Home تجزیہ لوکیش منی کی الجھن- عمر فراہی

لوکیش منی کی الجھن- عمر فراہی

by قندیل

سحر ہوگی اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں لیکن لوگوں کو تاریکی کے مراحل سے گزرتے ہوۓ اذیت کا جو مزہ چکھنا ہے اگر وہ اس کا اعتراف کر لیں تو روشنی کی تلاش میں پاگلوں کی طرح ادھر ادھر بھٹکیں ۔
حالات جیسے بھی ہوں آپ آنے والے خطرات کا مقابلہ کر سکیں یا نہ کر سکیں لیکن اگر آپ کو آنے والی تباہی کا احساس نہیں ہے اور آپ یہ جھوٹ بول کر لوگوں کو مطمئن کر رہے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے تو یہ تسلی کی باتیں آنے والی نسلوں کو تدبیر کے لیے آمادہ کرنے کی بجائے تھپکی دے کر سلانے کے جیسا ہے ۔
سوال یہ نہیں کہ ملت اسلامیہ ہند کو نیند سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔سوال یہ ہے کہ جس طرح مسلسل اس کے اطراف میں گھیرا تنگ ہو رہا ہے اسے نیند آتی ہی کیوں ہے ۔ اور اگر آتی ہے تو اس کا دو ہی مطلب ہو سکتا ہے ۔ یا تو وہ بے حس ہے یا انہیں بھی حالات کی سنگینی کا علم نہیں ہے یا ان کے علماء اور اہل دانش حالات کی ٹھیک سے ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں ۔آپ کہیں گے کہ اگر ہمیں معلوم بھی پڑ جائے تو بھی ہم کر کیا سکتے ہیں ۔
بالکل ہم کچھ نہ بھی کر سکیں تو بھی رو تو سکتے ہیں !
ہمارے چہروں سے پریشانی دکھ اور تشویش کے آثار تو نظر آنا‌ ہی چاہئے تاکہ دنیا کو اور ہماری آنے والی نسلوں کو معلوم ہوتا رہے کہ ہم آزاد نہیں ہیں ۔ ہمارے گھروں کو بلڈوزر سے گرایا جارہا ہے ۔ہماری نسل کشی کی بات کی جارہی ہے اور جب ہمارا نوجوان چیختا ہے تو اس کی آواز کو دبانے کے لیے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے ۔
یہ دکھائی بھی دے رہا ہے کہ کس طرح آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کو پیچھے ڈھکیلا جارہا ہے ۔کیا یہ بات ہمیں اور غیروں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ آزادی انصاف اور جمہوریت کا یہی چہرہ ہے ؟ہمیں کبھی فسادات کے ذریعے تباہ و برباد کیا گیا کبھی دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں جیلوں کے پیچھے ڈال دیا گیا مگر جو اصل مجرم تھے انہیں آزاد کروا لیا گیا تو کیوں ؟
صرف ہماری ہی طلبہ تنظیم پر دہشت پھیلانے کا الزام لگا کر پابندی لگائی گئی مگر جو قتل اور آگ لگانے کی بات کرتے رہے اور جنھوں نے ہماری عبادت گاہوں کو شہید کیا وہ ساری ہندو تنظیمیں آج بھی زہر اگلنے کے لیے آزاد ہیں تو کیوں ۔مگر پوپولر فرنٹ کے لوگ بے باکی کے ساتھ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو ان کے لوگوں کو بھی جیلوں میں ڈال کر پابند لگا دی جاتی ہے !
سیکولرسٹ اور لبرلسٹ اس ناانصافی کے خلاف مگر مچھ کے آنسو بہاتے تو ہیں مگر توازن کے ساتھ ۔یعنی اگر پوپوپلر فرنٹ پر پابندی لگی تو آر ایس ایس پر کیوں نہیں ۔
دوسری طرف مسلمانوں کے اہل دانش جنھوں نے پوپولر فرنٹ کی کسی مجلس میں کبھی شرکت نہیں کی ہوگی مگر آرایس ایس کے ایک عام اہلکار کی دعوت پر ننگے پیر چلے جاتے ہیں ۔مطلب صاف ہے کہ نام نہاد مسلم تنظیموں نے اپنے نوجوانوں کی تنظیموں کو تو فسادی ہونے کا اعتراف کر لیا مگر آرایس ایس ان کے لیے اچھوت نہیں ہے !
ملک میں جب کبھی سدبھاؤنا کانفرنس ہوتی ہے تو اس میں شامل ہونے والے ہندو پنڈتوں اور سادھوؤں کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہندو تنظیموں کی فرقہ پرست ذہنیت کا اعتراف کریں مگر اس کے برعکس جس کانفرنس میں مولانا ارشد مدنی کے بیان پر جین پنڈت لوکیش منی نے اپنا احتجاج درج کروایا ایک ہندو پنڈت جب بولنے کےلیے آیا تو اس نے اپنی بات کی شروعات ہی اس طنزیہ گفتگو سے کی کہ وہ ابھی امریکہ میں تھا اور ائیر پورٹ کےلیے جس گاڑی سے آرہا تھا اس کا ڈرائیور پاکستانی مسلمان تھا ۔راستے میں اس ڈرائیور نے کہا صاحب پاکستان اور ترکی کے حالات بہت خراب ہیں وہاں کے لیے دعا کریں ۔سوال یہ ہے کہ کیا کوئی پاکستانی مسلمان ایک ہندو پنڈت سے دعا کےلیے کہے گا ؟ پھر اس پنڈت نے اپنی من گھڑت کہانی سے مجمعے کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ ہندوستان کے مسلمان دنیا کے مسلمانوں سے بہت بہتر ہیں مگر کبھی کبھی قصاب جیسے لوگ حالات کو خراب کر دیتے ہیں لیکن انہیں فکر کرنے کی بات نہیں اسی دیس میں عبدالکلام جیسے مسلمان بھی پیدا ہوئے ہیں ۔قصاب کی تو قبر کا بھی پتہ نہیں لیکن عبدالکلام کی قبر پہ پھولوں کی برسات ہوتی ہے ۔پھر اس نے کہا کہ دیس کی ترقی ہزاروں عبدالکلام پیدا کرنے میں ہے نہ کہ قصاب ۔اس طرح یہ ہندو پنڈت بھی اپنے طنزیہ انداز میں مسلمانوں کو فسادی ثابت کر کے چلا گیا ۔مولانا ارشد مدنی کے ذہن میں یقیناً یہ ساری باتیں رہی ہوں گی کہ کس طرح بھارت میں ریاستی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ برا سلوک ہو رہا ہے انہوں نے یہ کہنے کہ جسارت کی کہ ہم بھارت میں مہاجر نہیں بلکہ بھارت ہمارے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے ۔چونکہ ان کے اندر ہندو پنڈتوں کی طرح مکاری نہیں تھی اور اب ان کی عمر بھی وہ نہیں رہی کہ وہ لفظوں کے پیرہن میں مکارانہ رویہ اختیار کرتے انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اسی سرزمین پر آدم کو اتارا گیا اور آدم پہلے مسلمان تھے جنھوں نے اللہ کے ایک ہونے کی گواہی دی اور انہوں نے جس اللہ کو پکارا اوم اسی کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔اور اسلام اس وقت بھارت میں آیا جب نہ رام تھے نہ شنکر نہ کشن نہ کنہیا۔یہ بات انہوں نے بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کے رویے کے خلاف کہی تھی لیکن یہ بات اسٹیج پر بیٹھے شنکرا چاریوں کو بری کیوں لگی ؟ مولانا ارشد مدنی نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جو ماضی میں نہ کہی گئی ہو مگر آزادی کے بعد سے ہی جس طرح مسلمانوں کی قیادت کو پست کیا گیا ۔مسلمان مبلغین کی آواز کو دبانے کےلیے انہیں ملک بدر کیا گیا ہے تاکہ اب وہ صرف چاپلوسانہ رویہ اختیار کریں اور کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہو چکے ہیں اسٹیج کے سادھوؤں کو مولانا مدنی کی زبان سے اتنے سخت رویے کی امید نہیں تھی ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment