(قسط اول)
یہ ایک حقیقت ہے کہ مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی عمارتیں بلندوبالا اور پرشکوہ ہونی چاہئیں اور لال قلعہ جیسے حفاظتی اسباب مہیا ہوں کہ بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جاسکے؛ بلکہ مدارس اسلامیہ دین اسلام کے فکری قلعے ہیں؛ جن میں باصلاحیت، اصحاب فکر وبصیرت اورعلوم عقلیہ ونقلیہ سے لیس ماہرین فن علما واساتذہ ہونے چاہئیں جو ایک طرف تو اپنے ہی جیسے ماہرین فن پیدا کریں اور دوسری طرف داخلی وخارجی فکری یورشوں کا بھرپور مقابلہ کریں اور دین اسلام کی حقانیت عوام الناس کے سامنے پیش کریں جس سے عوام الحادو بے دینی اور سرکشی وبے راہ روی سے محفوظ ہوں۔
دنیا کا ہر طبقہ اپنے ڈیفنس سسٹم(دفاعی نظام) پر سب سے زیادہ خرچ کرتا ہے ۔ پہلے زمانےمیں جب تیر وسنان سے جنگیں ہوا کرتی تھیں تب شاہان وقت سب سے زیادہ پیسے اپنے مضبوط قلعوں اور اس کی در ودیوار پر خرچ کیا کرتے تھے، ہندوستان میں آگرہ ودلی کے لال قلعے، لکھنؤ کا بھول بھلیاں اور ان جیسی دسیوں عمارتوں کا آج بھی معائنہ کیا جاسکتا ہے۔دوسرے نمبر پر ان کے سب سے زیادہ پیسے فوج اور اس کے تربیتی نظام پر خرچ ہوتے تھے۔ آج زمانہ بدل گیا ، اس لیے ملک کی معیشت کا سب سے بڑا حصہ جدید قسم کے اسلحے بنانے اور خریدنے پر خرچ کیا جاتا ہے اور دوسرے نمبر پر فوج اور اس کے تربیتی اداروں پر خرچ کیا جاتا ہے؛ چوں کہ اس دور کی جنگ میں سب سے اہم جدید ٹکنالوجی سے لیس ہتھیار واسلحے ہی ہیں۔جس کے پاس جتنا زیادہ جدید اسلحہ ہے وہ اتنا بڑا سوپر پاور ہے۔
ہم اپنے مدارس کے نظام میں شاید یہ طے نہیں کر پارہے ہیں کہ ہمارے اس "مضبوط قلعہ/دفاعی سسٹم” میں سب سے اہم کون ہے؟ اساتذہ، طلبہ یا پھر مدرسے کی پرشکوہ اور بلند وبالا عمارت؛چنانچہ بجاے اس کے کہ مدارس کی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ مدارس کے اساتذہ پر خرچ کیا جاتا ،انھیں اتنی معمولی تنخواہیں دی جاتی ہیں جو ایک مڈل کلاس(اوسط درجے کی) زندگی گزارنے کے بھی لائق نہیں ہوتیں، بیشتر اساتذہ جن کا کوئی بیک سپورٹ (پشتینی تعاون) نہ ہو مالی تنگی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے لیے تمام مہتممین کو الزام کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنا یقینا انصاف کے تقاضے کے خلاف ہوگا، بہار اور یوپی جیسے غریب صوبہ جات میں مدارس کی بڑی تعداد ایسی ہے جو خوش حالی کے ساتھ نہیں چل پاتے، اساتذہ کی جو تنخواہیں مقرر کی جاتی ہیں وہ بھی بمشکل ادا کرپاتے ہیں؛ وہیں ہندوستان بھر میں مدارس کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو”مناسب تنخواہ” دینے کی استطاعت رکھنے کے باوجود نہیں دیتے۔ خیر! مہتمم حضرات آجر ہیں، ان کی مرضی وہ جتنی اجرت پر چاہیں اجیر (اساتذہ) کو رکھیں شرعا ان پر کوئی الزام نہیں ہے؛ لیکن اس قلت تنخواہ کے لیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابرین علماء کی زندگی کا حوالہ دیا جاتا ہے ؛یہ بحث کا موضوع ضرور ہے۔
حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں: میں آج کل مسلمانوں کو فقر وتنگدستی کے ساتھ زندگی گزارنے اور خالی ہاتھ پڑے رہنے کی رائے نہیں دیتا؛ بلکہ وہ رائے دیتا ہوں جو حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانے والوں کو دی تھی ۔ وہ فرماتے تھے:”اگر آج کسی کے پاس کچھ دینار ہوں تو ان کی قدر کریں؛ کیوں کہ پہلے زمانے میں روپیہ پاس ہونے سے دین جانے کا اندیشہ تھا مگر آج پیسے پاس نہ ہونے سے دین پر اندیشہ لاحق ہے، ارتداد کا خطرہ ہے اور روپیہ پاس ہو تو دین کی بھی حفاظت ہوگی اور ارتداد کا خطرہ بھی ختم ہوگا”۔
جب حضرت سفیان ثوری کے زمانے میں یہ عالم ہو چلا تھا تو اب تو اس رویے کو سختی سے اپنانے کی شدید ترین ضرورت ہےاسی لیےہمارےاکابرین اپنے متعلقین کو ترک اسباب کی رائے نہ دیتے تھے۔(معارف حکیم الامت/30)
مدرسین وملازمین کو کم سے کم تنخواہوں پر بہلانے کا بہترین طریقہ یہی ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فقر وفاقہ والی زندگی کا نمونہ پیش کیا جائے، نادار صحابۂ کرام کی قربانیوں کو شمار کرایا جائے اور اکابرین امت کے تنگ دستی میں دین کی خدمت کے واقعات سنائے جائیں اور پھر معمولی تنخواہ کے لیے جواز نکال لیں۔
نبوی مزاج تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "فقر اور غنا” دونوں کے شر سے پناہ مانگی ہے۔ اللهم إني أعوذ بك من ۔۔۔ وشر فتنة الغنى وشر فتنة الفقر(بخاری ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فی نفسہ غنیٰ محمود ہے اور نہ ہی فقر؛ بل کہ بسااوقات شر کے امکانات بھی پیدا ہوجاتے ہیں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے اور ہمیں بھی(غنا اور فقر دونوں کے شر سے) پناہ مانگنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور دعاؤں میں "وأغننا من الفقر”(بخاری ، ابن ماجہ ) کے الفاظ بھی ملتے ہیں جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت فقر کی زندگی گزارتے تھے، اگر کہیں سے کچھ آیا فورا صدقہ کردیتے یہی حال ازواج مطہرات کا بھی تھا، وفات اس حال میں ہوئی کہ اپنی زرہ کسی یہودی کے پاس گروی رکھ کر اس کے مقروض تھے؛ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وجہِ تخلیقِ کائنات تھے، ان کے ایک اشارے پر احد پہاڑ سونا بن سکتا تھا، ایک اشارے پر اپنی گردنیں کٹا دینے والے صحابہ اپنے گھر کے تمام مال واسباب قدموں میں ڈال دینا اپنی سعادت سمجھتے؛ لیکن اس کے باوجود آپ فقر کی زندگی اختیار فرماتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر "اختیاری فقر” تھا، اضطراری فقر نہ تھا۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
اعلم أن فقره – صلى الله علیہ وسلم – كان اختياريا لا كرها واضطراريا۔ (جمع الوسائل:2/185)
(جان لو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری فقر تھا، اضطرار ومجبوری والا فقر نہ تھا۔)
یہی فقر محمود ہے، اضطراری فقر کوئی شیءمحمود نہیں ہے، اگر کسی کے پاس آنکھیں ہوں اور وہ غلط نگاہ سے بچتا ہو تو یقینا یہ محمود ہے؛ لیکن بینائی سے محروم شخص کا بد نظری سے بچنا کون سا محمود عمل ہوگا!؟
اکابر علما کا جو فقر تھا وہ بھی اختیاری فقر تھا ، میرے علم ومطالعہ میں اکابر میں سے کسی ایک کی بھی تنخواہ آج کی تنخواہوں کے معیار کی نہ تھی ۔ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ علما کا فقر؛ اختیاری فقر ہوتا ہے جب کہ جہلا کا فقر اضطراری فقر ہوتا ہے "فقر العلماء فقر اختيار وفقر الجهال فقر اضطرار”۔ (مرقاة المفاتیح شرح مشكاة المصابيح:1/22)
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کو دارالعلوم سے پچھتر (75) روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی تھی ان میں سے پچاس لیتے اور بقیہ پچیس بمد چندہ مدرسہ واپس فرمادیتے۔ (دیکھیے:دجالی فتنہ کے نمایاں خدوخال:221) مفکرِ اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کو اس زمانے کے حساب سے ایک کروڑ کی مالیت کے ساتھ فیصل ایوارڈ دیا گیا، انھوں نے ساری رقم سعودی کے فقرا میں تقسیم کردی اور (شنیدہے کہ) جب گھر آئے توتنخواہ ملنے تک کے وعدہ پر کسی طالب علم سے قرض لینا پڑا جس سے گھر کا چولھا بجھنے نہ پائے۔ حضرات خلفاے راشدین خصوصا حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما خلیفۃ المسلمین ہیں؛ لیکن فقر کی زندگی اختیار فرماتے ہیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہزاروں مربع کلو میٹر کے بے تاج بادشاہ ہیں؛ لیکن فقر اختیار کرتے ہیں، ہندوستان میں اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ جس نےشہنشاہ اکبر کے بعد سب سے بڑے رقبہ پر حکومت کی ؛فقر کی زندگی گزارتے رہے، اس قسم کی ہزاروں مثالیں اور نمونے تاریخ اسلام اور علماء کرام کی سوانح حیات میں موجود ہیں، یہاں تو بس "مشتے نمونے از خروارے” پیش کیے گئے ہیں، یہ اختیاری فقر ہے، یہی فقر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اکابرین علماء امت اور بزرگان دین نے اختیار فرمایا اور یہی محمود بھی ہے۔ اضطراری فقر سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے "اللهم إني أعوذ بك من الفقر، والقلة، والذلة” (سنن ابی داود ) اور اسی اضطراری فقر کے متعلق ضعیف سند سے منقول ہے "كاد الفقر أن يكون كفرا” (حلیۃ الأولياء وطبقات الأصفياء:3/53) کہ فقر (اضطراری) بسا اوقات کفر تک پہنچا یتا ہے، بعض شراح حدیث نے اس سے "کفران نعمت” بھی مراد لیا ہے۔
اختیاری فقر کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ کسب معاش کرکے اپنی زندگی میں وسعت وفراخی لانے کی استطاعت رکھنے کے باوجود کسب معاش میں نہ لگنا؛ بل کہ اس کے بجائے دین کے کسی شعبہ کی خدمت میں اپنے آپ کو پورے طور پر لگا دینا، یہ بھی اختیاری فقر ہے اور یہ بھی محمود ہے۔ علماء کے بہت بڑے طبقے نے اسے اختیار کیا ہے، علامہ رشید رضا مصری نے لکھا ہے: العلماء يفضلون الاشتغال بما هم فيه من العلم على الاشتغال بالكسب الذي يخرج الإنسان من مأزق الفقر إلى باحة الغنى، ففقرهم إختياري بخلاف الجهلاء (مجلۃ المنار :1/832) علماء اپنے علم میں مشغول ہونے کو ترجیح دیتے ہیں اس کمائی پر جس سے وہ فقر کی تنگی سے نکل کر غناء کی خوشحالی میں آجائیں، لہذا علماء کا فقر اختیاری ہے اور جہلا کا اضطراری۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میری عمر کوئی بیس برس ہوگی، میں کانپور میں بیان کر رہا تھا کہ ایک وکیل صاحب نے بیان سن کر کہا کہ یہ شخص ملانوں میں کہاں جا پھنسا، یہ تو وکالت کا امتحان پاس کرتا، تو اس کا کوئی نظیر نہیں ہوتا۔حضرت نے الہ آباد میں اس واقعہ کو ذکر کرکے فرمایا کہ اگر ہم ملانے لوگ دنیا کمانے پر آجائیں تو آپ لوگوں سے اچھی کما کر دکھلا دیں؛ لیکن باوجود اس قدرت کے پھر بھی قدرِ ضرورت پر راضی رہ کر خدمت دین میں مشغول ہیں۔ (ملفوظات حکیم الامت:16/ 235)
یہ فقر بھی محمود ہے؛ لیکن مطلوب نہیں ہے ( شریعت کا مطالبہ نہیں ہے) یعنی اگر کوئی یہ فقر اختیار کرتا ہے تو قابلِ صد تعریف ہے، اللہ تعالی ایسے لوگوں کو دنیا وآخرت کی سعادتوں سے نوازتے ہیں؛ لیکن کسی کو یہ فقر اختیار کرنے کی تلقین نہیں کی جاسکتی۔
اس کو ایک مثال سے سمجھیں! توکل کا اعلی درجہ بلا اسباب اللہ تبارک وتعالی پر بھروسہ کرنا ہے، یہ محمود ہے، جن کا توکل اس درجہ کا ہوتا ہے اللہ تعالی انھیں کبھی مایوس نہیں کرتا، آپ نے اس توکل کے متعلق سینکڑوں واقعات پڑھے اور سنے ہوں گے؛ لیکن شریعت میں یہ توکل مطلوب نہیں ہے؛ بل کہ "اونٹ کو باندھ کر توکل کرنا”(یعنی اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالی پر توکل کرنا) یہ مطلوب ہے۔
(جاری)