شاعروں ، ادیبوں اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی نہ تو کوئی ذاتی سرحد ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اپنا خاص’ مذہب‘ اورنہ کوئی واجبی شعار؛بلکہ یوں کہہ لیں کہ اکثر تو اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ’بے دین‘، ’مذہب بیزار ‘اور ملحد ہی واقع ہوئے ہیں ۔ان لوگوں کو ایک رنگ و قوم اورمذہب میں قید کرکے رکھنا ’بے معنی‘اوران کے نظریے کے ساتھ زیادتی ہے۔ان کی طبیعت جس چیز کی طرف مائل ہوگئی ، وہ اسی رنگ میں رنگ گئے۔کبھی انہیں حرم میں دیکھا گیا ، تو کبھی انہوں نے ’مے خانہ ‘ کو ہی اپنا ’حرم‘ بنالیا، حرم و کلیسا کی کشاکش میں اس قدر مغلوب ہوئے کہ ان کے لیے نعوذباللہ حرم کی’ حقانیت‘ پر کلیسا کی ’مکاری‘ بازی لے گئی۔وہ تو اس قدر مغلوب الحال واقع ہوئے کہ محبوب کی شکل کو ہی خدا مان لیا اور اپنا سر بصد عجز و نیاز خم کردیا۔محبوب کبھی بتوں میں عیاں نظرآتا ہے تو کبھی یہی محبوب فضاؤں میں رقصاں نظر آتا ہے ۔ در اصل شعرا کی برادری اپنی خود وضع یا ’خداداد‘ دنیا میں مگن رہتی ہے ، ان کے نظر میں دنیا تمام حدود و قیود سے مبرا اور تمام موجودہ رسوم و رواج سے عاری ہے ۔ہر رنگ میں شعراکو ان کا اپنا مطلوب و محبوب نظرآجاتا ہے:
جدھر دیکھتا ہوں ، جہاں دیکھتا ہوں
تجھی کو عیاں اور نہاں دیکھتا ہوں
غالبؔ بیچارہ آخر عمر تک کلیسا کی دیوار سے چپکا رہا ،حرم انہیں آواز دیتا رہا،مگر ا س آواز کو التفات کے قابل نہ سمجھا ، گرچہ بعد از مرگ خواجہ نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ کی نگری میں آخری جگہ ملی ۔ بیچارے میر ؔ تو قشقہ کھینچ کر ایسے دیر نشیں ہوئے کہ ترک اسلام بھی کرلیا،گرچہ وہ ساری عمرمسلم ’عطار کے لونڈے ‘ سے اپنے مرض کی دوالیتے رہے ۔ بالآخر انہیں بھی اسلامی طور طریقہ سے پیوندِ خاک کیا گیا ۔ ان دونام کے علاوہ کئی اسما ایسے ہیں جنہوں نے مکمل طور پر مذہبی شعائر سے خوب خوب استعارہ کیا۔اور اس پر دینی حلقہ کی طرف سے میرے علم کے مطابق ’نکیر ‘ بھی نہیں کی گئی ۔ علاوہ ازیں شعرا کی جماعت نے مذہبی شعائر سے استعارہ کے ساتھ تضحیک و تذلیل کا کوئی دقیقہ فروگزاشت بھی نہ کیا، اس سے اردو ادب بھرا پڑا ہے ، جس سے خواجہ حالی ؔ سخت نالاں بھی ہوئے ۔ جب یہ دیوانے اردو کےشعرااپنے محبوب کے ’آبِ زنخداں‘ کو کوثر و تسلیم سے فائق و افضل تصور کرسکتے ہیں ،تو پھر ان جیسے لوگوں سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟۔تاہم یہ بات سچ اور تلخ ہے کہ جتنی تضحیک اردو مع فارسی کے شعرا نے اسلامی شعائر کی، کی ہے ، اتنی شاید ہمارے دشمنوں نے بھی نہیں کی ہوگی ،لیکن اس کے بعد بھی ہم ان شعرا کے کلام کو پڑھتے ہیں ، اور اسے اپنا ادبی ورثہ بھی قرار دیتے ہیں ، یہ ہماری وسعت ظرفی کی ایک مثال ہے ۔
گزشتہ دنوں معروف ترقی پسند شاعر؛بلکہ ترقی پسندتحریک کے سربراہوں میں سےایک فیض احمد فیضؔ کی نظم ’ ہم دیکھیں گے ‘ پر تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ تنازع نہیں تھا؛بلکہ تنازع پیدا کرنے والوں کی ابلہی ، حماقت ، جہالت ، کور مغزی ،شدت پسندی اور زعفرانیت تھی کہ وہ صرف ایک مصرع پر بھڑک گئے ،فیاللعجب، جب کہ ہم نے تو برسوں سے ترقی پسندوں کی ’لفظی شرانگیزی‘ قلم کی شدت پسندی اور اسلام کے مقدس شعائرکی ’تضحیک و تذلیل ‘ برداشت کی ہے ، ان کا ظرف اتنا بے مایہ ٹھہرا کہ وہ ’بت ‘ ، ’اللہ ‘، ’کعبہ ‘ ، وغیرہم اسلامی شعائر سے استعارہ کے طنز کو سمجھ نہ سکے ۔تنازع پیدا کرنے والوں کو کم از کم فیض احمد فیضؔ کی شاعری کا پس منظر ،ان کی ذاتی زندگی، شخصیت نیز خصوصی طورپر اس نظم کاپس منظرتلاش کرنا چاہیے کہ یہ نظم کس پس منظر میں کہی گئی ہے ۔ اردو ادبی دنیا اس سے واقف ہے کہ فیضؔ احمد فیضؔ کی یہ نظم جنرل ضیاء الحق کی ملوکیت و قلمرو کیخلاف لکھی گئی تھی ۔ ضیاء الحق چونکہ اسلام پسند واقع ہوئے تھے ، اس لیے اسلامی شعائر سے استعارہ کے ذریعے جنرل ضیاء الحق پر طنز کیا گیاہے اور طنز و تنقید کا ہر ایک کو حق ہے ،البتہ جذبات کا خیال رکھنا لازم ہے۔یہ المیہ ہے کہ ہم برسوں سے اردوشعرا کی ذہنی عیاشی ،قلمی دھینگا مشتی ،فکری ابلہی اور ترقی پسندی کے نام پر اسلامی شعائر کی تضحیک و تذلیل اور اس سے بڑھ کر ’انکار و منع‘ کو برداشت کرتے آرہے ہیں ؛لیکن وہ ایک استعارہ کی زبان نہ سمجھ سکے؟اس فہم پر تُف ہے ۔ یہ ان کی کم ظرفی ہے کہ اپنے ہی ہم مشرب و ہم مسلک فیض احمد فیضؔ سے بھڑک گئے اوربت پرستی کے زعم کے باوجود ’بت ‘ ، ’ارضِ خدا‘ اور ’ کعبہ ‘ کی تفہیم سے کلی گریز کا عندیہ دے دیا ۔ خیال رہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ تو اردو کی ابجد کا علم ہے اورنہ ہی شاعری سے کوئی واسطہ رکھتے ہیں ، نہ استعارہ کی زبان سمجھتے ہیں اور نہ کبھی ان فنون سے ان عقل کے ماروں کو واسطہ پڑا ہے ۔بس ہنگامہ آرائی اور ماحول کو نفرت کے زہر سے مسموم کئے رکھنا ہے ۔ واقعی وہ اپنے عمل میں حق بجانب ہیں، توکم ازکم ایک باربنظر انصاف برج نرائن چکبست، آنند ملاؔ ،اور فیضؔ کے ہم عصر سمجھے جانے والے رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری کی شاعری اور ان کی شاعری میں استعمال کئے ہوئے استعاروں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ؛لیکن یہ سچ ہے کہ وہ ان کی شاعری لغات و شروحات کے بعد بھی سمجھنے سے قاصررہیں گے؛کیوں کہ خدا نے ان کی فکری نجاست وذہنی پراگندگی کے باعث اس کی مبارک و مستحسن تفہیم سے محروم کر رکھا ہے ۔درحقیقت وہ قرآنی آیت ’صم بکم عمی فہم لا یعقلون‘ کی عملی و صوری تفسیر ہیں ، تو پھر کیوں کر انہیں اس کی بصارت و بصیرت میسر ہو؟وہ تمام عقل و فکر اور فہم و فراست سے کلیۃً عاری ہیں ۔
