، فصامه موسى شكرا، فنحن نصومه۔ فقال رسول الله: ونحن أحق وأولى بموسى منكم۔ فصامه رسول الله وأمر بصيامه (4)
حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا یہ کون سا خاص دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالی نے اس میں موسی اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جبکہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا، لہذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری نسبت ہم موسی کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن رسول اللہ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
ابن عباس کی ایک دوسری روایت ہے:
وفي روايۃ عن ابن عباس يقول حين صام رسول الله يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا يا رسول الله : انه يوم تعظمه اليهود والنصارى فقال رسول الله: فاذا كان العام المقبل ان شاء الله صمنا اليوم التاسع۔ قال فلم يأت العام المقبل حتى توفي رسول الله (5)
ترجمہ:جب حضرت رسول اللہ نے عاشورا کے دن خود روزہ رکھا اورحضرات صحابہ کوروزہ رکھنے کاحکم فرمایا، تواِس پرحضرات صحابہ کرام نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول ! اس دن کی تویہود ونصاریٰ بھی تعظیم کرتے ہیں؟ (غالباً یہ عرض کرنا مقصود ہو گا کہ روزہ رکھ کر تو ہم نے بھی اس دن کی تعظیم کی ، گویا ہم ایک عمل میں ان کی مشابہت اختیار کرنے لگے ) تواِس پرآ پ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ نے چاہا تو اگلے سال ہم نویں تاریخ کوبھی روزہ رکھیں گے‘‘۔ (اس طرح سے مشابہت کاشبہ باقی نہیں رہے گا)حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی آپ کا وصال ہوگیا ۔
اسی وجہ سے فقہاء کرامؒ فرماتے ہیں : صرف عاشورا کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ 9 یا 11 محرم کاروزہ بھی ملا لیا جائے، تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت سے بچ سکیں۔ اس نبوی تعلیم سے یہ بات سمجھ لینا چنداں مشکل نہیں کہ کسی کارِخیر میں بھی یہود سے مشابہت یا موافقت کو رسول اللہ ﷺ نے نا پسند فرمایا؛ چہ جائیکہ دوسری عادات یا معاملات میں ان سے مشابہت اختیار کیا جائے !
صحیح مسلم کی ہی ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش بھی زمانہ جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھتے تھے:
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: کانت قریش تصوم عاشوراء فی الجاہلیۃ، وکان رسول اللہ یصومہ ، فلما ھاجر إلی المدینۃ صامہ وأمر بصیامہٖ، فلما فرض شھر رمضان، قال: من شاء صامہ ومن شاء ترکہ۔ (6)
ترجمہ: ’’حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو وہاں بھی عاشوراء کاروزہ رکھا اورحضرات صحابہ کرام کوبھی روزہ رکھنے کاحکم فرمایا۔ پھر جب ماہ ِرمضان کے روزے کی فرضیت کاحکم آیا توآپ ﷺ نے لوگوں کو اختیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جوچاہے عاشورا کاروزہ رکھے، جوچاہے نہ رکھے ‘‘۔
اور حضرت عائشہ کی روایت بخاری نے قدرے تبدیلی کے ساتھ یوں بیان کی ہے:
عن عائشۃ قالت: كانوا يصومون عاشوراء قبل ان يفرض رمضان وكان يوما تستر فيه الكعبۃ فلما فرض الله رمضان قال رسول الله ﷺ : من شاء ان يصومه فليصمه ومن شاء ان يتركه فليتركه ۔ (7)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ اہل عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، کیونکہ اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالی نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔
