شوال اور ذی قعدہ کے مہینہ سےمدارس اسلامیہ میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے، ملک کے طول وعرض سے طلبہ حصول علم کے لیے دور دراز واقع معروف اور معیاری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسفار کرتے ہیں، وطن سے دوری، والدین کی جدائی اور اپنوں کا فراق سب کچھ برداشت کرتے ہیں؛ تاکہ وہ قرآن وحدیث کے علوم کو بہتر انداز سے حاصل کر سکیں، اعلی صلاحیت کے حامل عالم دین بن سکیں اور امت مسلمہ کے درمیان رہ کر قرآن وسنت کی نشر واشاعت میں فعال کردار ادا کر سکیں، ایسے تمام طلبہ تبریک وتہنیت کے مستحق ہیں، رسول اللہ ﷺ کی زبان ِ حق بیان سے ان کے لیے متعدد بشارتیں منقول ہیں؛ چنانچہ وہ اللہ کے دین کی سربلندی، کتاب وسنت کی خدمت، رسول اللہ ﷺ کے مشن کا حصہ بننے اور امت مسلمہ کی اسلامی رہبری کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں اور اس راہ کی تمام تر صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ ہر انسان مادی فائدہ کو سامنے رکھ کر کوئی بھی کام کرتا ہے، وہ اپنی ہر محنت کا دنیاوی بدلہ چاہتا ہے اور اپنے ہر عمل کا نقد معاوضہ طلب کرتا ہے، یہاں ہر کام؛ حتی کہ تعلیم بھی پیشہ وارانہ (Professional) ہوچکی ہے، اس مادی دور میں دنیا کے بجائے آخرت کے وعدوں پر اپنی زندگی وقف کردینا، ایسی تعلیم میں عمر عزیز کا تقریباً آدھا حصہ گزار دینا ، جس میں نہ نوکری کی گارنٹی (Placement)، نہ اعلی تنخواہ کی امید اور نہ دنیا کے اعتبار سے روشن مستقبل کی ضمانت، یہ ایمانی قوت کی مضبوط دلیل، بندگی کا اعلی نمونہ اور سخت ترین مجاہدہ ہے۔
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
لیکن ہمارے بہت سے طلبہ عزیز صحیح رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے اپنی محنت اور کوششوں کا مناسب نتیجہ نہیں پاتے، علمی اعتبار سے وہ صلاحیت کے مطلوبہ معیار تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں، پھر وہ اپنے میدان میں استناد اور اعتبار حاصل نہ کرنے کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں، لہذا درج ذیل تحریر میں چند گزارشات ان کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں، امید کہ تعلیمی دورانیہ میں وہ ان سے مستفید ہوکر کچھ بہتر نتائج حاصل کر سکیں۔
تصحیح نیت
ہر کام کے پیچھے انسان کی کوئی نہ کوئی نیت ضرور ہوتی ہے، بلا مقصد انسان کوئی کام نہیں کرتا؛ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے، تو وہ اپنی زندگی تباہ وبرباد کر رہا ہے، اپنے آپ کے ساتھ دھوکہ کر رہا ہے، دینی مدارس کے طلبہ کی کیا نیت ہونی چاہیے اور علم دین سیکھنے کا کیا مقصد ہونا چاہیے ؟ ہر طالب علم کو سب سے پہلے اپنی نیت اور مقصد کا رخ ضرور متعین کرنا چاہیے۔ اور وہ نیت وہی ہو جو رسول اللہ ﷺ کی تھی، یعنی: اللہ تعالی کی رضا اور اسلام کی سربلندی۔ اساس اور بنیاد کے طور پر طالب علم کی زندگی کے یہ دو ہی مقصد ہونے چاہیے اور اس کی تمام تر محنتیں، کوششیں اور مجاہدے اسی محور کے ارد گرد گھومنی چاہیے۔
بلند نگاہی
طلبہ کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جن سے اگر معلوم کیا جائے کہ آپ کیوں پڑھ رہے رہیں اور کیا بننا چاہتے ہیں؟ تو بعض اوقات ان کا جواب سن کر بڑی حیرت ہوتی ہے؛ کیوں کہ مقاصد بڑے معمولی ہوتے ہیں، جیسے صرف امامت، مؤذنی، ٹیوشن، مکتب کی تعلیم، فلاں شہر جاکر کوئی معمولی جگہ تلاش کرنا وغیر وغیرہ ۔واضح رہےکہ امامت وغیرہ اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی معمولی کام نہیں؛ لیکن ایک طالب کا مطمح نظر صرف یہی نہیں ہونا چاہیے؛ بلکہ اس میدان میں جو نمایاں ترین نام ہو اور معزز ترین عہدہ ہو، جیسے شیخ الحدیث بننا ، یا فلاں بڑے عالم ، مفتی، محدث ، مفسر یا داعی کی طرح بننا، اس طرح کا بلند خواب ہونا چاہیے۔
کیوں کہ جو انسان بلند خواب دیکھتا ہے، اس کی کوششیں بھی بلند ہوتی ہیں اور اللہ کے حکم سے اس کا خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوتا ہےاور پھر وہ ایک نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
توحید مقصد
مختلف علاقوں اور مدارس سے آنے والے طلبہ جب دار العلوم دیوبند، ندوۃ العلماء اور دیگر مرکزی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، اور یہاں ادارے کے باہر اور کچھ اندر بھی بہت سی تعلیمی اور غیر تعلیمی سرگرمیاں ان کے مشاہدہ میں آتی ہیں ، تو وہ ان سے مرعوب ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جب کہ ان میں سے بعض سرگرمیاں تو انتہائی نقصان دہ ہوتی ہیں اور بعض جزوی طور پر فائدہ مند ہوتی ہیں؛ لیکن ان کی تعلیم میں وہ حارج ضرور ہوتی ہیں؛ جیسے بعض طلبہ کو نصاب سے الگ بھی انگریزی پڑھنے کا شوق ہوتا ہے، بعض کو کمپیوٹر سیکھنے کی طلب ہوتی ہے، بعض جسمانی ورزش کراٹے اور جم وغیرہ میں دل چسپی لیتے ہیں ، بعض ہفتہ واری پروگراموں میں ذوق وشوق کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
ان میں سے کوئی بھی سرگرمی غیر مفید نہیں؛ لیکن جس مقصد کے لیے طالب علم کا دار العلوم میں داخلہ ہوا ہے، اگر اسے پس پشت، نظر انداز یا کم توجہ دے کر ان سرگرمیوں میں حصہ لیا جائے ، یا انہیں ہی مقصود بنالیا جائے ، تو یہ اس طالب علم کے مستقبل کے لیے بہت نقصان دہ ہوگا، طالب علم جس مقصد کے لیے کسی ادارہ میں داخل ہوا ہے، سب سے زیادہ ترکیز اس پر ہونی چاہیے، بلکہ صرف اسی پر توجہ ہو تو اس کے لیے زیادہ مناسب ہوگا اور عملی میدان میں وہ زیادہ کامیاب ثابت ہوگا، باقی چیزوں کو بھی ایک ترتیب کے ساتھ سیکھنا چاہیے، لیکن خلط مبحث یا تکثیر مقصد سے بچنا چاہیے۔
علمی مہارت
جس نصاب میں اور کورس میں ہم نے داخلہ لیا ہے، اس میں مہارت پیدا کرنا ، ہر طالب علم کا اولین مقصد ہونا چاہیے اور اس کے لیے ضروری اصول اور مطلوبہ جد وجہد ہے، اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے، در نظامی میں داخل طلبہ تدریجی طور پر کئی فنون اور علوم کو حاصل کرتےہیں، سب سے پہلے عربی زبان وادب کا ایک وافر حصہ انہیں پڑھایا جاتا ہےاور حتی الامکان کوشش یہ ہوتی ہے کہ طالب علم کے اندر اس حوالے سے اعلی استعداد پیدا ہوجائے اور نظریاتی طور پر اور حل عبارت کی حد تک اس میں کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے؛ لیکن تحریر ، تکلم اور سماعت کے اعتبار سے ہمارا نتیجہ شاید پانچ فیصد سے آگے نہیں جاتا، جب کہ انہی تینوں طریقے سے ایک طالب علم میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، جو اس کی تعلیمی زندگی میں بڑا موثر کردار ادا کرتی ہے اور جس کے بعد وہ ترقیات کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے۔
پھر بعدکے مدارج جیسے فقہ، تفسیر اور حدیث میں بھی اسے غیر معمولی دل چسپی حاصل ہوتی ہے اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ ان فنون کو حاصل کرتا ہے اور اچھی استعداد اپنے اندر محسوس کرتا ہے، لہذا قراءت، فہم، تکلم، تحریر اور سماعت ان پانچوں جہتوں سے ایک طالب علم میں عربی زبان کی اعلی استعداد پیدا ہونا بے حد ضروری ہے؛ تاکہ وہ صحیح انداز سے کتاب وسنت کا علم حاصل کرسکے؛ جو مقصود ہے، اور ان دونوں میں عملی مہارت پیدا کرنا ہی ہدف اور نشانہ ہے۔
