محمد علم اللہ
کبھی کبھی کچھ ایسی تحریریں یا کتابیں میسر آجاتی ہیں جن کو پڑھنے کے بعد بے اختیار مصنف یا مترجم کا ہاتھ چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔ حالیہ دنوں میں مجھے ایسی ہی ایک کتاب ہاتھ لگی، جسے میں بجا طور پر ایک بہترین، معلوماتی، تحقیقی، علمی اور ادبی کتاب کہہ سکتا ہوں۔ جس کو پڑھنے کے بعد قاری کچھ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے، پتہ چلتا ہے کہ ایک عام انسان خاص کیسے بنتا ہے۔ یہ کتاب نوٹرے ڈیم یونیورسٹی، امریکہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ابراہیم موسیٰ کے ذریعہ تحریر کر دہ ہے، جس کا نام’’وہاٹ از اے مدرسہ؟‘‘ ہے۔اس کا خوبصورت، رواں اور پرتاثیر اردو ترجمہ فاضل دیوبند اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وارث مظہری نے کیا ہے۔ ترجمہ شدہ کتاب کا نام’’دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے ‘‘ہے۔ کتاب تقریبا 339 صفحات پر مشتمل ہے جسے نعیمیہ اسلامک اسٹور دیوبند نے شائع کیا ہے۔
کتاب کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کے بارے میں کچھ بات کر لی جائے، جن کی محنت اور کوششوں سے یہ کتاب منصہ شہود پر آئی ہے۔ مصنف ایک استاد، ماہرِ اسلامیات اور دانشور ہیں، ان کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے اور ان کے آباء و اجداد ہندوستان کی ریاست گجرات کے تھے، وہ جنوبی افریقہ کے اسکول میں ابھی زیر تعلیم تھے کہ اسی دوران انھیں دینی علوم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس شوق کی وجہ ان کے ایک عیسائی ساتھی کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شدت اور دروغ گوئی پر مبنی ایک کتاب تھی، جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے غلط بیانیوں سے کام لیا گیا تھا۔ کتاب میں لکھی اور عیسائی لڑکوں کے ذریعہ بیان کی گئی باتیں ان معلومات سے میل نہیں کھاتی تھیں جو ان کی والدہ نے انھیں بچپن میں بتایا تھا۔اس تجسس نے ان کے اندر سچ بات جاننے کی جستجو پیدا کر دی، حالانکہ ابھی ان کی عمر محض سولہ سال تھی۔ تلاش حق کے لئے انھوں نے اپنے گھر کے قریب کیپ ٹاون کی ایک لائبریری کا رخ کیا لیکن وہاں بھی ان کی طبیعت کو سیری نہ ہوئی ،اس کے بعد انھوں نے باضابطہ طور پر علم دین کے حصول اور براہ راست قرآن و حدیث کا فہم حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا، جو ہندوستان کے مدارس سے ہوتے ہوئے انھیں کانپور یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لندن اور پھر نوٹرے ڈیم یونیورسٹی لے گیا، جہاں وہ ان دنوں علم کی شمع روشن کرنے میں مصروف ہیں۔
ان کی یہ داستان ان کی اور ان کے گھر والوں کی انجینئر بننے کی خواہش کے برعکس دینی علوم کی جانب پلٹ آنے کی ان کی اپنی خواہش اور دھن سے شروع ہوتی ہے۔ مصنف کا یہ فیصلہ ان کے اہل خانہ پر بجلی بن کر گرتا ہے۔ خصوصاً ان کے والد اس بات کے لئے راضی نہیں ہوئے کہ بیٹے کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ بھیجا جائے۔ باپ کو اس بات کا اندیشہ دامن گیر ہو جاتا ہے کہ بیٹا مدرسہ جانے کی صورت میں محض ایک مسکین مولوی بن کر رہ جائے گا، لیکن مصنف اپنی والدہ اور اپنی خالاؤں کی حمایت کے ساتھ اپنے والد کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ان کی یہ داستان یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ جس کے لئے سب سے پہلے وہ تین ماہ کے لئے تبلیغی جماعت کے لئے نکلتے ہیں اور پھر حالات زمانہ کی ٹھوکریں کھاتے مدرسہ سبیل الرشاد بنگلور کا رخ کرتے ہیں جہاں باضابطہ طور پر داخلہ حاصل کرنے میں انہیں کامیابی مل جاتی ہے اور پھر مدرسہ سبیل الرشاد بنگلور سے ہوتے ہوئے دارالعلوم ماٹلی والا، بھروچ اور دیگر کئی چھوٹے بڑے مدارس کی خاک چھانتے ہوئے، دار العلوم دیوبند اور بعدازاں ندوۃالعلما جیسے معروف دینی اداروں کا نہ صرف قصد کرتے ہیں؛ بلکہ وہاں کے جلیل القدر علما اور اساتذہ سے کسبِ فیض کرتے ہیں۔
