Home خاص کالم مغرب کا ’ڈے کلچر‘ اور مسلم نوجوان – کامران غنی صبا

مغرب کا ’ڈے کلچر‘ اور مسلم نوجوان – کامران غنی صبا

by قندیل
 ساتویں جماعت میں داخل ہوتے ہی میرے کانوں میں آواز آئی۔ ’’یار کل روز ڈے ہے۔ ‘‘ایک طالب علم دوسرے طالب علم کو معلومات فراہم کر رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بچے خاموش ہو گئے۔میں نے مسکراتے ہوئے سلسلہ وہیں سے شروع کر دیا۔
 ’’ کل کوئی خاص دن ہے کیا؟‘‘
 ’’جی سر کل روز ڈے ہے۔‘‘ دو تین بچوں نے ایک ساتھ کہا۔
 اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ ذرا اِ ن بچوں کا ٹسٹ لیا جائے۔ میں نے بچوں سے کاپی نکالنے کے لیے کہا اور انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر منائے جانے والے ’’اسپیشل ڈیز‘‘ کی لسٹ بنانے کو کہا۔ چونکہ میرا مقصد بچوں کو پرکھنا تھا اس لیے کام کو دلچسپ بنانے کے لیے ہر ایک ’ڈے‘ کے نام پر ایک پوائنٹ اور اگر اس ڈے کو منانے کی تاریخ بھی لکھی جائے تو ’دو پوائنٹ‘ دینے کا وعدہ کیا۔ مجھے امید تھی کہ بچے پوائنٹس لینے کے لیے جتنے ’ڈیز‘ انہیں یاد ہوں گے سب لکھ ڈالیں گے اور واقعی ایسا ہوا بھی۔ تھوڑی دیر میں سبھی بچوں کی کاپیوں پر ’لسٹ آف امپورٹنٹ ڈیز‘ تیار ہو چکی تھی۔ بچوں کی لسٹ میں جن ’ڈیز‘ کے نام تقریباً مشترک تھے، وہ کچھ اس طرح تھے: ٹیچرز ڈے، چیلڈرنس ڈے، روز ڈے، پرپوز ڈے، کس ڈے، پرامس ڈے، ویلنٹائنس ڈے، مدرس ڈے وغیرہ۔ کلاس کی جس طالبہ نے سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کیے میں نے اُس سے پوچھا کہ تمہیں اتنے سارے ڈیز کہاں سے معلوم ہوئے۔ اس نے بتایا کہ وہ جس کوچنگ میں پڑھنے جاتی ہے وہاں کی ایک غیر مسلم طالبہ کی ڈائری سے یہ سارے نام اس نے اپنی کاپی میں نقل کر کے یاد کر لیے تھے۔ دوسرے بچوں میں کچھ تو دوستوں اور ہم جماعتوں سے سن کر ان ناموں سے واقف ہوئے تھے اور کچھ نے ’گوگل‘ پر سرچ کر کے معلومات حاصل کی تھیں۔ میں نے یہی کام آٹھویں جماعت کے بچوں سے بھی کروایا تو تقریباً یہی نتائج سامنے آئے۔ ذرا تصور کیجیے کہ ساتویں اور آٹھویں جماعت کے کم عمر بچے جب نیٹ پر ’کس ڈے‘، ’ویلنٹائن ڈے‘، پرپوز ڈے، وغیرہ سرچ کرتے ہوں گے تو ان کے سامنے کس کس طرح کے اخلاق سوز مناظر آتے ہوں گے؟اور ان مناظر سے گزرتے ہوئے وہ غلاظتوں کی کن کن گھاٹیوں میں اترتے ہوں گے؟12-13 سال کے کچے ذہن میں ان اخلاق سوز مناظر کو دیکھ کر کیا کیا خیالات جنم لیتے ہوں گے؟
 یہ صورت حال تو گائوں کے سرکاری اسکول کے بچوں کی ہے۔ شہروں کے پرائیوٹ اسکول میں پڑھنے والے رئیس والدین کے بچے تو اپنے وقت سے اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچے سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ان بچوں کے ماہانہ ہزاروں روپیے اسمارٹ فون اورنمود و نمائش پر خرچ ہوتے ہیں۔ ’گرل فرنڈ‘ اور ’بوائے فرنڈ‘ کا ’کانسپٹ‘ پہلے کالج اور یونیورسٹیز میں ہوا کرتا تھا۔ اب تو اسکولوں میں ہی ’بریک اپ‘ تک ہونے لگا ہے۔ اکثر گارجین اور والدین حضرات کو تو اپنے بچوں کی باہر کی سرگرمیوں کا پتہ تک نہیں ہوتا۔ وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ ان کا بچہ اسمارٹ فون سے کیا کرتا ہے؟ اس کی دوستی کن لوگوں سے ہے؟ کچھ والدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ انہیں اپنے بچے سے کچھ پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں اُلٹا کوئی ’ری ایکشن‘نہ ہو جائے۔ ان صورت حال اور اِس طوفان بلاخیز میں نئی نسل کی تربیت ایک بڑا چیلنج ہے۔ غلاظت کو دیکھ کر آنکھ بند کر لینے یا اُس پر پردہ ڈال دینے سے غلاظت ختم نہیں ہو جاتی۔ ہمارے یہاں المیہ یہ ہے کہ والدین وقت کے ساتھ ’اپ ٹو ڈیٹ‘ ہونا نہیں چاہتے۔ وہ صرف اپنے وقت کو یاد کر کے نئے زمانے کا نوحہ پڑھنا جانتے ہیں۔ بچوں سے کھل کر بات کرنے میں انہیں جھجک محسوس ہوتی ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ بچے اسمارٹ فون سے توبہ کر لیں۔ ان کی مرضی کے لباس پہنیں۔ ان کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کریں۔ یہ وہ خواب ہیں جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی پرورش اسلامی نہج پر ہو تو ہمیں جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ ہم اپنے گھروں میں بچوں کے ہاتھ سے اسمارٹ فون چھین سکتے ہیں لیکن اسکول اور کالج میں وہ اپنے دوستوں کے اسمارٹ فون نہیں چلائیں گے اِس کی گارنٹی نہیں لے سکتے۔اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ بچوں کو اسمارٹ فون کے استعمال کا طریقہ سکھایا جائے۔ بچپن سے ہی ان کے دماغ میں خیر اور شر، گناہ اور ثواب، جنت اور جنہم ، جزا اور سزا کا تصور مذہبی، سائنسی اور منطقی نقطہ نظر سے اِس طرح راسخ کر دیا جائے کہ ان کے قدم غلط سمت کی جانب اٹھ ہی نہیں پائیں۔
 جہاں تک ڈیز کلچر کی بات ہے تو اس کے لیے بھی ہمیں متبادل صورت نکالنی ہوگی۔ اسلامی تاریخ بے شمار اہم واقعات اور شخصیات سے بھری پڑی ہے۔ ہم اپنے گھر اور اسکولوں میں یوم الفرقان، جنگ اُحد، فتح مکہ، اقبال ڈے، سر سید ڈے،حجاب ڈے جیسی یادگاریں منا سکتے ہیں۔ ان مواقع پر تحریری و تقریری مقابلے کرائے جا سکتے ہیں۔ اس بہانے بچوں کو اپنی تاریخ سے واقفیت کا موقع ملے گا۔
 بچوں کی تربیت کو اگر ہم نے چیلنج کے طور پر قبول نہیں کیا تو آنے والی نسلوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہمارے کاندھوں پر ہوگا۔ اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو ہر قسم کی غلاظتوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں اس عہد کے طوفان بلاخیز کا مقابلہ کرنے کی قوت و صلاحیت عطا فرمائے۔

You may also like

Leave a Comment