Home تجزیہ مدارس پر سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ -سہیل انجم

مدارس پر سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ -سہیل انجم

by قندیل

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ اپنی مدت ملازمت کے آخری دنوں میں کافی متنازع ہو گئے ہیں۔ لیکن انھوں نے جاتے جاتے اترپردیش کے مدارس کے بارے میں ایک قابل ستائش بلکہ تاریخی فیصلہ سنا دیا ہے۔ جس کی غیر جانبدار میڈیا میں کافی ستائش ہو رہی ہے۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ وہ دس نومبر کو سبکدوش ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ پر جسٹس سنجیو کھنہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے جا رہے ہیں۔ ڈی وائی چندرچوڑ نے مدارس کے سلسلے میں جو تبصرے کیے ہیں ان کی ستائش نہ کرنا بخالت ہوگی۔ لہٰذا ہم ان کے ریمارکس کی تعریف کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ کہہ کر کہ ہندوستان کا صدیوں پرانا مشترکہ کلچر ہے، اس کی جامع تہذیبی و ثقافتی تاریخ ہے، اس کو اس طرح ختم کرنے کی خواہش نہیں کی جا سکتی، انھوں نے اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ 2004 کو غیر آئینی قرار دینے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ ایک بچے کو نہانے کے پانی کے ساتھ باہر پھینک دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 میں اس وقت کی ملائم سنگھ یادو کی حکومت نے منظور کیا تھا۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک عذرداری پر سماعت کرتے ہوئے مدارس کے خلاف انتہائی سخت تبصرے کیے تھے اور مذکورہ ایکٹ کو خارج کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ مدرسوں کے تمام طلبہ کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرے۔ اس فیصلے کے خلاف اہل مدارس، انسانی حقوق کے کارکنوں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا تھا اور مدارس سے متعلق متعدد تنظیموں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہندوستان میں مدارس کی صدیوں پرانی تاریخ ہے۔ جنگ آزادی میں ان کی سرگرم شرکت رہی ہے۔ ملک کو آزاد کرانے میں انھوں نے بے حد اہم کردار ادا کیا تھا۔ مدارس کے لاکھوں فارغین نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جس کی وجہ سے انگریزی حکومت نے لاکھوں علما کو سزائے موت دی تھی۔ ان کو پھانسیاں دی گئیں اور ان کی لاشیں درختوں پر لٹکائی گئیں۔ علما نے ہی برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا۔ لہٰذا اس کے نزدیک اس کے سب سے بڑے دشمن مسلمان اور بالخصوص علما ہی تھے۔ علما نے انگریزی تعلیم کے خلاف حکم صادر کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ حکم دانشمندانہ اور وقت کے تقاضے کے مطابق نہیں تھا۔ دنیا کی کوئی بھی زبان ایسی نہیں ہے کہ اسے سیکھنے سے کوئی نقصان ہوتا ہو۔ آدمی جتنی زیادہ زبانیں جانے اس کا اتنا ہی فائدہ ہے۔

مدارس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہاں انتہاپسندی کی تعلیم دی جاتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ مدارس دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ دقیانوسی تعلیم دیتے ہیں جو کہ زمانے کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے مدارس میں عصری تعلیم کا انتظام نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان مدارس سے نکلنے والے طلبہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس کے امتحانوں میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں۔ ہندوستان کے میزائل مین ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام مدرسے کے تعلیم یافتہ تھے۔ ہندوستان کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد مدرسے کے فیض یافتہ تھے۔ علیٰ ہذا القیاس۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب مدار س نے اپنے نصاب میں تبدیلی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اب ان میں بھی انگریزی اور دیگر عصری علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ لیکن بہرحال مدارس کے قیام کا مقصد دینی تعلیم دینا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اب بھی ان مدارس کے نصاب میں مرکزیت دینی تعلیم کو حاصل ہے۔ حالانکہ ماضی میں انہی مدارس سے جدید علوم کے بے شمار ماہرین پیدا ہوئے۔

بہرحال سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران کہا کہ ہم نے یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے آئینی جواز کو برقرار رکھا ہے کیونکہ کسی بھی قانون کو اسی صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے جب ریاست میں قانون سازی کی اہلیت نہ ہو۔ مذکورہ ایکٹ کا مقصد مدارس میں تعلیم کی سطح کو معیاری بنانا ہے۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران مکل روہتگی کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سیکولرزم کا مطلب ہے جیو اور جینے دو۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایکٹ مدارس کے یومیہ کام کاج میں مداخلت نہیں کرتا۔ مدارس کو ریگولیٹ کرنا قومی مفاد میں ہے۔ اقلیتوں کو الگ تھلگ کرکے ملک کی سیکڑوں سال کی جامع ثقافت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اچھی بات رہی کہ یوپی حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف موقف اختیار کیا۔ بینچ کے ایک سوال کے جواب میں حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کے ساتھ کھڑی ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ کو پورے قانون کو غیر آئینی قرار نہیں دینا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس کے مطابق بہ فرض محال اگر ہم ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں اور اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم انھیں الگ تھلگ کر رہے ہیں اور انھیں قومی دھارے میں لانے کے لیے کوئی قانونی کوشش نہیں کر رہے۔ ہمیں اس معاملے کو ملک کے وسیع تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ مذہبی ہدایات صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہیں۔ وہ ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں وغیرہ کے لیے بھی ہیں۔ یہ ملک مختلف تہذیبوں، ثقاتوں اور مذہبوں کا ملک ہے۔ ہمیں اس ثقافت کو محفوظ رکھنا ہے۔ بینچ نے سوال کیا کہ مدراس کو بعض بنیادی معیارات کی پابندی کے ساتھ مذہبی ہدایات کی فراہمی کو تسلیم کرنے والے قانون میں غلط کیا ہے۔ پورے قانون کو ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے ادارے غیر منظم بنے رہیں۔ اس نے مزید کہا کہ اس بات کا غلط مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے۔ کیونکہ اسے مدارس کے طلبہ کو مساوی تعلیم فراہم کرنے کی فکر ہے۔ اس کے مطابق ملک میں مذہبی ہدایات کبھی بھی بیجا نہیں تھیں۔

ادھر نیشنل کمیشن فار چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ ان مدارس کا رجسٹریشن ختم کر دے جو حق تعلیم ایکٹ ’رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ2009‘ کی پابندی نہیں کر رہے ہیں۔ اس نے مدارس کے طلبہ کو ریگولر اسکولوں میں داخل کرانے کی بھی ہدایت دی تھی۔ یہ حکم نامہ ریاست کے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار مدارس کو ارسال کیا گیا تھا۔ اس ہدایت کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کی ہدایت کی روشنی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمیشن مدارس کو بند کرانا چاہتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 21 اکتوبر کو ریاستی حکومت کو کمیشن کی اس ہدایت پر عمل کرنے سے روک دیا تھا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کمیشن کی ہدایت کے خلاف عدالت میں داخل جمعیت علما ہند کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ مدارس کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ بہت خطرناک ہدایت ہے۔ اس سے تمام مدارس کو دہشت گرد بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ حکومت نے مدارس کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ اس نے حکومت کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں مدارس کو کلین چٹ دی ہے۔ اس کے باوجود مدارس کے خلاف سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ نے اس ہدایت کی مخالفت کی تھی۔ بورڈ کے ایک وفد نے جولائی میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کرکے اس حکم نامے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ جیسے بعض ریاستی حکومتیں اسلامی مدارس کو ختم کر دینا چاہتی ہیں۔ آسام میں تقریباً تیرہ سو مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ البتہ اچھی بات یہ ہے کہ ان کے اساتذہ کو ہٹایا نہیں گیا ہے۔ جبکہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں اساتذہ کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا تھا جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ جن مدارس کی امداد بند کی جائے گی اور جن کے طلبہ کو اسکولوں میں داخل کرایا جائے گا ان کے اساتذہ بے روزگار ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے مدارس کو ملنے والی امداد کے مطابق پرائمری سطح کے اساتذہ کو کم از کم پچاس ہزار، اوپری درجے کے اساتذہ کو اسّی ہزار اور نظماءکو ایک لاکھ روپے تنخواہ ملتی ہے۔ یہ معاملہ اپنی جگہ پر ہے کہ امداد یافتہ مدارس کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا تھا لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مدارس میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے علما کی جانب سے انتظامیہ کو دس دس اور بیس بیس لاکھ روپے تک کی رشوت دی جاتی ہے۔ اس بارے میں علما یا پھر مفتی حضرات ہی کوئی رائے دے سکتے ہیں کہ کیا رشوت دینا جائز ہے۔

بہرحال سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں فی الحال یوپی کے مدارس پر خطرے کی جو تلوار لٹک رہی تھی وہ ہٹ گئی ہے۔ لیکن دوسری تلوار کب اور کس شکل میں لٹکا دی جائے کہا نہیں جا سکتا۔ حکومت اور این سی پی سی آر کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مدارس تعلیم کو عام کرنے کی حکومت کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ حکومت کو ان مدارس کا شکر گزار ہونا چاہیے جو اس سے مالی امداد نہیں لیتے۔ وہ ملک کے خزانے پر بوجھ بننے کے بجائے اپنے اخراجات خود پورے کرتے ہیں۔ مدارس کو بند کرنے یا ان کے طلبہ کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرانے کی کوششوں کے بجائے ان کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور یہ کام حکومت کو نہیں بلکہ مدارس کے ذمہ داران کو کرنا چاہیے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like