‘وہاٹ از اے مدرسہ’ نامی یہ کتاب ساؤتھ افریقہ سے حق کے متلاشی ایک مسافر اور علم کے کوزہ گر کی داستان حیات ہے۔ جس میں اس مسافر نے انتہائی خوبصورت انداز میں ان اداروں اور مدارس میں بتائے ماہ و سال اور شب و روز کی کہانی بیان کی ہے۔ مصنف کی داستان اس قدر دلچسپ اور پر تاثیر ہے کہ پڑھتے وقت کئی جگہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، جیسے وہ کوئی چلتی پھرتی اور متحرک کائنات کو دیکھ رہا ہے۔ متعدد جگہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم ان علاقوں، گلیوں، کوچوں، درجوں، مسجدوں اور اس روحانی و ایمانی فضا کو بالکل اپنے سامنے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن پوری کتاب میں یہ بیانیہ نہیں ہے، اس لئے اسے ایک مکمل خود نوشت یا داستان حیات نہیں کہہ سکتے ہیں۔ مصنف کا اسلوب کہیں کہیں ایک ادیب کی طرح ہے جس میں ندی کی طرح بہاؤ ہے ،تو کہیں وہ ایک صحافی کے روپ میں نظر آتے ہیں اور کہیں وہ ایک محقق اور فلسفی کے انداز میں گنجلک اور پیچیدہ نکات کو بیان کرتے ہیں ،جبکہ کہیں ایک مخلص اور مہربان دوست کی طرح سمجھاتے اور مشورہ دیتے ہیں۔
کتاب مدارس، ان کے مسائل، نصاب، ان میں تبدیلی، تقاضے اور رہن سہن سے لیکر نظام و انداز سبھی کا احاطہ کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں جہاں مصنف اپنے مخصوص انداز میں مدارس کی روحانی فضا، وہاں کے طلبا و اساتذہ کے خلوص اور قال اللہ و قال الرسول کی فضاؤں کی عکاسی کرتے ہوئے تعریف کے ڈونگرے برساتے ہیں، وہیں ان کی کی کمیوں، خامیوں، ضد، ہٹ دھرمی اور متشددانہ رویوں پر بھی سخت الفاظ میں چوٹ اور تنقید کرتے ہیں، جو مسئلہ سے متعلق ان کے درک اور فہم کے علاوہ دردمندی اور تشویش کو بھی واضح کرتی ہے۔
کتاب میں مصنف نے جہاں مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی پر زور دیا ہے، اس کے لئے بدلتے حالات اور ضرورتوں کے تقاضوں کا ذکر کیا ہے وہیں اس بات کا بھی شدید الفاظ میں رد کیا ہے کہ مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں یا وہاں کسی کے خلاف طلبا کو اکسایا یا تیار کیا جاتا ہے۔ تاہم وہ یہ بھی بتاتے جاتے ہیں کہ اپنے مسلک اور فکر کی بنا پر اکثر جگہ تشدد پایا جاتا ہے، جس کی وجہ وہ ”فقہ” کو بتاتے ہیں۔ پالیسی ساز اداروں کو مدارس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے مصنف نے جو خطوط ارسال کئے ہیں ،وہ بھی کتاب میں موجود ہیں، اسی طرح اپنے دو جلیل القدر اساتذہ کو مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی خاطر جو مکتوب لکھا گیا، اسے بھی شامل کیا ہے۔ جو ان کا اپنے اساتذہ کے تئیں جذبہ احترام اور مدارس کے تئیں ان کی فکر مندی اور بے چینی کا غماز ہے۔کتاب میں تقریباً تمام ہی مکاتب فکر کی نمائندہ شخصیات اور مدارس کا ذکر کیا گیا ہے جو درحقیقت کافی وقیع اور معلوماتی ہے۔ یہ کتاب چار حصوں کے اندربارہ ذیلی ابواب پر مشتمل ہے، جن میں پہلا حصہ عملی، تجربات کے عنوان سے ہے جسے چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب: ایک مبتدی طالب علم، دوسرا: طہارت و عبادت، تیسرا علما کی شخصیت۔ اسی طرح دوسرا حصہ تاریخ اور تناظر کے عنوان سے قائم کیا گیا ہے ، چوتھے باب کے تحت مدارس کا آغاز، پانچواں: مدارس کے نصاب میں شامل کتب اور مصنفین کا جائزہ، چھٹا: قلم کی جمہوریت سے کردار و تقویٰ کی جمہوریت تک پر بحث کی گئی ہے۔حصہ سوم: علم کی سیاست کے عنوان سے ہے ،جن میں ساتویں باب میں رسول اللہ کی وراثت کا تحفظ۔ آٹھواں باب: غور و فکر کی راہیں کے تحت ہے۔ جبکہ حصہ چہارم کا عنوان ‘مدارس عالمی تناظر میں’ رکھا گیا ہے۔ اس کے تحت نواں باب: مدارس عالمی سطح پر موضوع بحث، دسواں: مدارس کا مستقبل: قدیم حل طلب سوالات۔ گیارہواں: پالیسی سازوں کے نام خطوط، بارہواں: اساتذہ کے نام خطوط ہے۔ اخیر میں خلاصہ کلام کے عنوان سے پوری کتاب کے ماحصل کو چند صفحات میں بیان کر دیا گیا ہے۔مطالعہ کے دوران مستعمل کتابوں، مضامین اور انٹرویوز کی تفصیلات بھی اخیر میں فراہم کی گئی ہیں جو اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لئے کافی مفید چیز ہے۔
مدرسہ کیا ہے؟
previous post