Home تجزیہ مدارسِ اسلامیہ،رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ اور نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020-ابودرداء معوذ

مدارسِ اسلامیہ،رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ اور نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020-ابودرداء معوذ

by قندیل

رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ 2009 (RTE 2009) 6 برس سے 14 برس تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرانے کے لیے حکومتوں کو پابند بناتا ہے کہ وہ تعلیمی نظام کو اِس مقصد سے ہم آہنگ بنائیں۔ چونکہ یہ قانون تعلیمی اداروں کو حکومت کے تحت لاتا ہے، اِس لیے مسودے کی صورت میں سامنے آتے ہی یہ سوال سامنے آ گیا تھا کہ کیا اِس قانون کے تحت مدرسے بھی حکومت کے تحت آئیں گے؟ اِس سوال پر مسلم تنظیموں نے اُس وقت تحریک چلائی تھی اور اِس سوال کا واضح جواب اُسی وقت آ گیا تھا کہ مدرسے اِس قانون کے تحت نہیں آتے۔

یہ ایکٹ گزیٹ آف انڈیا میں 27 اگست 2009 کو شائع ہوا ہے۔ اور اِس ایکٹ کے تحت وزارتِ انسانی بہبود کے شعبۂ تعلیم کی ایک گائیڈ لائن 23 نومبر 2010 کو شائع ہوئی ہے۔ اِس گائیڈ لائن کی دفعہ 2 یہ ہے:

"مدارس اور ویدِک پاٹھ شالا جیسے ادارے جو مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو خصوصی تعلیم مہیا کرتے ہیں، اُنہیں آئینِ ہند کی دفعات 29 اور 30 کے تحت حفاظت حاصل ہے۔ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ ایسے اداروں کے جاری رہنے اور ان اداروں کے طلبا کے حقوق کا راستہ نہیں روکتا ہے۔”

آئین کی دفعہ 29 اور 30 میں اقلیتوں کو اپنی تہذیب کے تحفظ اور اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا خصوصی اختیار مہیا کیا گیا ہے۔

27 جولائی 2011 کو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ نے کسی پروگرام میں فرمایا کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ مدارس کی خود مختاری کے خلاف ہے، لہٰذا ہم اِس کے خلاف ہیں۔ اِس بیان کا نوٹِس لے کر وزارتِ انسانی بہبود نے دوبارہ باضابطہ بیان جاری کر کے اپنے 23 نومبر 2010 کے گائیڈلائن کا حوالہ دیا (جو اوپر درج ہے)، اور مدارس کو آر ٹی آئی سے مستثنیٰ قرار دیا۔ اِس بیان میں وزارت نے یہ بھی وضاحت کی کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ میں "اسکول” کی جو تعریف کی گئی ہے، مدارس اُس تعریف کے دائرے میں ہی نہیں آتے۔

چنانچہ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ مدارس، رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ سے مستثنیٰ ہیں۔ البتہ متعلقہ وزارت، مدارس میں معیاری اور جدید تعلیم کے فروغ کی اسکیم قائم کرتی ہے۔

گذشتہ چند برسوں میں اطفال کمیشن اور حکومت کی ایڈوائزری کمیٹی کی جانب سے حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ چونکہ مدارس کے نصاب میں تمام ضروری علوم شامل نہیں ہیں، اِس لیے مدارس کے طلبا گویا اسکول سے محروم بچے ہوتے ہیں، لہٰذا مدارس کو بھی رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کے تحت لایا جائے۔ مدارس کو رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کے دائرے میں لائے بغیر نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں ان مشوروں پر کچھ اِس طرح نوٹِس لیا گیا ہے؛

نیشنل ایجوکیشن پالیسی کا طویل مسودہ جو 2019 میں آیا تھا، اُس کے چیپٹر 6.5.2 میں مدارس اور دیگر مذاہب کے مذہبی تعلیمی اداروں کے لیے اُن کے روایتی تعلیمی نظام کے تحفظ کا حق محفوظ قرار دیا گیا، نیز اُن اداروں میں عصری علوم کے فروغ کی حوصلہ افزائی کا اظہار کِیا گیا۔
ان اداروں میں عصری علوم کے فروغ کو چار نکات میں بیان کیا گیا ہے؛
1. میتھس، سائنس، سوشل اسٹڈیز اور ہندی و انگریزی وغیرہ کی تعلیم کے لیے ان اداروں کو معاشی مدد دی جائے گی۔
2. ان اداروں کے طلبا کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ اسٹیٹ بورڈ ایکزامس اور نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی ایکزامس میں حصہ لیں تاکہ ہایَر ایجوکیشن کے اداروں میں داخلہ لے سکیں۔
3. مذکورہ علوم کے لیے اساتذہ کو ٹریننگ دی جائے گی۔
4. مذکورہ علوم سے متعلق لیبارٹریز اور لائبریریز مہیا کی جائیں گی۔
اِن میں سے کسی بات کو مدارس یا ان جیسے اداروں پر لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے۔

اِس ایجوکیشن پالیسی کے بعد بھی مدارس کو حاصل خود مختاری جو آئین کی دفعات 29 اور 30 کے تحت وزارتِ انسانی بہبود کے 23 نومبر 2010 کے گائڈ لائن میں مہیا کی گئی ہے، وہ برقرار اور محفوظ ہے۔

ڈاؤن لوڈ و آن لائن لِنکس:
23 نومبر 2010 کی وزارتِ انسانی بہبود کی گائیڈلائن، جس میں مدارس کو رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ سے مستثنی قرار دیا گیا:
https://drive.google.com/file/d/1EHFiS6XKoRlhl2GYMaKrPgAMsieZLVar/view?usp=drivesdk

جولائی 2011 میں حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی صاحب مدظلہ کے بیان پر وزارتِ انسانی بہبود کے بیان کی خبر:
https://www.thehindu.com/news/national/madrasas-exempted-from-rte-act-centre/article2306261.ece

نیشنل ایجوکیشن پالیسی مسودہ 2019:
https://drive.google.com/file/d/1EVjgROsOyg4SFN0TzKoZDzZvuGDrwdy2/view?usp=drivesdk

نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020:
https://drive.google.com/file/d/1EHMjeX15tFlG3Yqu3rFsGqLGzxd2uZ6K/view?usp=drivesdk

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment