Home تجزیہ لاک ڈاؤن،رمضان اورصدقات وخیرات-منصور قاسمی

لاک ڈاؤن،رمضان اورصدقات وخیرات-منصور قاسمی

by قندیل

کورونا ایک ایسامرض یا وبا ہے،جس کا علاج ماہرین طب اب تک نہیں ڈھونڈپائے ہیں، متواتر تحقیق و کوشش جاری ہے مگر کامیابی نہیں مل پا رہی ہے۔ کورونا نے عالم رنگ و بو کو بے نور و بے رنگ کردیا ہے، اس کے خوف و وحشت سے ہر شخص نے خود کو مقیدکر لیا ہے۔سرکار لاک ڈاؤن پہ لاک ڈاؤن کئے جا رہی ہے، جس کی وجہ سے کئی زندگی منزل تک پہنچنے کی کوشش میں راہ میں ہی دم توڑ رہی ہے تو بھوک کی تاب نہ لاپانے کی وجہ سے گھر میں ہی کئی سانس رک جا رہی ہے، عجیب خوفناک منظر ہے۔حسن اتفاق کہیں یا سوء اتفاق رمضان کا مبارک مہینہ بھی لاک ڈاؤن میں گزر رہا ہے، یقینا بہت سے روزے دار عبادت و تلاوت اور ذکر و اذکار کے ذریعہ اس لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا رہے ہوں گے؛تاہم بہت سے روزے دار وہ بھی ہیں، جو عبادت تو کررہے ہیں؛ مگر سحور و افطار میں سوکھی روٹی اور پانی پرگزارا کرنے پر مجبور ہیں، انہیں دن رات نان شبینہ کی فکر ستا رہی ہے، اپنے چھوٹے چھوٹے معصوموں کا پھول سا چہرہ دیکھ کر تڑپ رہے ہیں۔
رمضان وہ شہر خیر ہے،جس میں ہر طبقات کے لوگ ہمیشہ بڑھ چڑھ کر صدقات و خیرات کرتے رہے ہیں، یومیہ مزدور کو بھی ہم نے دیکھا ہے، اگر کسی غریب و مسکین نے اس کے آگے ہاتھ پھیلا دیا یامدرسے کی رسید لے کر کوئی پہنچ گیا تو وہ خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے؛ بلکہ اپنی بساط سے بڑھ کردیتے؛مگر اس سال مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں،نچلا طبقہ تو اس سے متاثر ہوا ہی ہے متوسط طبقہ بھی پریشان ہے، جو اس کی جمع پونجی تھی،وہ یاتو ختم ہو گئی ہے یا اختتام کے قریب ہے،آخر وہ کیا کرے؟ اہل مدارس جس کے سالانہ اخراجات کا منصوبہ ہی رمضان کے صدقات و زکات پر بنتے تھے، وہ وصولی کے لئے یا تو نکل نہیں پا رہے ہیں یا یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کس سے مطالبہ کریں اور کس سے نہیں، نہ جانے اس کی مالی پوزیشن کیا ہے؟اب جبکہ حکومت کا مسلط کردہ لاک ڈاؤن اور خالق و مالک کی طرف سے رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے تو ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ ہم بھر پورصدقات و خیرات کریں!
صدقہ کہتے ہیں،جو مال اللہ کی راہ میں اس کی خوشنودی کے لئے نام و نمود کے بغیر غرباء، مساکین یا کسی کار خیر میں خرچ کیا جائے،،۔ صدقہ کی تین قسمیں ہیں۔(۱)فرض جیسے زکات،جس کا نکالنا ہر صاحب نصاب پر فرض ہے، نہ نکالنے والا گنہگار ہوگا، اللہ نے زکات کی ادائیگی کا بار بار حکم دیا ہے۔(۲)واجب جیسے نذر،قربانی اور صدقہء فطر،اس کا ادا نہ کرنے والا بھی مستحق عتاب ہوگا۔(۳) نفلی صدقات یا عوام الناس میں معروف خیرات: اس کے ادا نہ کرنے کاکوئی گناہ یا عتاب تو نہیں ہے تاہم ادا کرنے پر قرآن و احادیث میں بے شمار فضائل آئے ہیں۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر)ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا زیادہ)اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اس سے بھی اضافہ فرما دیتا ہے، اور وہ بڑی وسعت والا ہے،،(البقرہ:۱۶۲)دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:اور تم جو بھی کوئی چیز(اللہ کی راہ) میں خرچ کروگے، تو اس کا فائدہ خود تمہیں ہی پہنچے گا اور تم جوکچھ بھی خرچ کرو،صرف اللہ کے لئے کرو، اور جو بھی کوئی چیز (اللہ کی راہ) میں خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا،،(البقرہ:۲۷۲)اور ایک جگہ رب کہتا ہے:وہ کون ہے جو اللہ کو قرض دے پس وہ اس کے لئے کئی گنا بڑھا دے، اور اس کے لئے بہت ہی عمدہ اجر(یعنی جنت) ہے،،(الحدید:۱۱)ان کے علاوہ بھی بہت سی آیتیں ہیں جومختلف اسالیب میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب اور اجر عظیم کی خبردیتی ہیں، اور نہ کرنے والوں کو زجر و توبیخ کرتی ہیں،چنانچہ ارشادہے: جب تک اللہ کی راہ میں مال محبوب و مرغوب تم خرچ نہیں کرو گے،ہرگز بھلائی (یعنی اللہ کی رضااور اس کی جنت) نہیں پاؤگے۔(اٰل عمران:۲۹)
حدیث پاک میں ہے کہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:جو کوئی ایک کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے صدقہ کرے،اور اللہ حلال کمائی سے ہی صدقہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ دائیں ہاتھ میں لیتا ہے پھر اس کے مالک کے لئے اسے بڑھاتا رہتا ہے،جس طرح کوئی تم میں سے اپنا بچھڑا پالتا ہے یہاں تک کہ وہ(صدقہ)پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے (بخاری)ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے کر وبچو!(بخاری)دوسری جگہ فرمایا: صدقہ گناہ کو ایسے مٹادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے (ترمذی) قیامت کے دن جن سات آدمیوں کو عرش کے سایہ کے نیچے جگہ ملے گی،ان میں ایک وہ بھی ہوگا جنہوں نے اللہ کی خوشی کے لئے صدقہ کیا ہو۔فخر کائنات محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی اللہ کے عرش کے سایہ کے نیچے ہوگا،جس نے اللہ کی رضا کے لئے چھپا کر اس طرح صدقہ کیا کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے کہ دائیں ہاتھ سے کیا دیا گیا۔
مذکورہ آیات و احادیث میں صدقات و خیرات کی اہمیت و فضیلت جو بیان کی گئی ہے وہ قابل دعوت و فکر اور لائق عمل ہے،کبھی سو گنا اضافہ کر دینے کی خوشخبری تو کبھی پورا پورا بدلہ دینے کی نوید، کبھی جنت کی بشارت تو کبھی عرش کے سایے میں جگہ ملنے کی مژدہء جا نفزا،بس شرط یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ، ریا و سمعہ کے بغیر فقط رضائے الٰہی کے لئے مال محبوب خیرات کیا ہو۔یوں تو صدقہ کرنے کا کوئی وقت متعین نہیں ہے تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو ناگفتہ بہ حالات بن گئے ہیں، مزید ما ہ مبارک بھی ہے، جس کے وجہ سے اس وقت صدقے کی اہمیت و فضیلت اور بڑھ گئی ہے،یہاں یہ بات دھیان رکھنے والی ہے کہ متوسط طبقات جو فاقہ کشی پر مجبورہیں؛مگر دست سوال پھیلا نہیں،سکتے ان کا خیال رکھا جانا ضروری ہے، ان میں رشتے دار بھی ہو سکتے ہیں، غرباء اور مساکین کو دینے پر یقینا ثواب ملے گا؛مگر رشتے دار کو دینے سے دوہرا ثواب ملے گا۔ اسلام کا نظریہ ء خیرات یہ ہے کہ جو بھی انسان ضرورت مند ہو اس کی دست گیری کی جائے، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، گنہگار ہو یا عابد و زاہد، بددین ہو یا دیندار۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحمان کی عبادت کرو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ،سلام کو عام کرو تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤگے۔(ترمذی) مدارس جو دین کے قلعے ہیں،جہاں صبح و شام قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں لگائی جاتی ہیں، ان کی حفاظت کی ذمہ داری اس سال اور ہم پر بڑھ گئی ہے، اس لئے خدا نے جنہیں دولت سے نوازا ہے، وہ آگے بڑھیں اور اپنی وسعت کے مطابق صدقات و خیرات کریں!ان شاء اللہ اس سے نفس کی پاکی ہو گی، بخل سے نفرت ہوگی، اس کے بدلے میں اللہ اس دنیا میں ہی رزق میں برکت دے گا، غرباء و مساکین آپ سے محبت کریں گے، اہل مدارس ممنون و متشکرہوں گے، نیز باہمی کفالت اور تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment