تمہید
سرزمین ہندوستان میں مدارس اسلامیہ دینی علوم و فنون کے مرکز،اسلام اور مسلمانوں کی بقا وحفاظت کے عظیم قلعے اور مسلم معاشرہ میں اسلامی اثر و نفوذ کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔آزادی کے بعد مدارس اسلامیہ کو ہر طریقے سے بند کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں دہشت گردی کا اڈہ باور کرایا گیا،کبھی نصاب تعلیم کو لیکر تنقید کا نشانہ بنایا گیا،تو کبھی مدارس اسلامیہ کو سرکاری بورڈ سے منسلک کرنے کا شوشہ چھوڑا گیا، نفرت پسند جماعت کے موجودہ اقتدار میں مختلف سروے کے نام پر مدارس کو پریشان کرنا ایک عام بات ہوگئی ہے۔ موضوعِ بحث عنوان کا تعلق اگرچہ مذکورہ بالا امور سے نہیں ہے؛ لیکن اس طرح کے موقع پر ایک حلقے کی طرف شدت سے یہ بات اٹھائی جاتی ہے کہ مدارس اسلامیہ اگر خود کفیل ہوں تو مدارس کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے،اسی لئے ان حالات میں مذکورہ عنوان کے دونوں پہلوؤں پر تفصیلی بحث ناگزیر ہے۔سطور ذیل میں ہم سب سے پہلے مدارس اسلامیہ کے قیام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہیں،پھر موضوع کے دونوں پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کے قیام کا پس منظر
1857ء کے انقلاب کے بعد مسلمانوں کو طرح طرح کی مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، سرزمین ہند میں اسلام کی بقا مسلمانوں کے لئے ایک اہم مسئلہ بن گیا تھا،عیسائی مشینریوں اور مختلف اسلام مخالف تحریکوں نے انتہک کوشش کی کہ کسی طرح ہندوستان میں اسلام کی روشنی کو ختم کردیا جائے، مسلمانوں کو ان کے مذہب اور تہذیب و تمدن سے دور کردیا جائے،انقلاب کے نتیجے میں علماء کی ایک بڑی تعداد یا تو راہ خدا میں شہید ہوگئی یا پابندِ سلاسل ہوگئی،مزید برآں انگریزی حکومت کے جبر و تشدد کی وجہ سے وہ تمام درسگاہیں اور مدرسے بیک وقت بند ہوگئے،جو نوابین،زمین داران اور امراء کے رحم و کرم پر چلتے تھے، ان حالات میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا، دارالعلوم دیوبند کا قیام محض ایک دینی درسگاہ کی بنیاد نہیں تھی؛بلکہ یہ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کے قیام کی ایک ہمہ گیر تحریک تھی، جس کے نتیجے میں قلیل عرصہ میں پورے ہندوستان میں مدارس کا جال بجھ گیا۔
مکمل خود کفیل ہونے کے نقصانات
مدارس اسلامیہ اگر مکمل خود کفیل ہوجائیں تو اس کو متعدد نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا،ذیل میں ہم ان نقصانات پر روشنی ڈالنے سے قبل مدارس اسلامیہ کے لئے عموما اور دارالعلوم دیوبند کے لئے خصوصا حضرت مولانا قاسم نانوتوی ( بانی دارالعلوم دیوبند ) کے متعین کردہ اصول ہشتگانہ کا ذکر کرتے ہیں؛کیوں کہ ہندوستان کے اکثر مدارس اسی نہج پر قائم ہیں۔ مذکورہ بحث کے تعلق سے اصول ہشتگانہ میں رقم ہے کہ ”اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں،جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانہ،تجارت یا کسی امیر محکم القوم کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف و رجاء ہاتھ سے جاتا رہے گا،اور امداد غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا۔“(1)مولانا اعجاز احمد اعظمی اس دفعہ کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”مومن کی نگاہِ فراست میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل کا سارا نقشہ موجود تھا،کتنے مدرسے اپنی عمارت،اپنی ظاہری رونق اور سجاوٹ کے اعتبار سے بہت بڑھ چڑھ گئے مگر تعلیم کی افادیت سے یکسر بے فیض ہیں،کیوں کہ انہوں نے اس قیمتی اصول سے انحراف کرلیا۔“(2)
اگر مدارس مکمل خود کفیل ہوجائیں تو درج ذیل خرابیاں پیدا ہوں گی اور نقصانات لاحق ہوں گے:
1۔ عوامی رابطے میں کمی ہوجائے گی، چندوں کی وجہ سے عوام الناس کا علماء اور دین سے جو ربط ہے، وہ ختم ہوجائے گا،بقول مولانا اعجاز احمد اعظمی ”باجود بہت ساری کمیوں اور خرابیوں کے مسلمانوں میں دین و ایمان کی چمک دمک کا بڑا حصہ ان مدارس اور ان کے چندوں پر منحصر ہے“(3)
2۔ ذمہ دارانِ مدارس سے جواب دہی کا احساس ختم ہوجائے گا،وہ کسی بھی طرح کے اقدام میں جواب دہ نہیں ہوں گے۔
3۔ منتظمین کے غلط کاموں کی اصلاح مشکل ہوجائے گی؛کیوں کہ چندوں پر انحصار کی وجہ سے کہیں نہ کہیں یہ احساس رہتا ہے کہ غلطی پر عوام پکڑ کرے گی؛لیکن خود کفیلی کی صورت میں یہ احساس بھی ختم ہوجائے گا۔
4۔ کرپشن اور غبن وغیرہ میں اضافہ ہوگا، عوامی چندوں پر انحصار کے باجود بھی متعدد مدارس کے منتظمین و مدرسین کی طرف چندوں میں خرد برد کرنے کا معاملہ مشاہدے میں آیا ہے،خود کفیلی کی صورت میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔
5۔ذمہ داران میں خود مختاری پیدا ہوجائے گی، وہ جیسا چاہیں گے، فیصلہ کریں گے، کسی اصول و ضوابط کے پابند نہیں ہوں گے۔
6۔ مدارس جن کی شناخت قومی اداروں سے ہیں، وہ ذاتی اسکولوں اور کوچنگ سینٹروں کی طرح ہوجائیں گے۔
7۔تعلیمی معیار پست ہوجائے گا؛ کیوں کہ عوامی چندوں پر انحصار کی صورت میں عوام کی مدرسہ کی تعلیم و ترقی پر نظر رہتی ہے؛لیکن خود کفیلی کی صورت میں یہ نظر نہیں رہے گی، جس کی وجہ سے تعلیم معیار گر جائے گا۔
8۔شورائی نظام کے خاتمے کا امکان ہے، آج مدارس میں کسی نہ کسی نوعیت سے شورائی نظام پایا جاتا ہے؛لیکن خود کفیلی کے بعد اس کے بھی ختم ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
9۔دعوت و تبلیغ میں کمی ہوگی،مدارس کی طرف سے عوامی اجلاس، اور عوام کی اصلاح کا خاتمہ ہوجائے گا۔
10۔ 1857ء کے انقلاب سے قبل مدارس و مکاتب وغیرہ امراء، زمین داران اور نوابوں کے ماتحت خود کفیل ہوتے تھے،انگریزی حکومت نے ان ا مراء وغیرہ پر شکنجہ کس کے بیک وقت تمام مدارس کو بند کردیا تھا، اسی طرح موجودہ زمانے میں بھی خود کفیلی کے تمام ذرائع پر حکومتی شکنجہ کے بعد مدارس کے یک لخت بند ہونے کے قوی امکانات رہیں گے۔
11۔غریب اور مسکین طلبہ کے لئے مدارس کے دروازے بند ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے خود کفیل ہونے کی صورت میں درج ذیل چار نقصانات کا ذکر کیا ہے:
12۔ خوف و رجاء کا خاتمہ
13۔رجوع الی اللہ کا خاتمہ
14۔ امدادِ غیبی موقوف ہوجائے گی۔
15۔کارکنان میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا۔(4)
*خود کفیل ہونے کے فوائد*
خود کفیل ہونے کے درج ذیل فوائد ہیں:
1۔ منتظمین کو چندے وغیرہ سے چھٹکارہ مل جائے گا۔
2۔ ملازمین کو وقت پر تنخواہ ملے گی۔
3۔ گیہوں اور چاول کی وصولی کے نام پر تعلیم کا نقصان نہیں ہوگا۔
4۔ وقت پر تنخواہ اور چندے وغیرہ کی عدم وصولی کی وجہ سے مدرسین کی پوری توجہ تعلیم پر ہوگی۔
5۔ مالی امور میں شفافیت آئے گی۔
6۔ مدارس کو اپنی ذرائع آمدنی اور خرچ حکومت کو دکھانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
7۔ صرف چندوں پر انحصار کی وجہ سے مختلف سرکاری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ڈاکٹر خالد اعظمی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”لیکن حکومت مدارس کی ذرائع آمدنی اور مالیات کی فراہمی پر طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کررہی ہے اور سرکاری رکاوٹیں لگاکر مدارس اسلامیہ کے پورے نظام کو بند کردینے کے درپے ہے۔مدارس کی مالیات کی سرکاری آڈٹ،آمدنی کے ذرائع کی چھان بین اور زکاۃ و دیگر ذرائع سے روپیہ جمع کرنے پر حکومتی ایجنسیوں اور اداروں کی مستقل نظر رہنے سے مدارس کو مالیات کی فراہمی لگاتار متاثر ہورہی ہے اور حکومتی حالات ایسے ہی رہے تو مستقبل میں ان مدارس کو اپنے وجود کی بقا کے لئے مالیات کی فراہمی کے متبادل ذرائع کی تلاش لازمی کرنی پڑے گی،کیوں کہ موجودہ وقت میں آمدنی کی قلت ہی مدارس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ (5)
8۔اساتذہ کی تنخواہ میں اضافہ ہوگا، جو کہ مدارس سے وابستہ افراد کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
9۔ نامساعد حالات میں مدارس کو دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا گا، چناں چہ کوڈ کی وبا اور لاک ڈاون کے دوران زکوۃ و عطیات کی عدم وصولی کے باعث مدارس شدید مالی بحران کا شکار ہو گئے تھے، بیشتر چھوٹے اور درمیانی درجے کے مدارس کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔(6) حتی کہ متعدد مدراس نے اساتذہ کی تنخواہیں روک دیں اور متعدد مدارس نے نصف تنخواہیں ادا کی تھی۔
10۔ مدارس کو چندہ دینے والوں پر حکومتی اداروں کی کڑی نظر ہے، چناں چہ تقریبا دو سال قبل حکومت نے دارالعلوم دیوبند سے چندہ دینے والوں کے آدھار کارڈ نمبر طلب کئے تھے (7)ظاہر سی بات ہے اس کے ذریعہ مسلمانوں میں مالی اعتبار سے مضبوط لوگوں کو پریشان کرنا مقصود ہے، اگر مدارس خود کفیل ہوں تو اس طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
11۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ چندوں کی وجہ سے علماء نھی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے، اور سماجی مسائل کی اصلاح سے کتراتے ہیں، لیکن اگر مدارس خود کفیل ہوں تو علماء ہر رسم و رواج اور بدعات و خرافات پر کھل کر بولیں گے اور سماجی برائیوں کی اصلاح کریں گے۔
خود کفیل ہونے کا ایک تجربہ
خود کفیل ہونے کا ایک تجربہ مدارس اسلامیہ کا سرکاری بورڈ سے منسلک ہوکر امداد حاصل کرنا ہے، ہندوستان میں متعدد مدارس اس نوعیت کے ہیں؛ لیکن اس کی وجہ سے فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہی ہوا ہے، تعلیمی معیار بالکل ہی پست ہوگیا، عوامی جواب دہی سے بے نیازی نے ان کو یکسر معطل اور بے کار بنا دیا۔ اپنے مقصد اصلی سے منحرف ہوگئے اور حکومتی امداد کی وجہ سے حکومتی نصاب کے پابند ہوگئے۔ الغرض کسی بھی نوعیت سے یہ تجربہ مفید ثابت نہیں ہوا۔ (8)
*محدود پیمانے پر خود کفیل ہونا*
سطور بالا میں راقم نے مکمل خود کفیل ہونے کی صورت میں ہونے والے نقصانات کو تفصیلاً ذکر کیا ہے؛ لیکن اگر مدارس اسلامیہ ایک محدود پیمانے تک خود کفیل ہوں، مثلا 50/فیصد خود کفیل ہوں اور 50/ فیصد چندوں پر انحصار ہو تو مکمل خود کفیل ہونے کے اوپر جو نقصانات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے اکثر پیش نہیں آئیں گے اور خود کفیل ہونے کے جو فوائد بیان کئے گئے ہیں ان میں سے اکثر مدارس کو حاصل ہوں گے۔ ذیل میں ہم پہلے خود کفیل ہونے کے بعض اہم طریقوں کا ذکر کرتے ہیں،اس کے بعد موجودہ دور کے مدارس سے اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ درج ذیل مشہور طریقے سے مدارس مکمل یا محدود طور پر خود کفیل ہوسکتے ہیں:
1۔ مدارس میں طلبہ پر فیس عائد کی جائے۔
2۔ مدارس کی خالی زمینوں پر زراعت و کاشت کاری کی جائے۔
3۔ مدارس وغیرہ کی دوکان، مکان وغیرہ کرایہ پر دیا جائے۔
4۔ مدارس کی رقم کسی کمپنی میں لگاکر تجارت میں شراکت داری کی جائے۔
5۔ مدارس اسلامیہ سرکاری بورڈ سے منسلک ہوکر حکومتی امداد حاصل کریں۔(اس کی تفصیلات اوپر گذر چکی ہے۔)
محدود پیمانے پر خود کفیل ہونے کی مثالیں
ہندوستان میں مدارس کی بڑی تعداد ایسی ہے جو کسی نہ کسی حد تک محدود پیمانے پر خود کفیل ہے، خواہ یہ خود کفیلی دس پندرہ فیصد ہی کیوں نہ ہو،چوں کہ اس سلسلے میں نہ تو کوئی اعداد و شمار دستیاب ہیں کہ کوئی تفصیلی معلومات فراہم کی جائے؛ البتہ ذیل میں چند طریقہ کار اس کی ایک دو مثالیں درج کی جاتی ہے:
1۔ متعدد مدارس فیس کے ذریعہ خود کفیل ہیں، بطور مثال مدرسۃ الاصلاح سرائے میر،یہاں فیس کے ذریعہ اتنی رقم اکٹھا ہوجاتی ہے کہ 6/ ماہ کی تنخواہیں اس سے ادا کی جاتی ہے، بقیہ 6/ماہ کی تنخواہ چندے کے ذریعہ ادا کی جاتی ہے۔(9)
2۔ متعدد مدارس زراعت کے ذریعہ اتنی پیداوار حاصل کرلیتے ہیں کہ پوری سال کے لئے غلہ کافی ہوجاتا ہے، بطور مثال جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں پوری سال کا غلہ ان کی خود کی زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔ (10)
3۔متعدد مدارس دوکان و مکان کو کرائے پر دے کر محدود پیمانے پر خود کفیل ہیں،مثلا جامعہ عربیہ احیاء العلوم میں تقریبا 10/لاکھ کی خطیر رقم دوکانوں کے کرائے سے آتی ہے۔ (11)
خلاصہ کلام
سطور بالا میں راقم نے اولاً مدارس اسلامیہ کے مکمل خود کفیل ہونے کے نقصانات اور اس کے بعد خود کفیل ہونے کے فوائد پر روشنی ڈالی ہے، اخیر میں راقم نے محدود پیمانے پر مدارس کو خود کفیل بنانے کے فوائد اور اس کی چند مثالیں ذکر کی ہے، راقم نے معروضی انداز میں موضوع کے ہر گوشے اور ہر پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں راقم اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے،جو درج ذیل ہے:
1۔ مدارس کو مکمل خود کفیل بنانے کی صورت میں بہت سے نقصانات اور خطرات پیش آئیں گے۔
2۔ اگرچہ مدارس کو مکمل خود کفیل بنانے کے بہت سے فوائد ہیں؛ لیکن راقم کی نظر میں اس کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں۔
3۔ مدارس اسلامیہ کو محدود پیمانے پر خود کفیل بنانے کی صورت میں مدارس کو وہ نقصانات اور خطرات لاحق نہیں ہوں گے، جو مکمل خود کفیل ہونے کی صورت میں ممکن ہیں۔
4۔ موجودہ حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مدارس اسلامیہ کو محدود پیمانے یعنی تیس سے پچاس فیصد تک خود کفیل بنایا جائے،مابقیہ کے لئے چندے وغیرہ پر انحصار کیا جائے۔ اس کی وجہ سے جہاں مدارس کے بہت سے مسائل حل ہوں گے وہیں مدارس میں تعلیمی، انتظامی اور تدریسی اعتبار سے ترقی ہوگی، کسی بھی نامساعد حالات میں مدارس کو اس صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، جو وبائی دور میں پیش آیا تھا۔
مصادر و مراجع
(1)مولانا محمد اللہ قاسمی، دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ، شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند، 2016، صفحہ : 54
(2)مولانا اعجاز احمد اعظمی، مدارس اسلامیہ مشورے اور گزارشیں، مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد، 2010ء، صفحہ: 189
(3)مصدر سابق صفحہ : 186
(4) مولانا شوکت علی قاسمی، مدارس اسلامیہ: حقیقی کردار اور نصب العین کا تحفظ، مرکزی دفتر رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند، 2015ء صفحہ : 12
(5)ڈاکٹر خالد اعظمی، عکس تحریر : جدید تعلیمی و معاشی مسائل کا تجزیہ، براؤن بکس علی گڑھ، 2023ء صفحہ 46
(6)مصدر سابق، صفحہ : 47
(7) دارالعلوم دیوبند نے اپنے ایک اعلان میں اس کا ذکر کیا تھا، راقم کی نظر سے یہ اعلان گزرا ہے؛ لیکن تلاش بسیار کی باوجود مل نہیں سکا۔
(8)مولانا شوکت علی قاسمی،دارالعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ، مرکزی دفتر رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند، 2018ء، صفحہ : 37/38
(9) معلومات از ڈاکٹر خالد اعظمی ( پروفیسر شعبہ معاشیات شبلی کالج )
(10) معلومات از مفتی یاسر قاسمی ( ناظم اعلی مدرسہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور )
(11) مصدر سابق