لوڈ شیڈنگ اک ایسی ابتلاء ہے جس پرصبرکرنے کا اجراسی دنیا میں بجلی کے بل کی صورت میں فوری مل جاتا ہے۔ عموما” بجلی کا بل ملنے پرصارف کو جو کرنٹ لگتا ہے وہ لوڈ شیڈنگ کے باعث بجلی نہ ملنے کی کسر پوری کردیتا ہے۔ آج کل عوام کو دل کا دورہ پڑنے سے زیادہ بل کا دورہ پڑنے کے واقعات سننے میں آرہے ہیں۔ ‘لوڈ شیڈنگ’ اب ‘لوگ شیڈنگ ‘ بنتی جارہی ہے۔
ستم درستم یہ کہ اکثر صارفین بجلی کے بل کی رقم کے اعداد کو میٹرریڈنگ سمجھ لیتے ہیں۔ اور جب وہ اس کی تصحیح کرانے کی غرض سے بجلی کے دفتر پہنچتے ہیں تو وہاں ایرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھے کسی افسر سے شکایت کرنے کے بجائے اس کی اوراس کی فیملی کی خیروآفیت پوچھنا زیادہ مفید سمجھتے ہیں تاکہ وہ چند لمحے ہی صحیح ٹھنڈی ہوا سے مستفیض ہوسکیں جس کے لیے وہ لوڈ شیڈنگ کے باعث ترستے رہے ہیں۔ ان کو بجلی کے اس ایرکنڈیشن دفترمیں اک کاونٹر سے دوسرے کاؤنٹر کے چکر لگا نا زرا سا بھی ناگوارنہیں گزرتا۔ کچھ پل ہی سہی اچھا وقت گزارنا کسے برا لگتا ہے۔
اپنے ایرکنڈیشنڈ کمرہ میں بیٹھنے کا جواز دیتے ہوئے وہ افسراکثر کہتے سنے گئے ہیں کہ اگر وہ اس طرح ایرکنڈیشنڈ کمرہ میں نہیں بیٹھیں گے توعوام کی شکایات بھلا کون سنے گا۔ انسانی ہمدردی سے لبریزان کلمات کو سن کر متاثرین کے جسم پسینے سے تر بہ تر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کے فوائد شمارکرنا محکمہ بجلی کے بھی بس کی بات نہیں ۔ بجلی کی بچت اورتحفظ نظام بجلی تو ایسے فوائد ہیں جن کی تفصیل اوراعداد و شمار محکمہ بجلی کا کوئی ادنی سا ملازم بھی مہیا کراسکتا ہے۔ مگر لوڈ شیڈنگ کے وہ فوائد جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے وہ تو صرف لوڈ شیڈنگ کے متاثرین ہی بتا سکتے ہیں۔
سب سے پہلا فائدہ تو یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان کو اس زندگی میں کیے گئے اس کے گناہوں کی پاداش میں روزمحشرجس جہنم میں جلائے جانے کا خوف دلایا جاتا ہے وہ لوڈ شیڈنگ کے مرہون منت اس کی آگ کی شدت کا اسی زندگی میں ہی گھر بیٹھے بذات خود مشاہدہ کرلیتا ہے۔ اس کے لیے موت آنا شرط نہیں۔ داروغہ جہنم گھرمیں بیوی کی شکل میں پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے جو لوڈ شیڈنگ سے بھڑکائی ہوئی جہنم میں اپنی جلی کٹی باتوں اورطعنوں سے مسلسل ایندھن فراہم کرتی رہتی ہے۔ بھلے ہی لوڈشیڈنگ کے سبب گھر کے بجلی کے تاروں میں کرنٹ نہ دوڑ رہا ہو مگر شوہر بچارے کو 440 وولٹ کے پورے کرنٹ پھر بھی لگ رہے ہوتے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کی اذیت و تشدد کی موجودگی میں اب کسی خطیب اورواعظ کو جہنم سے ڈرانے کے لیے اس کی خیالی منظر کشی کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اول تو حالت لوڈ شیڈنگ میں کسی خطیب یا واعظ کا عوام کے سامنے جہنم کی آگ اوراس میں جلائے جانے سے متعلق تفصیل پر کوئی واعظ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی موسلا دھار بارش کے دوران کسی کو یہ سمجھانے بیٹھ جائے کہ آسمان سے پانی کیسے برستا ہے۔ موسم گرما کے دوران ہونے والی مسلسل لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو جھیلنے کے بعد تو خود اکثرواعظین کا آخرت میں بھڑکائی جانے والی جہنم پرایمان متزلزل ہوتے دیکھا گیا ہے اوروہ بھی عام متاثرین لوڈ شیڈنگ کی طرح اس بات پر یقین کرنے لگتے ہیں کہ انسان کو اس کے بداعمالیوں و گناہوں کی سزا اسی دنیا میں ہی لوڈ شیڈنگ کی صورت میں دیدی جاتی ہے۔ روز محشر والی جہنم کی تنبیہ تو صرف دنیا میں ایرکنڈیشن زدہ لوگوں اور محکمہ بجلی کے عملہ اور ذمہ داران کے لیے کی جاتی ہے۔
یوں بھی آخرت میں گناہ گاروں کے لیے تیار کی جانے والی جہنم کا لوڈ شیڈنگ کے ان دیکھے شعلوں سے بھڑکنے والی جہنم کا بھلا کیا تقابل؟
آخرت کی جہنم میں کسی بندہ کو بھیجنے سے پہلے حساب و کتاب کے مرحلہ سے گزارا جائیگا اور اسے اس کا اعمال نامہ بھی دکھایا جائے گا تاکہ وہ خود یہ دیکھ سکے کہ اسے کن گناہوں کی پاداش میں جہنم رسید کیا جارہا ہے۔ اگر کسی طرح توبہ قبول ہوگئی تو اس جہنم سے نجات ملنے کی بھی امید کی جا سکتی ہے۔ مگرلوڈ شیڈنگ کی جہنم کی سزا نازل کیے جانے سے پہلے نہ کوئی مہلت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان گناہوں کی نشاندہی کرائی جاتی ہے جن کی پاداش میں اس جہنم میں اس بے گناہ کو دھکیلا جاتا ہے۔ اس کا انحصار متاثرین کے اعمال کے بجائے محکمہ بجلی کے بد اعمالیوں پرہوتا ہے۔ یہاں توبہ واستغفاربھی لوڈ شیڈنگ کی جہنم کی آگ کی شدت کم نہیں کراسکتے۔ یہاں تو پارسا اورگناہ گارسب ہی یکساں طور سے ایک ہی سزا بھگتتے نظرآتے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کا دوسرا فائدہ یہ مانا حاتا ہے کہ جوعوام لوڈ شیڈنگ کی آگ میں اپنی ساری زندگی میں قبل ازموت ہی جل جل کر خاک ہوچکے ہوتے ہیں وہ محشر میں حساب کتاب کے بغیرسیدھے جنت میں بھیج دیے جائیں گے کیونکہ کردہ یا ناکردہ گناہوں کی سزا دوبار دی جانا عدل کے خلاف ہوگا۔
کیا معلوم قبرمیں لوڈ شیڈنگ کے متاثرکی حالت زاردیکھ کرمنکرنکیرین سوالات کرنے کے بحائے اس کو اپنے ہاتھ سے پنکھا جھلتے نظرآئیں ۔ کچھ بعید نہیں کہ دونوں فرشتے لوڈ شیڈنگ کے مارے اس مصیبت زدہ کے ترکہ میں چھوڑے گئے بجلی کے بل کی ادائیگی بھی خود ہی کرادیں تاکہ اس کا بقیہ ترکہ قرق ہونے سے بچ جائے۔ اب یہ تو روزمحشرہی معلوم ہوگا کہ فرشتے محکمہ بجلی کے اہلکاروں سے بجلی کے ان بلوں کی وصولیابی کس طرح کریں گے۔ دنیا کی عدالتیں ، ہولیس اور انتظامیہ تو ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ اس دنیا میں تو آج تک کوئی ان کا بال بیکا بھی نہیں کرسکا ہے۔ یہ اک واحد محکمہ ہے جہاں حکومت وقت کا بھی قانون اورحکم نہیں چلتا۔
