انگریزوں کی حکومت کے دور میں حکومت کی جانب سے سنسکرت اور مدارس کی تعلیم کی جانب توجہ دی گئی ، اسی دور میں مدرسہ بورڈ اور سنسکرت بورڈ قائم کئے گئے ، سنسکرت بورڈ سے سنسکرت پاٹھ شالے ملحق کئے گئے اور مدرسہ بورڈ سے مدارس ملحق کئے گئے ، اس طرح مدرسہ بورڈ کے قیام کی روایت انگریزی حکومت کے دور سے شروع ہوئی ، بنگال میں مدرسہ بورڈ کا قیام عمل میں آیا ، اور اس کی ابتدا مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ہوئی ، بہار میں 1919میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ،پٹنہ کو حکومت کی تحویل میں دیا گیا ، تو 1922 میں مدرسہ بورڈ بہار و اڑیسہ کا قیام عمل میں آیا ، اسی طرح یوپی میں مدرسہ بورڈ کا قیام عمل میں آیا ، اس طرح موجودہ وقت میں ملک کے اور بھی صوبوں میں مدرسہ بورڈ قائم کئے گئے ، بورڈ سے ملحق مدارس کی کچھ خصوصیات پیش ہیں :
(1) مدارس ملحقہ کا نصاب تعلیم دینی اور عصری دونوں مضامین پر مشتمل ہے۔
(2) مدارس ملحقہ کا نظام تعلیم درجات پر مشتمل ہوتا ہے ، یعنی جس طرح عصری اداروں میں پرائمری ،سکنڈری ، ہائیر سیکنڈری ، گریجویش اور وغیرہ ہوتے ہیں ،اسی طرح بورڈ کے مدارس بھی درجات پر مشتمل ہوتے ہیں۔
(3) ہر درجہ کا باضابطہ امتحان ہوتا ہے ، نیچے کا درجہ پاس کرنے کے بعد ہی اوپر کے درجہ میں داخلہ ہوتا ہے۔
(4) اس کی سرٹیفیکیٹ اور ڈگری حکومت سے منظور ہوتی ہے ، ایڈمیشن کے لئے بھی اور ملازمت کے لئے بھی ۔
(5) مدارس کے سرٹیفیکیٹ اور ڈگری پر سرکاری ملازمت ملتی ہے۔
(6) حکومت کے بہت سے عہدے ہیں ، جن میں مدارس کے فارغین اپنی صلاحیت اور ڈگری کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرتے ہیں۔
(7) مدارس ملحقہ ہر صوبے میں کافی تعداد میں ہیں ، ان میں مدارس کے فارغین تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں ، تدریسی ملزمین کے علاؤہ ملازمین کی ایک بڑی تعداد ہے ، بہار میں مدارس ملحقہ کا مضبوط نظام ہے ،ان میں اساتذہ ملازمین کی تعداد بہت زیادہ ہے ،یہی حال دیگر صوبوں کا بھی ہے۔
جہاں تک مراعات کی بات ہے تو مدارس ملحقہ کو سرکار کی جانب سے مندرجہ ذیل مراعات دی جاتی ہیں:
(1) اساتذہ و ملازمین کی تنخواہ کے لئے رقم ،اکثر صوبوں میں سرکاری شرح اسکیل کے مطابق تنخواہ ادا کی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے تنخواہ کا معیار کافی بلند ہوا ہے ، بہار میں مدارس ملحقہ کے اساتذہ کی تنخواہ تقریبا 40000/ چالیس سے 50000/ پچاس ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔
(2) بلڈنگ فنڈ : مدارس کی عمارت کی تعمیر کے لئے حکومت کی جانب سے رقم دی جاتی ہے ،جس کی وجہ سے عمارت کی تعمیر میں آسانی ہو جاتی ہے ۔
(3) اسکالر شپ : طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے حکومت کی جانب سے اسکالر شپ بھی دیا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے مالی اعتبار سے کمزور طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
(4) لائبریری فنڈ : مطالعہ کے لئے کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے ، اس کے لئے لائبریری اور لائبریری میں کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے ، بہت سے بڑے مدارس میں لائبریری کا انتظام ہے ، حکومت کی جانب سے لائبریری کے لئے رقم بھی دی جاتی ہے ۔
