( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز)
کنیڈا کی ایک بھارتی نژاد فلم ساز لینا منی میکلائی نے جو کیا اسے درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ لیکن آج یہ ضروری ہے ، کہ اس کے عمل پر ، اپنے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچنے کی جو افراد شکایت کر رہے ہیں ، اُن سے ، یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا انہیں اب احساس ہوا ہے کہ کسی کے مذہبی جذبات کو جب ٹھیس پہنچتی ہے تب اس پر کیا گزرتی ہے ؟ آج وہ بھی ، جو رسول اکرم حضرت محمد ﷺ کی توہین کرنے والوں کی حمایت میں ریلیاں نکالتے رہے اور سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹوں سے غلاظت پھیلاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری رکھے ہوئے ہیں ، اپنے مذہبی جذبات مجروح ہونے کی باتیں کرتے اور ملک بھر میں مذکورہ فلم ساز کے خلاف ایف آئی آر درج کروا تے پھررہے ہیں ۔ ہوا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب چند سطروں میں یہ ہے کہ فلم ساز لینا منی میکلائی نے ۲، جولائی کواپنی ایک ڈاکیومنٹری فلم ’’ کالی ‘‘کا پوسٹر جاری کیا اوراس پوسٹر کے ساتھ ٹوئٹر پر لکھا کہ ، ’’ اپنی نئی فلم کے لانچ کو آپ سے شیئر کرتے ہوئے انتہائی پرجوش ہوں ۔‘‘فلم کے پوسٹر میں ہندوؤں کی ایک دیوی ’’ماںکالی ‘‘کے حلیے میں ایک خاتون کو سگریٹ پیتے ہوئے اور اپنے ہاتھ میں ایل جی بی ٹی کا دھنک رنگ جھنڈا لیے ہوئےدکھایا گیا تھا۔جب بھارت میں لوگوں کو اس پوسٹر کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے سوشل میڈیا پرلینا منی میکلائی کی گرفتاری کا مطالبہ شروع کردیا۔ اس دوران پیر کے روز دہلی میں ایک وکیل ونیت جندل نے لینا منی میکلائی کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کرائی۔ انہوں نےاپنی شکایت میں قابل اعتراض پوسٹر اور ڈاکیومنٹری پر پابندی لگانے کے ساتھ ہی فلم ساز کو گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی کیاتھا۔اس کے بعد ملک بھر میں ایف آئی آر درج کروانے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ۔ کینڈا میں بھارتی ہائی کمیشن نے باقاعدہ فلم کے پوسٹرکو ہٹانے کا مطالبہ کر کے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ اس معاملے میں ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا بھی کود پڑیں ، انہوں نے لینا منی میکلائی کی حمایت میں بیان دیا لیکن اپنے بیان میں ’’ ماں کالی ‘‘ کو گوشت کھانے اور شراب قبول کرنے والی دیوی قرار دے دیا ، لہٰذا ان کے خلاف بھی لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور ان کے خلاف بھی پولیس میں معاملے درج کر لیے گئے ، بی جے پی اس میں پیش پیش رہی ۔ مہوا موئترا معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ خود ان کی پارٹی ترنمول کانگریس نے ، ان کے بیان سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے ، یعنی مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی ان کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہیں ۔ ممکن ہے کہ اس دوری کی وجہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے سے بچنا ہو ، ورنہ یہ وہی ممتا بنر جی ہیں جو کبھی اُس تسلیمہ نسرین کو پناہ دیے ہوئے تھیں جو مذہبِ اسلام کی مقدس شخصیات کی توہین کی قصوروار ہے ۔ کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن سشی تھرور اور اداکارہ سوارا بھاسکر، اب تک یہ دو ہستیاں ہی ایسی ہیں جنہوں نے مہوا موئترا کی حمایت کی ہے ۔ باوجود ملک بھر میں ایف آئی آر درج ہونے کے لینا منی میکلائی نے اپنے پوسٹر کو واپس لینے سے صاف انکار کر دیا ہے ۔میکلائی کا کہنا ہے کہ وہ دیوی کے جس کردار کو اپنی فلم میں دکھارہی ہیں وہ کالی کا تنوع کے تئیں احترام اور انسانیت کا روپ ہے۔یہ بتا دیں کہ فلم ساز خودکالی کا بھیس بناکر ٹورنٹو کی گلیوں میں گھومتی رہی ہیں اور فلم میں اسی کو ‘شوٹ کیا گیا ہے ۔ میکلائی اس پوسٹر کا جواز یہ دیتی ہیں کہ ’’ میری فلم میں کالی میری روح کا انتخاب کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ایک ہاتھ میں پرائڈ فلیگ اور ایک ہاتھ میں کیمرہ لیتی ہیں اور ملک کے حقیقی باشندوں، افریقی، ایشیائی، فارسی نژاد لوگوں سے ملاقات کرتی ہیں۔ کینیڈا کی اس چھوٹی سی دنیا میں رہنے والے یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں سے بھی ملتی ہیں۔اورپوسٹر میں جو تصویر ہے وہ دیوی کے پیار کو پیش کرتی ہے۔ وہ ایک مارکیٹ کے قریب سڑک پر رہنے والے ایک مزدور کی طرف سے پیش کردہ سگریٹ کو قبول کرتی ہیں ۔‘‘ اب یہ بحث جاری ہے کہ یہ پوسٹر کیا واقعی لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا ہے ؟ یہ فیصلہ تو وہی کریں گے جو ہندو دھرم کے ماننے والے ہیں ،فی الحال تو اس پوسٹر اور اس پر ہونے والے ہنگامے سے جوسوالات اٹھ رہے ہیں ان پر غور کرنا ضروری ہے ، مثلاً کیا آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر کوئی فن کار یا تخلیق کار کچھ بھی کر سکتاہے ؟ کوئی ایسی چیزدکھا یا پیش کر سکتا ہے جس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوں؟ کیا آزادیٔ اظہار رائے کی کوئی حد نہیں ہے ؟ ان سوالوں کے ساتھ ایک اہم سوال یہ بھی ہے ،کہ وہ ’ ہندوتوادی ‘جو آئے دن ،بغیر کچھ سوچے سمجھے ،دوسروں بالخصوص مسلمانوںکے مذہبی جذبات سے کھیلتے رہتے ہیں ،انہیں اس واقعے کے بعد عقل آئے گی ، کیا انہیں احساس ہوگا کہ ’’ ماں کالی ‘‘ کے پوسٹر پر ان کے جذبات جس طرح مجروح ہوئے ہیں ، ان کی حرکتوں سے دوسروں کے جذبات بھی مجروح ہوتے ہیں؟مزید ایک اہم سوال ہے ،کیوں آج کا سماج اس قدر حساس ہو گیا ہے کہ مذہب کے نام پر تشدد پر آمادہ رہتا ہے،افہام و تفہیم کی بات نہیں کرتا ؟کیااس کی وجہ ، لوگوں کے دماغوں کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنےکی ’ بھگوا دھاری حکومت ‘ کی کوششیں ہیں؟لینا منی میکلائی کے تنازعے نے ایک موقع سوچنے کا دیا ہے ،لوگ سوچیںگے تو انہیں سمجھ میں آجائے گا کہ وہ جو نفرت آج دوسروں کے خلاف پھیلا رہے ہیں کل کو وہ خود اس کا نشانہ بن سکتے ہیں ، اور نشانہ بنانے والے ان کے اپنے ہی سماج کے ہو سکتے ہیں۔