عن الربيع بنت معوز قالت أرسل النبي ﷺ غداۃ عاشوراء الى قرى الأنصار، من أصبح مفطرا فليتم بقيۃ يومه ومن أصبح صائما فليصم۔ قالت فكنا نصومه بعد ونُصوم صبياننا ونجعل لهم اللعبۃ من العھن، فاذا بكی أحدهم على الطعام أعطيناه ذاک حتى يكون عند الافطار (8)
حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عاشورہ کی ایک صبح انصار کے کسی گاؤں میں پیغام بھیجا کہ جس نے روزہ نہیں رکھا وہ اس دن کا بقیہ حصہ حالت روزہ میں گزارے اور جس نے روزہ رکھا ہوا ہے وہ روزے سے رہے۔ اس کے بعد ہم روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں۔ ہم ان کے لیے روئی کی ایک گڑیا بنا دیتیں۔ جب ان میں سے کوئی بچہ کھانے کے لیے روتا تو ہم اسے وہی گڑیا دے دیتے۔ (وہ اس گڑیا سے کھیلنے میں مشغول ہو جاتا) یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔
عن ابي موسى قال: كان اهل خيبر يصونون يوم عاشوراء يتخذونه عيدا ويلبسون نسائهم فيه حليهم وشارتهم فقال رسول الله ﷺ : فصوموه انتم (9)
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگار کرتے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا : تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔
ایک حدیث میں اس دن کو اللہ رب العزت کا دن قرار دیا گیا، چنانچہ ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے یہ روایت منقول ہے کہ:
قال رسول اللہ ﷺ: ھٰذا یوم من أیام اللہ، فمن شاء صامہ ومن شاء ترکہ۔ (10)
اور اس دن روزہ رکھنے کاثواب یہ ہے کہ سال گزشتہ کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں ارشادِ نبوی ہے
عن ابی قتادۃ الانصاری قال أن رسول اللہ ﷺ سئل عن صوم یوم عاشوراء، فقال یکفر السنۃ الماضیۃ (11)
حضرت ابو قتادہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عاشورہ کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ روزہ گزشتہ سال کے گناہوں اور کوتاہیوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
یوم عاشوراء کے روزے میں یہود کی مخالفت
یہود اسلام کے ازلی دشمن ہیں، ان کی مخالفت سنتِ نبوی ہے ،اسی وجہ سے اسلام کے بیشتر احکامات میں ان کی مخالفت قولاً وعملاً کی گئی ہے۔ ابتدا میں صرف ایک روزہ رکھا جاتا تھا، جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ یہود بھی روزہ رکھا کرتے ہیں، اس پر آپ ﷺ نے ان کی مخالفت میں مزید ایک روزہ اضافہ کرنے کا حکم دیا، یا تو نو تاریخ کو روزہ رکھ لیا جائے۔ اس کی تائید ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت سے ہوتی ہے:
قال رسول اللہ ﷺ: صوموا التاسع والعاشر وخالفوا الیہود۔(12)
یا نو تاریخ کے بجائے گیارہ تاریخ کو روزہ رکھ لیا جائے، اس کا ثبوت حضرت عباس رضی اللہ عنہما کی ایک دوسری روایت میں ہے:
قال رسول اللہﷺ: صوموا یوم عاشوراء وخالفوا الیہود، صوموا قبلہ یوماً أو بعدہٗ یوماً۔(13)
فقہائے کرام نے ان ارشادات کی روشنی میں تنہا دس محرم کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولیٰ لکھا ہے، اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا گناہ ہے، یہ درست نہیں ہے۔
بعض اہلِ علم کی رائے ہے کہ فی زمانہ اہلِ یہود کے روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے تشبہ نہیں پایا جاتاہے،اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ اول اس کاقطعی علم نہیں کہ وہ روزہ رکھتے ہیں یا نہیں۔( 14)
دوسرا یہ کہ نو اور گیارہ کا روزہ رکھنا منصوص ہے اور چودہ سو سال سے تعاملِ ناس ہے۔
عاشورہ کے دن گھر والوں پر خرچ میں توسع
ماہِ محرم الحرام میں عاشورا کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے یا کسی بھی اعتبار سے وسعت کرنا،اس کی خاص فضیلت واردہے ؛ چنانچہ حضرت ابن مسعود،حضرت ابوسعید خدری،حضرت ابوہریرہ اورحضرت جابر رضی اللہ عنھم سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: من وسَّع علی عیالہٖ فی یوم عاشوراء، وسع اللہ علیہ السنۃ کلھا۔ (15)
جوشخص عاشورا کے دن اپنے گھروالوں پرخرچ کرنے میں وسعت وفراخی کرے گا، اللہ تعالیٰ ساراسال اس پر(رزق میں) وسعت فرمائے گا۔
اگرچہ اس حدیث کی اسنادی حیثیت پرکلام ہے، مگرمحدثین کی تصریحات کے مطابق ایسی روایات جو مختلف طرق سے مروی ہوں ، ان کی مختلف اسناد کی وجہ سے ان میں قوت پیداہوجاتی ہے ، اس لیے اس کو فضائل میں بیان کرنے پر کوئی بڑا اشکال باقی نہیں رہتا۔
امام بیہقی اس مضمون کی روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ھذہ الأسانید وإن کانت ضعیفۃ، فہی إذا ضم بعضہا إلی بعض، أخذت قوۃ، واللّٰہ أعلم۔ (16)
ترجمہ:’’اگرچہ ان روایات کی سندوں میں ضعف ہے، لیکن ان میں مجموعی طورپراتنی بات ضرور پائی جاتی ہے کہ ان اسانید کو ملا لیا جائے تو قوّت حاصل ہو جاتی ہے۔‘‘
اس ماہ میں نہ کرنے کے کام
وہ امور جن سے اس ماہ میں ہمیں بچنا چاہیے وہ یہ ہیں:
1. کالا لباس پہننا اور کالا جھنڈا لگانا۔
2. نحوست اورغم کا مہینہ سمجھنا۔
3. سوگ وتعزیہ اور ماتم کرنا۔
4. شربت وغیرہ کی سبیلیں لگانا۔
5. دیگر من گھڑت رسموں کو اپنانا۔
ماہ محرم میں سوگ منانا اور ماتم کرنا
محرم الحرام کو سوگ اورغم کا مہینہ قرار دینا درست نہیں ، اور اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔ عوام الناس اس کو غم کا مہینہ سمجھتے ہیں، اس لیے کہ اس مہینے میں نواسۂ رسول حضرت حسین کو اور ان کے رفقاء اور اہل خاندان کو ظالمانہ طور پر نہایت بے دردی سے شہید کر دیا گیا تھا۔ لیکن اللہ کے راستے میں شہید ہونے والوں کا ماتم کرنے سے شریعت میں صاف ممانعت وارد ہوئی ہے ۔
اس بارے میں سب سے پہلے علامہ ابن کثیر کا ایک قول ملاحظہ فرمائیں لکھتے ہیں :
’’فکل مسلمٍ ینبغی لہ أن یُحزنہٗ ھذا الذی وقع من قتلہ رضی اللّٰہ عنہ، فإنہ من سادات المسلمین وعلماء الصحابۃؓ، وابن بنت رسول اللّٰہ a التی ھی أفضل بناتہ، وقد کان عابداً وشجاعاً وسخیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وقد کان أبوہ أفضل منہ، وھم لا یتخذون مقتلہ مأتَماً کیوم مقتل الحسینؓ، فإن أباہ قتل یوم الجمعۃ وھو خارج إلی صلاۃ الفجر فی السابع عشر من رمضان سنۃ أربعین، وکذالک عثمانؓ کان أفضل من علیؓ عند أھل السنۃ والجماعۃ، وقد قتل وھو محصور فی دارہٖ فی أیام التشریق من شھر ذی الحجۃ سنۃ ست وثلاثین، وقد ذُبح من الورید إلی الورید، ولم یتخذِ الناسُ یوم مقتلہ مأتمًا، وکذالک عمرؓ بن الخطاب، وھو أفضل من عثمانؓ وعلیؓ، قتل وھو قائم یصلی فی المحراب صلاۃ الفجر، وھو یقرأ القرآن، ولم یتخذ الناس یوم مقتلہ مأتما، ورسول اللہ ﷺ سید ولد آدم فی الدنیا والآخرۃ، وقد قبضہ اللّٰہ إلیہ کما مات الأنبیاء قبلہ، ولم یتخذِ أحد یوم موتہٖ مأتما‘‘۔ (17)