لوڈ شیڈنگ کے اثرات کا اک مالی فائدہ بھی یہ بتایا جاتا ہے کہ غریب اورمتوسط طبقہ کے لوگ مہمان داری کے اخراجات سے نہایت خندہ پیشانی اورعزت کے ساتھ بچ جاتے ہیں جو بعد میں بجلی کے بل کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ ہی اک ایسا مدلل اور قابل قبول جواز مانا جاتا ہے جس کی موجودگی میں بڑا سا بڑا ڈھیٹ اورعادی مہمان بھی کسی کے یہاں آدھمکنے سے پرہیز کرتا بلکہ خوف زدہ نظرآتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کےعذاب کے جیتے جاگتے مناظر کے مشاہدے سے مہمان تو مہمان کوئی چوربھی کسی لوڈشیڈنگ زدہ علاقہ میں شب خون مارنے کی ہمت نہیں کرتا۔ لوڈ شیڈنگ کے دوران مہمان اورچورکی حیثیت یکساں مانی جاتی ہے۔ دونوں کو نامراد واپس جانا پڑتا ہے۔
ایسی صورت حال میں صرف شہرکی پولیس اورانتظامیہ ہی چین کی نیند سوتی رہتی ہے کیونکہ شہر کے سارے باشندہ خود ہی ساری شب اپنے گھروں کی چوکیداری کرتے پائے جاتے ہیں۔
سنا ہے کہ شہر کے سارے چوراچکے لوڈ شیڈنگ کے سبب اپنے ذریعہ معاش کے اس طرح مفقود ہوجانے کے نتیجہ میں اپنے مالی نقصان کا معاوضہ محکمہ بجلی کےعملہ سے بجلی کے تارمیں کانٹا ڈال کرمفت بجلی حاصل کرکے کرتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے عصرحاضر میں بجلی کے تاروں میں کانٹا ڈالنا شرعی طور سے جائز قراردیدیا گیا ہو ورنہ ملاؤں کے گھروں سے تاروں پرکانٹا ڈالے جانے کے واقعات سننے میں نہ آتے۔ ایک مولوی صاحب نے اس کا یہ جواز بھی پیش کیا کہ وہ دراصل یہ کام محکمہ بجلی کی زیادتی اورناانصافی کےخلاف احتجاج کے طور پر کرتے ہیں اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنا ہرشریف شہری کا بنیادی حق ہے۔ یوں بھی لوڈ شیڈنگ کے سبب بجلی آتی ہی کہاں ہے۔ اب ان کی پیروی میں پوری بستی اسی طریقہ سے روزانہ احتجاج کرتی رہتی ہے۔
کچھ انصاف کے متلاشی تاجروں کا ماننا ہے کہ جس طرح محکمہ بجلی لوڈشیڈنگ کے ذریعہ ان کے لاکھوں روپے کا نقصان کرنے کا ذمہ دار ہے اس کے مقابل ان کا بجلی کے تاروں میں کاںٹا ڈال کرتھوڑی بہت مفت بجلی لے لینا کانٹے پراوس کے برابربھی نہیں۔ دیکھا جائے وہ اسی طرح اپنے ہی لوٹے ہوئے پیسے واپس لینے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح اک چور نے کی تھی۔ اس چور نے اک کار کو روک کراس میں بیٹھے شخص کی کنپٹی پر پستول رکھ کرکہا :
” اپنے سارے پیسے میرے حوالے کردو۔”
وہ شخص کہنے لگا : ” تم مجھے جانتے نہیں ہو میں محمکہ بجلی کا جنرل منیجر ہوں۔ ”
چور نے پستول لہراتے ہوئے ڈپٹ کرکہا:
” پھرتوتم میرے پیسے میرے حوالے کرو”
لوڈشیڈنگ کے سبب شہرکی کم و بیش سب ہی تجارتیں ٹھپ ہوجاتی ہیں سوائے ایک تجارت کے اور وہ ہے موم بتی کی تجارت ۔ یہ اک ایسی تجارت ہے جو لوڈ شیڈنگ کے طفیل ہی پھلتی پھولتی ہے۔ ساری رات بغیربجلی کے گزارنے کے بعد علی الصبح سب لوگ موم بتیوں کا ذخیرہ کرنے کے لیے دوڑتے نظرآتے ہیں۔ جتنا اسٹاک بازار میں ہوتا ہے وہ چشم زدن میں ختم ہو جاتا ہے۔
دوران لوڈ شیڈنگ موم بتیوں کی شارٹج کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری کالونی کے باہرنکڑ پرموجود چراغ شاہ کے مزارکےاحاطہ میں اب جمعرات کو بھی کوئی موم بتی جلانے نہیں آتا۔
کیونکہ جب زندوں کی زندگی کو روشن رکھنے لیے موم بتیاں کافی نہیں ہوتیں تو بھلا مردوں کے لیے کیوں فضول خرچی کی جائے۔ ان کو تو یوں بھی اندھیرے سے ڈر نہیں لگتا وہ تو لوڈشیڈنگ نہ ہونے پر بھی اندھیرے میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ کچھ عقیدتمندوں کو مزار مبارک سے ادھ جلی اور صحیح و سالم موم بتیاں سمیٹتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے جس سے وہ اپنے اور دوسروں کے گھرروشن کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے قرب میں مزار کی اک برکت یہ بھی مانی جاتی ہے کہ وقت ضرورت بازار میں موم بتیاں نہ ملنے کی صورت میں مزار کے مجاورکو چڑھاوا دے کرموم بتیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مجاورمزارپرنورقلب سے کام چلا لیتا ہے۔
لوڈ شیڈنگ کا اک فائدہ یہ بھی مشاہدہ میں آیا کہ بجلی کے غائب رہنے سے لوگ اپنے موبائل زیادہ دیرتک چارج نہیں رکھ سکتے جس کے سبب وہ مجبورا” اپنے اہل خانہ سے کچھ بات چیت کرنے کی فرصت نکال سکتے ہیں ۔ ہم نے اپنے پڑوسی بجلانی صاحب کے بچوں کو صرف اور صرف لوڈ شیڈنگ کے دوران ہی آپس میں ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ کے چمتکار سے ہی ممکن ہوسکا۔
کچھ ماہرسماجیات کا خیال ہے کہ عصر حاضرمیں نئی نسل کے مختصرترین لباسوں اور بے لباسی کے روزافزوں فیشن کا محرک بھی مسلسل لوڈ شیڈنگ ہی کو قراردیا جاسکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے دوران گریباں چاک کرنا لوگوں کی صرف فیشن ہی نہیں مجبوری بھی ہوتی ہے۔
یوں بھی شائستہ اور وضع دار حضرات کو بھی لوڈ شیڈنگ کے باعث اپنے لباس کو استری کرنے کا کہاں موقع مل پاتا ہے جس کے سبب وہ ہفتوں اک ہی لباس پرگذارا کرنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے کئی ہفتوں مسلسل جاری رہنے کے باعث یہ صورت حال کئی باربڑی قابل رحم ہوجاتی ہے۔
گذشستہ ہفتے ہماری کالونی کے غیورمیاں جب استری نہ ہونے کی وجہ سے جھریوں بھرے ایک ہی لباس کو کئی دن پہننے کے بعد آفس جانے کے لیے نکلے تو کالونی والوں نے اپنی ناک پرہاتھ رکھ لیے۔ مجبورا” انہیں وقت کی تنگی اور بحلی نہ ہونے کے سبب عجلت میں قمیض کی جگہ بنیاں کے اوپراپنے بڑے بھائ کی شادی کی شیروانی پہن کر آفس جانا پڑا۔ یہ بات دیگر ہے کہ آفس والے شیروانی میں ملبوس دیکھ کر انہیں ان کی متوقع منگنی کی مبارکباد دینے لگے تھے۔
اندرون خانہ گرمی اوراندھیرے سے گھبرا کرگھرکے باہرچبوتروں اورچوکوں پرغیر رسمی سماجی اجتماعات اوردیسی چوپا لوں کی ترویج اورتوسیع کا ذمہ داربھی اسی بدنام زمانہ لوڈ شیڈنگ کو مانا جاتا ہے۔
اکثرکالولینز اورمحلوں میں یہ عام مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جوں ہی بجلی کے تار ٹھنڈے ہوتے ہیں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر کھلی فضا میں چوکڑی جماکر گرما گرم مباحث میں رات رات بھراپنا وقت گزارتے ہیں۔
مردوں اورخواتین کی الگ الگ ٹولیاں بن جاتی ہیں جن میں ساس بہو کے قضیوں سے لےکرعالمی سیاست تک تفصیلی گفتگو ہوتی ہے۔
مردوں کی ٹولی میں ان مذاکرات کی ابتداء عموما” محکمہ بجلی کے ذمہ داران اور اہل کاروں کی ماں، بہن ، بیٹیوں کے ان دیکھے اجسام کی پیمائش اوران کے ساتھ زبانی پیچیدہ رشتے جوڑنے سے کی جاتی ہے۔ ان روح افزا تمہیدی کلمات سے گرمی سے بھبھکتے دلوں کو کچھ ٹھنڈک مل جانے کے بعد دیگر سماجی اورسیاسی مسائل کا حل ڈھونڈنے ڈھونڈتےاکثر مرغ سحرکی آواز سنائی دینے لگتی ہے جو لوڈ شیڈنگ کے باوجود بھی اپنے وقت مقررہ پر بانگ دینا نہیں چوکتا۔ مرغ سحر ہی اک واحد آلہ ندا ہے جو بغیر بجلی کے کام کرتا ہے۔
خواتین کی ٹولیوں میں بھی گفتگوکےآغاز میں محکمہ بجلی کے اہل کاروں کو ایسے القاب سے نوازا جاتا ہے جنہیں عرف عام میں کوسنے کہا جاتا ہے۔ جن کو سننے کے بعد سارے مرد وزن کا ہاضمہ درست ہو جاتا ہے۔ اس کوسنہ تھریپی کے بعد لوگ کافی ہشاش بشاش نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد خواتین کو رات گزارنے کے لیے کسی باقاعدہ موضوع کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
کالونی کے باہران جگرسوختہ حضرات کو مصروف مذاکرات دیکھ کراردگرد کے خوانچے اور ٹھیلے والے بھی بغیر بلائے وہاں پہنچ کر اپنے ٹھیہے لگا لیتے ہیں اورساری رات وہاں میلہ کا سا سماں بندھا رہتا ہے۔ چمپی مالش والے بھی ان گھر سے بے گھر ہوئے پریشاں حال بنجاروں کو اپنی خدمات بہم پہنچا کرثواب دارین حاصل کرتے نظرآتے ہیں۔
محلوں کے باہر چوکوں اور نکڑوں پر لوڈشیڈنگ کے ماروں کی اس شب بیداری سے اگرکوئی بری طرح متاثر ہوتا ہے تو وہ ہیں محلے کے آوارہ کتے ۔ یہ کتےعموما” ساری رات ان چوکوں اور چوراہوں پر قبضہ جمائے رہتے ہیں۔ مگر لوڈشیڈنگ کے دوران محلے کے لوگ ان کتوں کی جگہ لے لیتے ہیں اوران کے جلسوں کے باعث ان آوارہ کتوں کو مزید آوارہ ہونا پڑتا ہے۔ محلے والوں کی اس بھیڑمیں ہورہی چیخ و پکار کے جواب میں کتوں کے اور زیادہ بھوکنے سے وہاں اک بیت بازی کا سا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ دورسڑک پر گزرنے والوں کے لیے ۰یہ آوازیں سن کر یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا کہ وہاں کتے بھونک رہے ہیں یا محلے والے۔