فیض احمد فیضؔ ایک اشتراکی شاعر تھے ، ان کا نظریہ بہت حدتک سات سمندر پار روسی اشتراکیت کا آمیزہ تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا خمیر اس مٹی سے بنا تھا ، جس مٹی سے شاعرمشرق علامہ اقبالؔ کاخمیر تیا رہوا تھا ، دونوں بزرگوار پاکستان کے ’سیالکوٹ ‘ سے تعلق رکھتے تھے ۔ دونوں کی پیدائش متحدہ ہندوستان میں ہوئی تھی ،وہ سچے ہندوستانی تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ جناح اور نہرو کی نظریاتی جنگ کے باعث فیضؔ پاکستان کے ہوکر رہ گئے۔ فیضؔ کی شاعری کل بھی زندہ تھی ، آج بھی زندہ ہے ۔ اسی زندگی نے فیضؔ کی نظم کو وہ ’ہتھوڑا‘بنادیا ہے جس سے بھگوائی سکون سے محروم ہیں ۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ ان کے طنزکو وہ حقیقت سمجھنے لگے ، ان کے استعارہ کو ’تلوار‘ سمجھنے لگے اور ’ارضِ خدا‘ سے وہ اس’ حقیقت ‘کا ادراک کر بیٹھے کہ جس کی پیشین گوئی سرورکائنات ﷺ نےفرمائی ہے۔جیسا کہ فیضؔ کی شاعری سے منشرح ہوتا ہے ۔ ابوداؤد شریف اور نسائی شریف میں وہ حدیث مبارک درج ہے، وہاں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔درحقیقت یہ تنازع سرے سے ہی بے بنیاد ہے ؛کیوں کہ فیض احمد فیضؔ ایک اشتراکی نظریہ کے شاعر تھےاورانہوں نے کبھی بحیثیت مسلمان اس امر کو قبول و تسلیم کیاہی نہیں ، جس کی وضاحت ہمارے ملک کے بھگوا دھاری شدت پسند اور انتہاپسندکرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ فیضؔ کے مبینہ ’ بت ، کعبہ ، حرم،ارضِ خدا اور ’نعرۂ اناالحق ‘ سے خوف کھا گئے، فیضؔ نے تو ہمیشہ جس خلق خدا کی بات کی ہے، خوداس خلقِ خدا کی حقوق کے لئے لڑائی آرایس ایس کرچکی ہے،حکومتِ وقت کے کارندوں کے ہاتھوں پٹ چکی ہے، جس کی شہادت ممبئی کی سرزمین دیتی ہے ۔فیض ؔ کے نزدیک حرم جو تھا ، وہ حرم تو آج ان کے گھروں میں موجود ہے ۔تو پھر یہ ہنگامہ کیا بپا ہے ؟ دراصل جو بزدل ہے ، وہ فیضؔ کے الفاظ کی کاٹ اور انقلابی خو سے خوف کھا گیا ہے ، وہ اس بات سے ڈر گیا ہے کہ مبادا کہیں اس کے سیاہ کارناموں کیخلاف جو طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ، اس طوفان میں اس کے تخت و تاج بھی خس و خاشاک کی طرح اڑ نہ جائیں ۔ ان کا خوف اور ان کی سراسیمگی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ:
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے