Home تجزیہ مدارس کو ہندی میڈیم میں تبدیل کرنا ضروری !-نقی احمد ندوی

مدارس کو ہندی میڈیم میں تبدیل کرنا ضروری !-نقی احمد ندوی

by قندیل

تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عثمانی خلافت کے زمانہ میں ۵۱۵۱ ء میں سلطان سلیم اول کو اس دور کے علماء نے مجبور کیا کہ وہ پرنٹنگ پریس کے استعمال اور عربی اور ترکی زبان میں کتابوں کے پرنٹ کرنے پر نہ صرف پابندی لگادیں بلکہ اس پر موت کی سزا دی جائے۔ اس ایک قدم نے امت اسلامیہ کو علم کے میدان میں صدیوں پیچھے ڈھکیل دیا، علما کی اس روش پر یقین اس لیے کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی انگریزی کو انگریزوں کی زبان ہونے کی وجہ سے پڑھنا ممنوع قرار دیا گیااور ہندوستان کے علما اس بات پر سو سال تک بحث میں مشغول رہے کہ انگریزی مدارس میں پڑھانا بہتر ہے یا نہیں۔ اب ایک صدی گذرنے کے بعد انگریزی کی ابتدائی تعلیم شروع کی گئی ہے۔
ہمارا یہی معاملہ ہندی کے ساتھ بھی رہا ہے۔ چنانچہ اردو زبان گرچہ صرف مسلمانوں کی زبان نہیں تھی بلکہ پورے متحدہ ہندوستان کی زبان تھی مگر زبان کو بھی مذہب سے جوڑ دیا گیا، پاکستان نے اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت دے دی تو بھارت نے ہندی زبان کو۔ جومسلمان ہندوستان میں رہ گئے انھوں نے اردو کی بچی کھچی وراثت کو اپنے سینوں سے لگاۓ رکھا اور اسکے تحفظ وبقا کے لیے کوششیں کرتے رہے۔ مگر جو غلطی ہندوستان کے بٹوارے کے وقت کی گئی اور زبان کو مذہب سے جوڑدیا گیا وہی غلطی آج تک ہندو قوم تو کرہی رہی ہے مگر مسلم قوم بھی اسی غلطی کو دہراتی چلی جارہی ہے۔ چنانچہ مسلمانوں نے ہندی زبان کو ہندو کی زبان کے طور پر تسلیم کیا اور اسے کبھی بھی وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہیے تھی، حالانکہ کوئی بھیزبان نہ تو ہندوہوتی ہے اور نہ مسلم، آج بھی بہت سارے سکھ اردو پڑھتے اور جانتے ہیں اس کامطلب یہ نہیں کہ اردو سکھوں کی زبان ہوگئی۔ ہم نے اردو کو اپنی زبان مان لیا اور ہندی سے کنارہ کشی اختیار کرلی، اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہماری ساری تنظیموں، علمی اداروں اور مدارس ومکاتب کی زبان اردو بنادی گئی۔ ہم نے اپنے مدارس کی تعلیم کا میڈیم اردو رکھااور آج ہندوستان میں کوئی بھی ایسا مدرسہ موجود نہیں جس میں تعلیم کا میڈیم ہندی زبان ہو۔ ہندی زبان ہندوؤں کی زبان نہیں تھی وہ ایک ایسے ملک کی زبان تھی جس میں ہمیں جینا اورمرنا تھا مگر اس کو ہم نے ہمیشہ غیر سمجھا اور ہم نے اس زبان کی حیثیت اور اس کے بولنے والوں کو ہمیشہ نظرانداز کیا۔
آج سے تقریبا سو سال پہلے علامہ شبلی نعمانی نے مدارس کے اندر ہندی اور سنسکرت پڑھانے کی تجویز پیش کی تھی اور اسکا تجربہ بھی کیا تھا مگر میرے خیال میں صرف ہندی اور سنسکرت پڑھانے سے اب کام نہیں چل سکتا اگر اب بھی ہم نے تاخیر کی تو بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ مدارس کی تعلیم کو ہندی میڈیم میں تبدیل کرنے یا کم از کم نئے مدارس کو ہندی میڈیم میں کھولنے کی کیوں ضرورت ہے، اسکے کئیوجوہات ہیں:
نمبر ۱: ہندی بیلٹ میں رہنے والے لوگوں کی زبان ہندی ہے اور ہندی زبان میں اسلامی علوم کے ذخائر بالکل مفقود ہیں،کیا اس زبان میں اسلامی علوم کی منتقلی ہمارا دینی فریضہ نہیں؟
نمبر ۲: جن لوگوں میں دعوت کا کام کرنا ہے ان کی زبان ہندی ہے لہذا یہ کون سی دانشمندی ہے کہ جس کو دعوت دینی ہے اس کی زبان کوئی اور اور داعی کی زبان کوئی اور، اگر کسی عالم دین کو کہاجائے کہ کسی ہندو بھائی کے بیچدس منٹ اسلام کا اچھی ہندی میں تعارف کرائیں تو کتنے ایسے علماء پایے جاتے ہیں جو ہندی زبان میں اسلام کا تعارف پیش کرسکتے ہیں،شاید بہ مشکل دوچار نکل آئیں۔
نمبر ۳: مسلم طلباء کی صرف ۵ فیصد تعداد مدارس میں تعلیم حاصل کرتی ہے جبکہ ۵۹ فیصد اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے اور اسکولوں کے ہندی میڈیم ہونے کے باعث پچانوے فیصد مسلم طلبا کی زبان ہندی ہے، اردو تو وہ جانتے نہیں اوراگر جانتے ہیں تو بہت ہی کم۔ اتنی بڑی تعداد ہمارے دینی ورثہ کے ہندی میں نہ ہونے کی وجہ سے ان سے استفادہ نہیں کرسکتے، آخر ان کی دینی ضروریات کی تکمیل کیسے ہوگی؟
نمبر ۴: مدارس کے علما وفضلاکی زبان ثقیل اور گاڑھی ہونے کے باعث اسکولوں سے نکلے ہوئے مسلم عوام کے لیے دن بدن ناقابل فہم ہوتی جارہی ہے۔
نمبر ۵: ہندی زبان میں تعلیم دینے کے باعث مدارس کے طلبا کے لیے بہت حد تک کچھ سیکٹرس جیسے، ہندی میڈیا اور اسکے علاوہ دیگر سرکاری محکموں میں بھی نوکریاں حاصل کرنے کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں، خاص طور پر ہندی میڈیا اپنے ملک کی مین اسٹریم میڈیا ہے، اگر ہندی میں مدرسوں میں تعلیم دی جائے تو بہت سارے فارغین ہندی میڈیا میں ایک اہم رول ادا کرسکتے ہیں، ان کے اندر صلاحیت ہوتی ہے صرف ہندی زبان نہ آنے کی وجہ سے وہ اس سے دور ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں پھیلے پرنٹ میڈیا کے اندر بہت ہی آسانی کے ساتھ ہمارے یہ نوجوان ایک مثبت رول نہ صرف اپنی قوم کے لیے بلکہ اپنے ملک کے لیے اداکرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا میں جو زہر اگلا جاتا ہے اسکا مقابلہ جتنے اچھے اور مثبت انداز میں مدرسے والے کر سکتے ہیں اس کی اسکول اور کالجز کے فارغین سے توقع نہیں کی جاسکتی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی طبقہ ہندی سے نابلد ہے۔
نمبر ۵: اس کے علاوہ ہم نے اردو زبان میں تو اسلامی علوم کا ذخیرہ جمع کردیا مگر کیا ہندی زبان میں کوئی قابل قدر علمی دینی خدمات انجام دیں، آنے والی نسلیں اردو پڑھنے والی نہیں ہوں گی اس حقیقت کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے اوراگر ہم نے ان کے لییکوی علمی سرمایہ نہیں چھوڑا تو کیا وہ اپنے دینی اور علمی ورثہ سے محروم نہیں ہوجایں گی؟
نمبر ۶: اردو کی بقا کی ذمہ داری ہم مسلمانوں پر ہے مگر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑیگا کہ آہستہ آہستہ اردو کمزور ہوتی جارہی ہے اور ہوتی جائیگی اور اس کے لیے تعصب پسند پارٹیاں کوشش کررہی ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اردو کو چھوڑ دیں اور ہار مان لیں، نہیں بلکہ اردو کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہندی کو ہندووں کی زبان نہ سمجھ کر اور اس سے تعصب نہ کرتے ہوئے اسے اپنے ملک کی ایک رائج زبان کا درجہ دیں اور اس کو اختیار کریں ورنہ آنے والی نسل اردو سے تو محروم ہوگی ہی، اپنے دینی اور علمی ورثہ سے بھی نابلد رہے گی، جس پر آج ہمارے مدارس محنت کررہے ہیں اور ہمارا دینی اور اسلامی ورثہ یوں ہی پڑا رہ جائے گا اور اس کو کوئی سمجھنے ولا اپنے ملک میں نہ ہوگا۔ اس کی مثال فارسی زبان ہے، ایک زمانہ تھا کہ فارسی علم وتعلیم کی زبان تھی، مگر چاہے وجوہات جو بھی ہوں اب صرف ایران میں سمٹ کر رہ گئی ہے، اسی طرح اگلے پچاس سال میں اردو بھی پاکستان تک سمٹ کر رہ جائیگی اور ہم چاہتے ہوئے بھی ہندوستان میں اسے نہیں بچا سکتے کیونکہ وہی زبانیں زندہ رہتی ہیں، جن کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہواور ہماری حکومتوں کا جو رویہ پچھلے ستر سالوں میں رہا ہے اس کو دیکھتے ہوے ہمیں اپنے تجربات کو سامنے رکھنا ہوگا اور اپنی اسٹریٹیجی بدلنی ہوگی۔
ہمارے پاس اب بھی وقت ہے کہ ہم خود ہی اس زبان کو اختیار کرلیں اور اس میں اپنا دینی اور مذہبی ورثہ منتقل کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے صرف ہندی ایک سبجکٹ کے طور پر مدارس میں پڑھادینا کافی نہیں ہے جب تک ہم اس زبان کو اپنے مدارس میں تعلیم کا میڈیم بناکر اس پر پوری طرح کام نہیں کریں گے، اس وقت تک متوقع نتیجہ حاصل ہونے کی امید نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام مدارس کو ہندی میڈیم میں بدل دینا چاہیے مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ بیشتر مدارس یا کم از کم نئے مدارس جو قایم ہورہے ہیں ان کو ہندی میڈیم ضرور اختیار کرنا چاہیے۔
جہاں تک اردو زبان کے تحفظ وبقاکا سوال ہے تو آپ اپنی کوششیں جاری رکھیں،مگر یاد رکھیں کوی زبان اپنے زمانہ کے لحاظ سے خو د بخود بنتی اور ختم ہوتی ہیں اور اس کے بہت سارے عوامل ومحرکات ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ اپنے دورکی زبان سے دوری، اس کے اندر اپنے مذہبی اور علمی سرمایہ کو منتقل نہ کرنا، اور ایک محدود زبان کو اپنی مذہبی زبان قرار دیکر ملک کی اکثریتی آبادی کی زبان سے تغافل برتنا کسی بھی قوم کے حق میں بہتر نہیں اور جسکے اثرات اب اپنے ملک میں ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اگر ہم نے زمانہ کے لحاظ سے چلنا نہ سیکھا اور اپنے اند ر تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی تو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آنے والا کل ہمار ے آنے والی نسلوں کے مزید مشکلیں لے کر آسکتا ہے، ہمارے اور ہمارے ملک کے حالات اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ اب تبدیلی ضروری اور ناگزیر ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment