گلشن آرا(ریسرچ اسکالر)
”فہیم اختر“عہدحاضر کی ایک ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے اردو ادب کو نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ممالک کے گوشے گوشے تک پہنچا یا ہے اور اردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنا فعال کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے اردو ادب کے طالب علم ہو نے کا حق بخوبی ادا کیا ہے۔آج کل فہیم اختر کا قیام لندن میں ہے۔تلاش معاش نے انہیں اپنوں سے دور دیارِ غیر میں پہنچادیالیکن ان کا دل آج بھی ہندوستان میں اور تاریخی شہر کلکتہ میں بستا ہے۔کلکتہ ان کے سینے میں دل بن کر دھڑکتا ہے۔اورایسا کیوں نہ ہوکہ ان کی پیدائش کلکتہ میں ہوئی اور یہیں کی گلیوں میں ان کے ابتدائی ایام گذرے۔ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔اعلی تعلیم کے لئے انھوں نے شہر کلکتہ کے ایک تاریخی اور مقبول ’مو لانا آزاد کالج‘میں داخلہ لیا۔جہاں سے انہوں نے 1988 میں بی۔اے (آنرس)کا امتحان اعزازی نمبروں سے پاس کیا اور پھر1990میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔
فہیم اختر دور طالب علمی سے ہی اردو ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔’نیا افق‘کے عنوان سے ان کاایک مضمون آل انڈیا ریڈیو سے بھی نشر ہوا تھا جس کی سامعین نے بڑی پزیرائی کی تھی۔فہیم اختر کی زندگی نے کروٹ لی اور انہیں کلکتہ کو خیر باد کہہ کر لندن جانا پڑا۔ان کی زندگی میں بہت سارے نشیب و فرازآئے مگر ان کے حوصلے کو پست نہیں کرسکے۔انہوں نے ملک سے دور رہ کر بھی ادب کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے رکھا اور اردو زبان و ادب کی شمع اپنے دل میں جلائے رکھی۔انھوں نے کنگسٹن یونیورسٹی (لندن)سے social work کی ڈگری حاصل کی اور بطور رجسٹر ڈ سوشل ورکر st.halier hospital سے وابستہ ہیں۔
فہیم اختر سماجی فلاح بہبود کے کام سے جڑے ہیں اور یہ کام انھیں لوگوں کے دکھ درد،احساس وجذبات کے مزید قریب لے آیا۔چونکہ وہ خود ایک حساس ادیب کا دل رکھتے ہیں جس سے وہ لوگوں کی درد کو بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ فہیم اخترمغربی ملک میں رہنے کے باوجود مشرقی تہذیب و تمدن کے علمبردارہیں اور وہ وطن سے دور رہ کر بھی وطن کی خوشبو کو اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔
فہیم اختر ایک کالم نویس ہیں۔ان کے کالم نہ صرف ہندوستان بلکہ یوروپ کے مختلف اخبارات میں اور ویب پورٹلوں پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کے منتخب کالموں کا مجموعہ ”لندن کی ڈائری“ منظر عام پر آکر مقبول ہوچکا ہے۔’ایک گریزا ں لمحہ ان کا اولین افسانوی مجموعہ ہے۔جسے قارئین اور ناقدین نے محبتوں سے نوازا۔”فہیم اختر حیات و مقصد“کے نام سے ایک کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔
فہیم اختر نے بطور ایک سماجی کارکن اپنی پہچان تو بنائی ہے لیکن وہ ادبی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔انھوں نے کلکتہ میں اپنے والد محترم کے نام پر ایک ادبی اور سماجی تنظیم”صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی“ کا قیام کیاجو شہر اور شہر کے مضافاتی علا قوں کے نو جوانوں کو تربیتی کورسوں کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی میں تعاون کرتی ہے۔فہیم اختر انگلینڈ کے علاوہ ترکی، ہالینڈ، جرمنی، مراقش، ماریشس، ایران جیسے ممالک کا سفر کرچکے ہیں۔ان ممالک میں ان کے سفر کا مقصد اردو زبان و ادب کا فروغ ہے۔ انھوں نے مختلف عالمی سمیناروں میں شرکت کی ہے اور مقالے بھی پیش کیے ہیں۔ان کی ادبی و سماجی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے برطانوی حکومت نے انھیں 2011میں civic award for community contribution سے نوازا۔۔علاوہ ازیں 2012میں Asian, who`s who magazine میں ان کا نام شامل کیا جواپنے آپ میں کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔
فہیم اختر نے بطور افسانہ نگار بھی اپنی شناخت بنائی ہے۔ ان کے افسانوں میں مشرقی و مغربی تہذیب کی عکاسی واضح طور سے محسوس کی جاسکتی ہے۔میں شمس الرحمان فاروقی صاحب کے اس قول سے اتفاق رکھتی ہو ں کہ”فہیم اختر آجکل کے عام افسانہ نگار کی طرح ہیں بھی اور نہیں بھی۔ہیں اس لئے کیونکہ ان کے افسانوں میں افسانویت کے ہر ایک جز کو اجاگر کیا گیا ہے اور نہیں اس لئے کہ ان کے افسانوں میں نہ صرف مغرب بلکہ مشرق کے مسائل کو بھی آئینہ دکھایا گیا ہے“۔جہاں ان کے افسانوں میں محبت کی چاشنی ملتی ہے تو محبت کا بھر م بھی ملتا ہے۔درد کی کسک جیسی کیفیات جا بہ جا پائی جا تی ہیں۔جس کی ایک عمدہ مثال ان کا افسانہ’پگھلتا جسم‘ہے۔
افسانہ ’رکشہ والا‘ میں افسانہ نگار نے غریبوں کی حالت زار اور ان کا المیہ بیان کیا ہے۔شہر کلکتہ میں ایک ایسا رکشہ چلا یا جاتاہے۔جس میں رکشہ والا اپنی ہاتھوں سے سواری بیٹھاکر رکشہ کھینچتا ہے اور سواری کو ان کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اب اس رکشے پر پابندی لگادی گئی ہے۔یہ رکشہ جو قدیم کلکتہ کی پہچان رہاہے اور سینکڑوں غریبوں کے رزق کا ذریعہ تھا مگر افسوس اب وہ بے سہارا ہوچکے ہیں۔افسانہ رکشہ والا میں غریب رکشے والے کی داستان حیات بیان کی گئی ہے۔افسانہ پڑھ کر آپ خود ان کی موجودہ حالت سے واقف ہوسکتے ہیں۔افسانہ ’ایک گریزاں لمحہ‘اور ’سر کل لائن میں ایک خفیف محبت کی جھلک ملتی ہے۔افسانہ’خواب کا ایک انجانا رشتہ‘میں نادیہ کی کہانی،نادیہ کے کردار کو ایک ایسی خاتون کے روپ میں پیش کیا گیا ہے جس کا طلاق ہو جاتا ہے اس کے باوجودکہ وہ ایک بے حد خوبصورت دوشیزہ تھی اوراس کی خوبصورتی نہ جانے کتنی آنکھوں کی تسکین کی وجہ بنتی تھی۔پھر بھی نادیہ کا طلاق ہو جا تا ہے اور اسے سماج کی ایسی نگاہوں سے گزرنا پڑتا تھا جس سے کسی بھی عورت کو گزر نا ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ اس افسانے میں بھی افسانہ نگار نے سماج کی تلخ حقیقت کو اجاگر کر نے کی کوشش کی ہے۔افسانہ ’گواہی‘ میں گومتی جو ایک غریب کی بیٹی ہوتی ہے اس کی شادی اور شوہر کے گم ہو جانے کا المیہ بعد میں خود اس کی ذات کا المیہ بن جاتا ہے۔ افسانہ ”گواہی“ میں سماج کی تلخی کا ذائقہ ملتا ہے۔افسانہ ’ڈور بیل‘ کا اختتام افسانہ نگار نے حیرت انگیز مگر مزاحیہ انداز میں کیا ہے۔افسانہ’بیوٹی پارلر‘ میں افسانہ نگار نے طنز سے کام لیا ہے۔
فہیم اختر کے ا فسانوں کے عنوانات بھی بڑے اچھوتے اور دلچسپ ہوتے ہیں جن پر نظر جاتے ہی مطالعے کی طرف دل راغب ہوجاتا ہے۔جیسے ’کچھ تو لوگ کہیں گے‘آئی لو یو‘ پیاسی ندی‘ ٹوٹے بندھن‘ ایک گریزاں لمحہ‘ وندے ماترم‘ کالی پتلون‘کتے کی موت وغیرہ ہیں۔ فہیم اخترکاایک اور افسانوی مجموعہ ”فہیم اختر کے افسانے ستمبر 2019 میں منظر عام پر آچکا ہے۔اس میں 24 افسانے ہیں۔فہیم اختر صاحب کے لئے دعاگو ہوں کہ اللہ ان کے ذوق و شوق اور قلم کی رفتار میں مزید اضافہ کرے تاکہ ان کی معیاری تخلیقات سے ہم فیضیاب ہوتے رہیں۔