’’ہر مسلمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ غمگین کر دے، اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے سردار اور اہلِ علم صحابہ میں سے تھے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کی سب سے افضل لختِ جگر کے بیٹے یعنی آپ ﷺ کے نواسے تھے، آپ عبادت کرنے والے، بڑے بہادر اور بہت زیادہ سخی تھے۔ لیکن آپ کے والد(حضرت علی کرم اللہ وجہہ) آپ سے زیادہ افضل تھے، اُن کو چالیس ہجری سترہ رمضان جمعہ کے دن جب کہ وہ اپنے گھر سے نمازِ فجر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے‘ شہید کر دیاگیا، اسی طرح حضرت عثمان غنی اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے افضل ہیں، جنہیں چھتیس ہجری عید الاضحی کے بعد انہی کے گھر میں شہید کر دیا گیا، لیکن لوگوں نے ان کے قتل کے دن کو بھی اس طرح ماتم نہیں کیا،اسی طرح حضرت عمر بن خطاب حضرت عثمان اور حضرت علی سے افضل ہیں، جن کو مسجد کے محراب میں نماز کی حالت میں جب کہ وہ قراء ت کر رہے تھے‘ شہید کر دیا گیا، لیکن ان کے قتل کے دن بھی اس طرح ماتم نہیں کیا جاتا، اور جناب نبی اکرم ﷺ جو دنیا وآخرت میں بنی آدم کے سردار ہیں ، ان کی وفات کے دن کو بھی کسی نے ماتم کا دن قرار نہیں دیا۔‘‘
عقل میں آنے والی بات ہے کہ اگر شہیدوں کے ماتم کی اجازت ہوتی تو سال بھر کے دنوں میں ہمارا کوئی بھی دن ماتم سے خالی نہ ہوتا۔ اللہ کے دین کی حفاظت اور اشاعت کے لیے جتنی قربانیاں مسلمانوں نے دی ہیں اتنی قربانیاں کسی قوم نے اپنے مذہب اور دھرم کی حفاظت کے لیے نہیں دی۔ تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو سال بھر میں کوئی مہینہ ، کوئی ہفتہ، بلکہ کوئی دن ایسا نہیں ہوگا جس میں شہادت کا کوئی واقعہ یا رنج والم سے بھرپور کوئی سانحہ پیش نہ آیا ہو۔ اگر ہم ہر ایک کا ماتم کرنے لگیں تو پھر ہمارے لیے ماتم کے سوا کوئی دوسرا کام کرنا ممکن ہی نہیں رہ جائے گا۔
اگر ہمیں ماتم کی اجازت ہوتی تو ہم 12 ربیع الاول کو ضرور ماتم کرتے، کیونکہ اس دن سرکار دو جہاں دنیا سے رخصت ہوئے تھے اور آپ کی رحلت سے بڑا صدمہ امت کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ دن تو واقعی مدینہ منورہ میں رنج و الم کا دن تھا۔ صحابہ فرماتے ہیں ہمیں اس دن ہر چیز تاریک نظر آتی تھی۔ حضرت عمر جیسا جری انسان اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔
اگر ہمیں ماتم کی اجازت ہوتی تو ہم یکم محرم الحرام کو ضرور ماتمی مجلسیں برپا کر تے، کیونکہ اس دن خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق شہید ہوئے تھے، جن کے بارے میں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ جن کے دور خلافت میں 22 لاکھ مربع میل علاقہ فتح ہوا ۔ اگر ہم سوگ منا سکتے ، تو ہم 18 ذی الحجہ کو ضرور سوگ مناتے، کیونکہ اس دن داماد نبی، خلیفہ راشد ، جامع القران، کامل الحیاء والایمان، حضرت عثمان بن عفان کو تقریبا 50 دن کے محاصرے کے بعد انتہائی مظلومیت کے عالم میں شہید کیا گیا۔ ان کا خون اسی قرآن کے اوراق پر گرا جسے انہوں نے بڑی احتیاط اور محبت و عقیدت کے ساتھ جمع کیا تھا، ان پر اسی کنویں کا پانی بند کیا گیا جسے خرید کر انہوں نے مسلمانوں کے لیے وقف کیا تھا، ان پر اسی مسجد کے دروازے بند کر دیے گئے جس کی توسیع انہوں نے اپنے ذاتی سرمائے سے زمین خرید کرکی تھی، جس شہید مظلوم نے جان دے دی مگر نہ تو طاقت کے باوجود مدینہ منورہ کی سرزمین پر باغیوں کا خون گرانا گوارہ کیا اور نہ مدینے سے جدائی اختیار کی۔ یہ وہی عظیم شخصیت ہے جن سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے تھے۔
اگر سینہ کو بی کی اجازت ہوتی تو ہم 21 رمضان المبارک کو لازما اپنے سینوں کو پیٹ پیٹ کر لہو لہان کر دیتے، کیونکہ اس دن حضرات حسنین کے والد، سیدہ فاطمہ زہرا کے شوہر، حضور کے چچازاد بھائی، خلیفہ راشد ، اسد اللہ الغالب ، حضرت علی ابن ابی طالب شہید ہوئے۔ اگر تعزیہ کی اجازت ہوتی تو ہم حضرت حمزہ کا تعزیہ ضرور نکالتے جن کی دردناک شہادت پر چشم نبوت بھی چھلک پڑی تھی، جن کی نعش مبارک کا یوں مثلہ کیا گیا تھا کہ پہچانی نہ جاتی تھی۔ ناک کان کاٹ دیے گئے تھے، سینہ چاک کر کے کلیجہ نکال کر چبایا گیا تھا۔ وہ حضور کے چچا تھے، خالہ زاد بھائی بھی تھے اور رضاعی بھائی بھی تھے۔ اگر ہمیں نوحہ خوانی کی اجازت ہوتی تو ہم حضرت سمیہ اور ان کے شوہر حضرت یاسر کی مظلومانہ شہادت پر نوحے اور مرثئے ضرور پڑھتے، جن کی مظلومیت کے تصور سے آج بھی روح کانپ جاتی ہے۔ سنگدل ابو جہل نے اسلام کی شہیدہ کی شرمگاہ پر نیزہ مار ا جو پشت کے پار ہو گیا تھا، مگر واہ صنف نازک کی سرتاج، تیری استقامت کہ تو نے اتنا بڑا ظلم تو برداشت کر لیا مگر اسلام کا دامن نہ چھوڑا اور حضرت یاسر کے بارے میں کہا جاتا ہے تو ان کے ہاتھ پاؤں چار طاقتور اونٹوں سے باندھ کر ان کو مخالف سمت میں دوڑا دیا گیا جس سے ان کے جسم کے پرخچے اڑ گئے۔ جب ہم اسلام کے ان مظلوم شہیدوں کے واقعات پڑھتے ہیں تو ہمارے دل تڑپ اٹھتے ہیں، ہمارے سینوں میں جو جذبات مچلنے لگتے ہیں اور ہماری آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگتے ہیں۔
شہادت مؤمن کی تمنا ہے ماتم کی چیز نہیں
شہادت مؤمن کی تمنا ہے ماتم کی چیز نہیں ہے۔ ’’شہادت ‘‘کا مرتبہ خوشی کا ہے غم اور سوگ کا نہیں۔ تعلیماتِ نبوی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول بے انتہا سعادت کی بات ہے۔ حضرت فاروقِ اعظم کے شوقِ شہادت کا یہ عالم تھا کہ آپ مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے۔(صحیح البخاری) حضرت خالد بن ولیدجنہیں بارگاہِ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے، لیکن اللہ کی شان انہیں شہادت نہ مل سکی۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔ (18)
شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے جس میں حضور نے ارشاد فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں، پھر شہید کر دیا جاؤں، پھر مجھے زندہ کر دیا جائے، پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کر دیا جاؤں، پھر مجھے زندہ کر دیا جائے، پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اورپھر شہید کر دیا جاؤں‘‘۔ (19)
الغرض شہادت تو ایسی نعمت ہے جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے۔ نیز جناب رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بھی کئی عظیم اور نبی کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی، لیکن ہمارے نبی ﷺ نے ان کی شہادت کے دن پر بالکل سوگ نہیں منایا ۔
محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم
ایک غلط رسم اس مہینے کی یہ ہے کہ لوگ اس مہینہ میں شادی بیاہ سے گریز کرتے ہیں اور اس مہینے میں نکاح کو منحوس سمجھتے ہیں ، حالاں کہ شرعاً اس مہینے میں شادی کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی حضرت فاطمہ الزہراء سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی۔ (20)
اس مہینے کو منحوس سمجھنا شرعاً بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے، بلکہ یہ عقیدہ رکھنا بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی دن یا زمانے میں کسی قسم کی نحوست نہیں رکھی گئی۔ اکابرین مفتیانِ عظام کے فتاویٰ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، بطور مثال ایک فتوی نقل کیا جاتا ہے، فتاویٰ رحیمیہ میں مذکور ہے: ’’(الجواب): ماہ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں۔ماہِ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنا نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔ اسلام نے جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا ہو، اعتقاداً یاعملًا ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کا خطرہ ہے۔ (21)
ماہِ محرم اور یوم عاشورہ سے وابستہ چند اہم تاریخی واقعات
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اس دن ہوئی۔
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جبلِ جودی پر اس دن ہی آٹھہری۔
حضرت یونس علیہ السلام اسی دن مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے خلاصی ملی۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے اسی دن ہوئی۔
حضرت یوسف علیہ السلام تختِ خلافت پر دس محرم ہی کو متمکن ہوئے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی دن اپنی قوم سمیت فرعون سے نجات پائی۔
اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔
اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو آزمائش کے بعد بادشاہت ملی ۔
حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری سے شفا اسی روز ملی۔
یہی وہ دن ہے جس میں حضرت ادریس علیہ السلام اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھالیا گیا۔
یہی وہ دن ہے جس میں جگر گوشۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے باطل سے ٹکراکرجامِ شہادت نوش کیا۔
اور اسی دن اس کائنات کی بساط لپیٹ کر قیامت برپا کر دی جائے گی۔ (22)
حوالے
(1) خصوصیات ماہ محرم الحرام و یوم عاشورہ
(2) رواه احمد و النسائی في السنن الكبرى وابن ماجۃ
(3)صحیح مسلم،کتاب الصوم، باب فضل صوم المحرم، رقم الحدیث: 202 ۔ مشکاۃ، رقم:2048
(4) متفق عليه واللفظ لمسلم
(5)صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: أیّ یوم یصام فی عاشوراء؟ رقم الحدیث:1134،2/797۔ دارالکتب العلمیۃ
(6)صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صوم عاشورا، رقم الحدیث:1125، 2/792۔ دارالکتب العلمیۃ
(7)رواه البخاري والطبراني والبيهقي
(8) متفق عليه
(9) رواه مسلم
(10) ابوداؤد: 2443
(11) رواہ مسلم و احمد و ابوداؤد و الترمذی واللفظ لمسلم : 1126
(12)ترمذی:755
(13)مسند احمد
(14) فتاویٰ رحیمیہ،5/197
(15)شعب الإیمان للبیہقی، کتاب الصیام، صوم التاسع والعاشر، 3/365
(16)شعب الإیمان للبیہقی، کتاب الصیام، صوم التاسع والعاشر، 3/365
(17)البدایۃ والنھایۃ، سنۃ إحدی وستین، فصل: فی الإخبار بمقتل الحسین بن علی رضی اللہ عنہ،11/579، دار الھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع
(18)البدایہ والنھایہ، سنۃ احدی وعشرین، ذکر من توفی احدی وعشرین،7/ 114، مکتبۃ المعارف، بیروت۔
(19)صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجھاد والخروج فی سبیل اللہ، رقم الحدیث: 4967
(20) تاریخ مدینۃ الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاۃ والسلام وأزواجہ،3/128، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبری، ذکر ما کان من الأمور فی السنۃ الثانیۃ، غزوۃ ذات العشیرۃ،2/410،دار المعارف بمصر۔
(21)فتاوی رحیمیہ، کتاب البدعۃ والسنۃ،2/115، دارالاشاعت، کراچی
(22)فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، و معارف القرآن ملخصاً