Home افسانہ لحاف ( افسانہ ) ـ محمد علم اللہ

لحاف ( افسانہ ) ـ محمد علم اللہ

by قندیل

سردیاں ابھی اپنے جوبن پر نہیں آئی تھیں لیکن شامیں سوگوار سردی کی چادر اوڑھنے لگی تھیں۔ جامعہ میں ہائیجینک کے ایک دم سامنے کا پارک رات ہوتے ہی اداسی کے دیوان سے کوئی غزل نکال کر پڑھنے لگتا تھا۔ ذرا بہت سی رونق نماز شروع اور ختم ہوتے وقت ہوتی جب اللہ کے بندے پارک کے سامنے واقع مسجد میں آتے اور جاتے دکھائی دیتے۔ ہائی جینک کیفے جو دن میں حسین چہروں، زلفوں اور شوخ نگاہوں سے گھرا رہتا تھا وہ بھی سرد شام کی اس اداسی میں ویرانے کی پراسرار کٹیا معلوم ہوتی۔ کیفے میں کام کرنے والا وہ لڑکا جس کے ابا پچھلے برس مر گئے تھے پرانی جرسی میں مڑا تڑا سا بیٹھا رہتا۔ اسے مقررہ وقت تک کیفے کھولے رکھنا تھا کہ یہی اس کی ڈیوٹی تھی،بھلے سے کوئی آئے یا نہ آئے۔ اداس سرد شام میں وہ کاؤنٹر کے پیچھے سے سامنے کی نیم تاریک سڑک کو یوں گھورا کرتا جیسے کسی کا منتظر ہو یا کسی کے چپکے سے گزر جانے کا دھڑکا لگا ہو۔ میں ایک شام ادھر سے نکلا تو اس لڑکے کی اداس آنکھیں پاؤں کی بیڑی بن گئیں۔ میں نے کاؤنٹر کی جالی کے قریب جاکر اس سے پوچھا: کیا سوچ رہے ہو؟۔ میں اس کی دکان کا مستقل گاہک تھا اس لیے ذرا بے تکلفی سی تھی۔ کہنے لگا ابا آج ہی کے دن دنیا سے گئے تھے، بہت یاد آ رہی ہے ان کی۔
بات ختم کرتے کرتے اس کی آواز رندھ گئی تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے جذبات کے ستار پر چڑھے غم انگیز تار چھیڑ دیے ہیں۔ میں نے جلدی سے موضوع بدلا۔ آج اشتر آیا تھا؟ میں نے پوچھا۔
اس نے جیسے میری بات سنی ہی نہیں بس بولتا چلا گیا۔ آج امی کا فون آیا تھا۔ بول رہی تھیں لحاف بھروانے ہیں کچھ پیسے ہوں تو بھیج دینا۔ میں نے بولا ہے بھیج دوں گاـ امی کو سردیوں میں دمے کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ وہ تو لحاف میں بھی ٹھٹھرتی رہتی ہیں۔ پتہ نہیں ان دنوں کیسے گزارہ کر رہی ہوں گی؟
میں اس کے مونولاگ کا سلسلہ توڑنا چاہتا تھا، لیکن جیسے مجھے اس کی بات کاٹنے کو لفظ ہی نہ مل رہے تھے اور وہ تھا کہ اپنی کہے جا رہا تھا۔
ہمارے گھر میں ابا کے لائے ہوئے دو لحاف تھے،لیکن ابا کے بعد جب بہن کی شادی کی تو امی نے انہیں لحافوں کی روئی سے اس کے جہیز کے لحاف تیار کیے۔ اب ہمارے گھر میں لحاف نہیں ہیں، لحاف کے خول ہیں۔ امی کے لیے لحاف ضروری ہے ـ کل کہیں سے پیسوں کا انتظام کرکے بھجواؤں گا، ورنہ امی سردی سے اکڑ جائیں گی۔
میں بت کی طرح کھڑا اس کی باتیں سنتا رہا۔ پھر وہ جیسے خود ہی چونکا”اوہ میں نے بھی آپ کو کن باتوں میں لگا لیا۔ بند کرنے کا ٹائم ہو رہا ہے”۔ یہ کہہ کر وہ کاؤنٹر پر سجی مشروبات سمیٹنے لگا۔ کیفے کی لائٹیں کب بند ہوئیں اور کب شٹر گرا مجھے کچھ پتہ نہیں چلا۔

You may also like

1 comment

انس 28 نومبر, 2021 - 15:11

جامع اور دلکش الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے??

Leave a Comment