Home تجزیہ مغربی بادشاہتوں کے سربستہ راز ۔ علی ہلال

مغربی بادشاہتوں کے سربستہ راز ۔ علی ہلال

by قندیل

مغربی میڈیا اور پاکستان جیسے ممالک کے کاپی پیسٹ میڈیا میں ہمیشہ عرب سربراہان مملکت کی شکار اور گھڑ سواری کی کہانیاں اس قدر چسکے دار انداز سے شائع کی جاتی ہیں کہ پڑھنے والے اس سے لطف محسوس کرنے کے ساتھ بڑی آسانی اور سادگی کے ساتھ فکری ونظریاتی گمراہی کے شکار ہوجاتے ہیں ۔آپ کسی بھی عرب بادشاہ ،ولی عہد یا شہزادے کی بات کردو محفل میں کئی افراد کے منہ پر ہنسی آجائے گی۔
یہ فکر سازی مغرب کا موثرترین ہتھیار ہے۔ مغرب کے مالدار اداروں کے صحافی مشرق کے شاہی ایوانوں،شکارگاہوں ، محلات و قصور اور ریزورٹس میں تو بڑی اسانی کے ساتھ داخل ہوجا تے ہیں مگر مشرق کے صحافیوں کا سب سے بڑا اور آخری معتمد مرجع ومصدر مغربی میڈیاکے سوا کوئی اور نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی سوشل سے مین اسٹریم میڈیا پر عرب بادشاہوں اور امراء کی لاتعداد ایسی کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے مگر مسلماں کا ایک بڑا طبقہ ان پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے۔
یہی غلط اور من گھڑت کہانیا ں اسلامی ممالک میں باغیانہ سوچ کو پروان چڑھاتی ہیں۔
حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ آزادی اظہار کے دعویدار یورپ کے شاہی نظام کے بارے بیشتر معلومات تک رسائی کی اجازت نہیں ہوتی۔ آپ ملکہ کے گھوڑوں کے اسطبلات، مہنگے ریزورٹس، لگژری خواب گاہوں اور عالیشان محلات تک رسائی نہیں رکھ سکتے۔ آپ کو برطانوی ملکہ اور بادشاہ کی لاتعداد سرگرمیوں اور آمدنی کے خفیہ ذرائع سے بے خبر رکھاجاتاہے۔

حالانکہ پیراڈائز لیکس وغیرہ جیسے انکشافات نے کچھ جھلکیاں بتائی ہیں کہ کس طرح نیک نامی کی حامل ملکاوں اور شہزادوں نے ناجائز جاییدادیں بنائیں اور ٹیکس سے بچنے کے لئے برمودا مثلث جیسے علاقوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔
ہمیں سعودی عرب کے بادشاہ کے جبے اور عقال کی قیمت تو بتائی جاتی ہے ۔عرب امراء کی چھٹیاں گزارنے کی خبریں ہم تک پہنچتی ہیں مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ دنیا کا مہنگا ترین تاج کسی عرب بادشاہ کے نہیں بلکہ برطانیہ کے بادشاہ کے سر مبارک پر رکھاجاتا ہے ۔ ملکہ برطانیہ کی دولت کے راز پوشیدہ ہوتے ہیں۔

ہمیں یہ بتایاجاتا ہے کہ دبئی کے فلاں شیخ کے پاس اتنے مہنگے گھوڑے ہیں مگر یہ نہیں بتایاجاتا کہ برطانیہ سمیت یورپ میں سب سے مہنگے گھوڑوں اور قیمتی کتوں کی مالک آنجہانی ملکہ الزبتھ تھیں اور صرف یہ نہیں بلکہ یہ دولت اور تاج کے ہیرے تک اسلامی ممالک سےہی لے جائے گئے ہیں ۔
ہم اس راز سے بے خبر رہتے ہیں کہ دنیا میں جن غریبوں سے مغربی قوتیں وسائل چھن گئی ہیں انہیں کھلانے والوں میں سب سے بڑا اور پہلا حصہ عربوں کا ہوتا ہے۔
آج بھی یمن اور سوڈان سے پاکستان تک کے سیلاب زدگان کی مدد میں عرب پیش پیش ہیں۔

ہماری معلومات کی معراج یہي ہے کہ عرب شہزادے بلوچستان اور سندھ کے ریگستانوں میں تلور کا شکار کرنے آتے ہیں۔ وہ یہاں جنسی عیاشی کرتے ہوں گے۔
ایک بار ایک مہمان کے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو ہنس کر دھرا ہوگیا۔ کہا دنیا کے کس ملک کی لڑکی ہے جو خلیج کے فلک بوس محلات میں موجود نہیں ۔ ہمیں اگر جنسی آسودگی لینی ہوگی تو ان جنگلوں میں جنگل زادیوں کا انتخاب کیونکر کریں گے۔

شکار ہمارا شوق ہے۔ یہ ہمیں اپنے آبا واجداد سے ورثے میں ملا ہے۔یہ ہمیں چست و چوبند رکھتا ہے۔ اس کی آڑ میں کسی جنسی آسودگی کی نہیں ہمیں ذہنی سکون اور روشنیوں سے دور خاموشی کے کچھ لمحات گزارنے ہوتے ہیں جہاں ہم جھاڑیوں ،ریگستانوں اور بیابانوں میں آسمان پر چمکتے چاند کے ساتھ باتیں کرسکے۔ ہم فطرت کی آغوش میں رہ سکے۔ قہوہ ہو اور دم توڑتے انگاروں کا منظر ہو۔ یہ ہمارا عشق ہے اور ہم اس کی آڑ میں ایسے بیابانوں کےغریب مکینوں کی خدمت کرتے ہیں ۔ جب تک کیمپ لگائے رکھتے ہیں جھگی نشین غریب دیہاتیوں کو کھلاتے پلاتے ہیں۔
کئی ممالک ہیں جو ہمیں دعوت دیتے ہیں۔ کہ ہم وہاں جاکر شکار کھیلیں۔ کیونکہ شکار ایریا میں ہم اربوں کے پروجیکٹس بناتے ہیں۔ ہوائی اڈے ، پکی سڑکیں اور قدرتی پرندوں کی افزائش کے فارم ہاوسز۔
اس سے ہمیں جو خوشی ملتی ہے وہ ہمیں اس سے بے پرواہ کرتی ہے کہ کوئی ہمارے بارے کیا رائے رکھتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment