Home تجزیہ مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی

by قندیل

مفتی حسین احمد ہمدم
ایڈیٹر چشمۂ رحمت،ارریہ

کتابیں کسی بھی قوم کا بیش قیمت سرمایہ ہوتی ہیں، زمانۂ قدیم میں علم و فن کی اہم ترین کتابیں صرف بادشاہوں ، وزیروں، اور امراء ورؤسا کی دسترس میں ہوتی تھیں، غریب عوام کو بلند پایہ علوم و فنون کی تعلیم کا مستحق نہیں سمجھا جاتا تھابلکہ تعلیم وتعلم ان کے لئے قابل سزا جرم مانا‌جاتا تھا، اعلی طبقے کے بچوں کو بند دروازے کے پیچھے تعلیم دی جاتی تھی اور کتابیں پوشیدہ رکھی جاتی تھیں تاکہ عام عوام میں سے کوئی علم کی روشنی سے واقف نہ ہو جائے، لیکن پھر اسلام آیا اور اس نے بلا کسی امتیاز اور تفریق ہر ایک کے لئے تعلیم کو عام کردیا اسلام نے دنیا کو تصور دیا کہ تعلیم انسانوں کے کسی خاص طبقے کی جاگیر نہیں بلکہ تعلیم سب کیلئے ہے تعلیم کے بغیر نہ خود کی پہچان ممکن ہے نہ ہی خدا کی۔ ع
کہ بے علم نتواں خدارا شناخت

قوموں کے عروج اور ترقی میں کتابوں کا بنیادی کردار ہوتا ہے آج کے دور میں جو بھی ترقی ہو رہی ہےوہ ان علمی اور تحقیقی بنیاد پر ہو رہی ہے جو کتابوں میں مرقوم ہے،دنیا کے ذہین ترین انسانوں نے برسوں کے اپنے غور و فکر اور تجربات و مشاہدات کا نچوڑ کتابوں کی صورت میں لکھ کر محفوظ کردیا تاکہ آئندہ نسلیں ان سے مستفید ہوں اور جہاں تک وہ پہنچےتھے وہاں سے آگے کی علمی روحانی تہذیبی اور سائنسی ترقی کا سفر شروع کر سکیں۔ کتب بینی کے ذریعہ انسان شعور کی نئی منزلوں سے روشناس ہوتا ہے اور اس کی شخصیت میں نکھار اور وقار پیدا ہوتا ہے کسی دانا کا قول ہے کہ اگر دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسے دن گفتگو میں وہ شیرینی باقی نہیں رہتی انداز تکلم میں تبدیلی آجاتی ہے ۔
آج کل سطحی سوچ کے لوگوں سے سننے میں آتا ہے کہ ” انٹرنیٹ پر سب کچھ موجود ہے موجود ہے کتابوں کی کیا ضرورت؟ کتابیں آج کے دور میں کون پڑھتا ہے؟”۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے دراصل بہت ساری حقیقتوں سے واقف نہیں ہیں مثلاً یہ کہ ماہرین کی تحقیق کے مطابق انسان کی عمر جیسے جیسے ڈھلتی ہے اس کے دماغ کے خلیے کمزور ہو جاتے ہیں تاہم اگر انسان مطالعہ کرتا رہے تو اس کے دماغ کی ورزش ہوتی رہتی ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جبکہ انٹرنیٹ پر مطالعے سے ہماری صحت متاثر ہوتی ہے اس کی شعائیں دماغ کو تھکا دیتی ہیں اور کئی طرح کے امراض کی وجہ بنتی ہیں، دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں سے انٹرنیٹ کی ایجاد ہوئی آج بھی کتابیں پڑھنے کا ذوق و شوق کم نہیں ہوا ہے بیشتر گھروں میں کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود رہتا ہے جن کا مطالعہ ان کے معمولات زندگی میں داخل ہے۔ اور ایک سچائی یہ بھی ہیکہ انٹرنیٹ پر وقتی ضرورت کی چھوٹی موٹی معلوماتی تحریر تو پڑھ لی جاتی ہے مگر طویل اور مستقل مطالعہ اس پر کوئی شاذ و نادر ہی کرتا ہے کیونکہ عملاً اگر چہ یہ ناممکن نہیں لیکن تکلیف دہ اور بہت مشکل ہے بہر حال کتابوں کی ضرورت اور افادیت آج بھی مسلم ہے جدید وسائل کسی حد تک کتابوں کے معاون تو یقینا ہیں، مگر ان کا بدل نہیں ہو سکتے ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔
عہد وسطی میں مسلمانوں نے علم اور کتابوں سے جس دیوانگی کے ساتھ محبت کی اس کی روداد تاریخ میں موجود ہے، مسلمانوں کے ہاں لائبریری کا نام بیت الحکمة،خزانة الحکمة، دارالحکمة، دارالعلم، دارالکتب، بیت الکتب ہوتا تھا، جن میں ناظم مہتمم صحاف جلد ساز نقاش خوش نویس مقالہ نویس مصحح (پروف ریڈر) وغیرہ ہوتے تھے
پہلی اسلامی لائبریری کی بنیاد دمشق میں کاتب وحی حضرت امیر معاویہؓ نے رکھی پھر بغداد قاہرہ قرطبہ اشبیلیہ طلیطلہ غرناطہ مراکش نیشاپور اصفہان بصرہ وغیرہ بہت سے اسلامی شہروں میں عظیم الشان لائبریریوں کا قیام عمل میں آیا جن میں دنیا بھر کے علوم و فنون کی بہترین کتابیں اور اس کے ترجمے موجود تھے اس دور میں تمام مساجد میں چھوٹی لائبریریاں ہوتی تھیں اور گھر میں بھی ایک کمرہ یا ہال لائبریری کیلئے خاص طور پر بنایا جاتا تھا گویا حصول علم اورکتب بینی کا ذوق وجنون اسلامی تہذیب و تمدن کا حصہ بن چکا تھا (جس کی بنیاد قرآن نے "اقرأ باسم ربک الذی خلق”کہ کر رکھی تھی) اسی کی بناء پر مسلمانوں نے دنیا کو بہت ساری ایجادات کا تحفہ دیا اور پورے عالم پر چھاتے چلے گئے، لیکن جب کتابوں کی جگہ رقص و موسیقی آرام طلبی تکلفات اور سامان عیش و عشرت کی فراہمی نے لے لی تو مسلمان اپنے علمی سرمائے سے غافل ہو گئےذوق مطالعہ و تحقیق دم توڑ دیا پھر ترقیات کے دروازے بند ہوئے اور مسلمان کمزور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ اقوام عالم بالخصوص اہل یورپ نے ان کے خلاف طالع آزمائی شروع کردی اور مال و متاع کے ساتھ ان کے علمی سرمائے کے بڑے حصے کو بھی یورپ منتقل کر لیا جہاں ان کتابوں کا عربی سے انگریزی جرمن لاطینی اور فرنچ وغیرہ یوروپی زبانوں میں ترجمہ کرکے انہوں نے اپنے لئے استفادے کی راہ آسان کی اور اس پر مزید محنت و جستجو کے ذریعہ ترقیاتی انقلاب برپا کردیا، اس وقت بھی برلن ڈبلن لیڈن اسکوریال لندن آکسفورڈ اور پیرس کی لائبریریوں میں سائنس اور دیگر علوم و فنون کی اصل عربی کتابیں بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کو مسلمانوں کی علم و تحقیق سے دوری اور غفلت شعاری نے وہاں پہنچایا، علامہ اقبال ؒ نے یورپ کا سفر کیا تو وہاں ان کتابوں کو دیکھ کر بڑے ہی حسرت کے ساتھ فرمایا ؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

آج ڈش‌انٹینا انٹرنیٹ اور 4G نے مسلمانوں کی نئی کیا پرانی نسل کے بھی بہت سے افراد کو مدہوش کر رکھا ہے گانا فلموں اور فحش ویڈیو میں صبح سے شام ہو جاتی ہے حتی کہ کئی لوگ وقت اور صحت کی بالکل پرواہ کئے بغیر دیر رات گئے تک بھی انہیں ہوش ربا طلسماتی دنیا میں گم رہتے ہیں۔ایسے حالات نے سماج کو رفتہ رفتہ بے حس بے پرواہ غیر ذمہ دار اور بے شعور بنانا شروع کر دیا ہے جو فرد اور قوم دونوں کیلئے بے حد خطرناک ہے ۔
شعور و احساس ہی پر نیک و بد کی تمیز عزت و ذلت کے احساس اور ترقی و تنزلی کے ادراک کا مدار ہے، شعور کو بیدار کرنے اور عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لئے مسلمانوں کو اپنے گھر اور سماج میں کتابوں کے ذوق کو پروان چڑھانا اور مطالعہ و تحقیق کا جنون پیدا کرنا بے حد ضروری ہے جس کے واسطے محلے کی بڑی مسجد میں لائبریری کے قیام کی کوشش کرنا ایک جگہ کچھ احباب بیٹھیں تو موبائل سے کھیلنے کے بجائے کتابوں کی اہمیت اور کتب بینی کی ضرورت پر بحث کرنا اور جو نئی چیزیں پڑھ رہے ہوں محفل دوستاں کو مہذب بنانے اور احباب کو بھی مطالعے پر ابھارنے کیلئے ان زیر مطالعہ چیزوں کے اہم نکات کو شیئر کرنا روزانہ یا چند دنوں کے وقفے سے کہیں ایک علمی موضوع پر گفتگو اور مذاکرہ کا خاص اہتمام کرنا بچوں اور بچیوں کو بھی موبائل کی لت سے بچاتے ہوئے ان کو اچھی کتابوں کا عادی بنانا ان کو مختلف موقعوں پر تحفے اور انعام میں اچھی کتابیں اور رسالے دینانیز گھر میں ایک وقت مطالعہ کا معمول بنانا وقت اہم کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مطالعہ اور کتب بینی کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر دوراندیشی کا لازمی تقاضہ یہی ہے کہ پوری ہمت کے ساتھ اس کو پھر سے اپنی تہذیب کا حصہ بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش و اقدام عمل میں لایا جائے۔

You may also like

Leave a Comment