مدارس ملحقہ میں بڑی تعداد میں فارغین مدارس کی تقرری ہوتی ہے ، اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ ان مدارس کے سرٹیفیکیٹ اور ڈگری کو حکومت کی جانب سے منظوری حاصل ہے ،جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں ان کے فارغین مدارس اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں میں تقرری ہوتی ہے ، اگر یہ ادارے نہ ہوں تو اسکول ،کالج اور یونیورسیٹی میں اردو ،فارسی اور عربی کے اکثر عہدے خالی رہ جائیں گے ، اس کے علاوہ دیگر سرکاری عہدے بھی ،جن میں اردو جاننے والوں کی بحالی ہوتی ہے ،یہ عہدے بھی خالی رہ جائیں گے ، اس طرح بڑی تعداد ان فارغین کی بھی ہے ،جو مدارس کے علاوہ دیگر سرکاری عہدوں پر بحال ہوتے ہیں۔
تعلیمی اعتبار سے بھی ان کی اہمیت مسلم ہے ، ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، ان کے طلبہ کی نظر عصری تقاضوں پر ہوتی ہے ، اس لئے وہ ان مضامین میں محنت کرتے ہیں اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں ، البتہ کچھ کمی ہے تو یہ وقت کا اثر ہے ، اس کو دور کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ملی قائدین میں سے کسی کا نہایت ہی افسوسناک بیان آیا ہے کہ سرکار بورڈ کے مدارس کو رقم دینا بند کردے ، وہ جوش میں یہ بھی کہتے نظر آرہے ہیں کہ سرکاری فنڈ اس کام کے لئے نہیں ہے ، ان کا یہ بیان نہایت ہی افسوسناک ہے ، ان کا بیان وہی ہے جو بی جے پی کے لوگ کہتے ہیں ، انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ اس سے ان کے بھی ایک بڑے طبقہ کو نقصان پہنچے گا ، بورڈ سے ملحق بڑی تعداد ہیں وہ مدارس بھی ہیں ،جن کو جمعیت علما کے لوگ چلاتے ہیں ، تقریبا 40/ فیصد اساتذہ جمعیت علماء ہند سے وابستہ ہیں ، ان کا کیا حال ہوگا ،انہوں نے اس پر بھی غور نہیں کیا کہ ان کے اس بیان سے اس حکومت کو تقویت ملے گی ،جو بورڈ کے مدارس کو بند کرنے کے لئے تیار ہے ، آسام نے بند کردیا ہے ، دیگر کئی صوبے اس طرح کا اعلان کر رہے ہیں ،جبکہ انہیں بیان دینے سے پہلے غور کرنا چاہئے تھا کہ یہ مراعات جو سرکار کی طرف سے دی جارہی ہے، ،یہ صرف مدارس کو نہیں ،بلکہ سنسکرت پاٹھ شالاوں کو بھی دی جارہی ہے اور حکومت کی جانب سے مراعات دیا جانا ملک کے آئین کے مطابق ہے اور مسلم سماج کے لوگ بھی اس ملک کے باوقار شہری ہیں ، یہ بھی حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں ، اس طرح یہ بھی سرکارسے مراعات حاصل کرنے کے حق دار ہیں ، ایسے وقت میں جبکہ ملک میں نفرت کی فضا قائم کردی گئی ہے ، فرقہ پرستوں کی جانب سے مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے ، خاص طور پر ایسے مدارس کے سلسلے میں اس طرح کا بیان دینا فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت پہنچانا اور مدارس کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ اللہ تعالی مدارس کی حفاظت کرے ۔
مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کو سرکاری مراعات سے محروم کرنے کی بات نہایت ہی افسوسناک- مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
previous post