علمی مہارت کے ذیل کے سال کے شروع میں اساتذہ کی جانب سے کی جانے والی ہدایات کو بہت اہمیت دی جانی چاہیے اور ان پر ہر حال میں کمر بستہ رہنا چاہیے۔
کتابی صلاحیت پیدا کرنے کا ہنر
کسی بھی فن یا کتاب کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے چند امور کی پابندی بے حد ضروری ہے: (1) اپنی طاقت اور صلاحیت کی حد تک اگلے سبق کا مطالعہ کرکے درس گاہ میں آئیں اور پھر ہمارے مطالعہ سے ہٹ کر استاذ کی طرف سے جو تشریح آئے اسے نوٹ کریں۔ (2) درس گاہ استاذ کی تشریح کے وقت اپنے تمام تر توجہ کو اس طرح سمیٹ لیں اور استاذ کی تقریر کی طرف اس طرح متوجہ ہوں جیسے حفظ کرنے والا نابینا ، یاد کرانے والے کی آواز کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اسے اپنے دماغ میں پیوست کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ (3)استاذکے جانے کے بعد فورا پورے سبق پر ایک نگاہ دوڑانی چاہیے اور استاذ کی تشریح کے استحضار کی کوشش کرنی چاہیے۔
(4)کسی بھی فن کی پہلی کتاب میں غیر معمولی محنت کریں اور اسے اچھی طرح سمجھ لیں اوریاد کرلیں، اس سے اس فن کی بعد والی کتابیں بہت آسان معلوم ہوں گی اور پڑھنے میں بھی حظ آئے گا۔ (5) اسی طرح ہر کتاب کے ابتدائی اسباق میں کچھ زیادہ محنت کرنی چاہیے ، جب کتاب کے ابتدائی اسباق اچھی طرح حل ہو جائیں گے تو اگلے اسباق میں دشواری محسوس نہیں ہوگی۔ (6) ہرکتاب استاذ کے بعد از خود حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ساتھی کے تکرار پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ کوشش یہ رہے کہ آپ اپنے دیگر کمزور ساتھیوں کو تکرار کرائیں۔
عملی مشق اور تعلقات کا دائرہ
اگر کوئی طالب علم علم دین حاصل کرتا ہے؛ لیکن اعمال، اخلاق، معاملات اور صحیح تعلقات کے اعتبار سے اس کے حالات غیر مطمئن ہیں، تو وہ خسر الدنیا والاخرۃ کا مصداق ہے؛ کسی درجہ میں اس کا تو امکان ہے کہ اس کے اندر کتابی صلاحیت پیدا ہوجائے؛ لیکن وہ صلاحیت کسی کام کی نہیں ہوگی، اس سے نہ اسے فائدہ حاصل ہوگا، نہ کسی اور کو ،الا ماشاء اللہ؛ لہذا ہر طالب علم کو عمل،اخلاق اور معاملات کے اعتبار سے بہت محتاط رہنا نہایت ضروری ہے؛ بلکہ ان چیزوں کی اعلی کوالٹی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ تاکہ وہ ایک کامیاب اور بہترین دینی رہنما بن قوم وملت کی رہبری کا فریضہ انجام دے سکے۔
نیز تعلیمی دورانیے میں اپنے تعلقات بہت محدود اور بہت چنندہ رکھنے چاہیے، اپنی جماعت کے اعلی دماغ، اچھی صلاحیت، جفا کش، محنتی اور نیک طبیعت کے منتخب طلبہ کے ساتھ ہی تعلقات استوار رکھنے چاہیے؛ تاکہ وہ اس کی صلاحیت سازی کے عمل میں معین ومددگار بن سکیں ، کرکٹ دیکھنے والے، موبائل کے رسیا اور ہوٹلنگ کرنے والے طلبہ کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ اور اپنے پاس ملٹی میڈیا موبائل رکھنا تو سم قاتل ہے۔
اساتذہ سے تعلقات
اس دور میں یہ چیز وبائی شکل اختیار کرچکی ہےکہ طلبہ درس گاہ کی حد تک اساتذہ سے منسلک رہتے ہیں، ذاتی طور پر ان سے مشورےلینا، رہنمائی حاصل کرنا، ان کی خدمت کرنا، ان کی عملی زندگی کو بغور دیکھنا، ان کی زیر تربیت رہنا وغیرہ وغیرہ ان سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد دور رہنا پسند کرتی ہے۔ حالانکہ یہ ان کے لیے بہت نقصان دہ ہے، طلبہ کو اساتذہ سے اسی طرح مربوط رہنا چاہیے جیسے وائر کو ٹرانسفر سے مربوط رہنا ضروری ہے۔
یہ چند متفرق چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں، امید کہ اس سے ہمارے عزیز طلبہ کو کچھ فائدہ ہو اور ہمارے لیے صدقہ جاریہ ہو سکیں۔ وللہ الحمد فی الاول والآحر۔