ڈاکٹر عطا عابدی کا نام ادبی دنیا میں بھی غیر معروف نہیں ہے اور صحافتی دنیا میں بھی ۔ ڈاکٹر موصوف ایک اچھے شاعر ، ادبِ اطفال کے ایک بڑے ادیب ، نقاد اور محقق تو ہیں ہی ایک بہترین کالم نویس بھی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کے کالم پہلے پہل ’ لمحات فکر ‘ کے مستقل عنوان سے نئی دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامے ’ لمحۂ فکریہ ‘ اور پھر ساتھ ہی ساتھ ململ ، مدھوبنی سے شائع ہونے والے سہ ماہی ’ بصیرت ‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ ان کالموں کے موضوعات سماجی اور تہذیبی ہیں ، لیکن رواں اور سلیس زبان اور بیان کے سبب ان میں ادبی چاشنی کا مزہ بھی ہے ۔ کتاب کے مضامین کے تعارف سے پہلے صاحب کتاب کے پیش لفظوں پر – پیش لفظوں اس لیے کہ الگ الگ عنوانوں سے دو پیش لفظ ہیں – ایک نظر ڈال لی جائے ۔ پہلے پیش لفظ کا عنوان ’ عرضِ عطا ‘ ہے ، اس میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے لکھنے کے آغاز ( جون ١٩٩٣) کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے کتاب میں شامل مضامین کے بارے میں ایک اہم بات لکھی ہے کہ ’’ ان مضامین کے ذریعے اپنی اور آپ کی اصلاح کے حوالے پیش نظر رکھے گیے ہیں ۔ فرد ہو یا سماج ، ادب ہو یا زندگی ، اردو زبان ہو یا اس کی تعلیم ، تہذیب و ثقافت ہو یا دیگر موضوعات و مسائل ، ان سب کا احاطہ ، بنیادی یا اخلاقی ضرورت و افادیت سے مربوط رکھ کر ، کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کو خوب احساس ہے کہ اب لوگوں کے لیے کسی کی اچھی بات سننا اور سماجی و فلاحی کاموں کے لیے وقت نکالنا مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے ، اسی لیے ان کا ماننا ہے کہ ’’ ہمارا یہ رویہ جہاں لمحۂ فکریہ سامنے لاتا ہے وہیں اصلاح و تبلیغ کے شدید تقاضے بھی رکھتا ہے ۔ ‘‘ پہلے پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب ایک بہترین نصیحت دیتے ہیں : ’’ نصیحت، تنقید یا سرزنش کا جواب جوابی تنقید و تنقیص سے نہیں بلکہ اپنی اصلاح اور صالح عمل سے دینا چاہیے ۔‘‘
دوسرے پیش لفظ کا عنوان ’ عکسِ صدا ‘ ہے ، اس میں مصنف نے کتاب کے مضامین پر کچھ باتیں عرض کی ہیں ۔ یعنی کتاب میں شامل مضامین کا مختصراً تعارف کرایا ہے ۔ کتاب میں مجموعی طور پر ٢٨ مضامین ہیں ، شذرات اور اقتباسات کے ذریعے کچھ ردعمل پیش کیے گیے ہیں اور کچھ لمحۂ فکریہ منظومات کی شکل میں ہیں ۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب کا تین صفحات پر مشتمل تعارف ہے ۔ مضامین جیسا کہ پہلے ہی لکھا گیا ہے سماجی اور تہذیبی موضوعات پر ہیں ۔ پہلا مضمون ’ لمحۂ فکریہ اور ہم ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں خود احتسابی پر زور دیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’ زندگی کے شعبہ کا ہر لمحہ چیخ چیخ کر لمحۂ فکریہ ہونے کا اعلان کر رہا ہے ۔ ہم بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں اور حالات پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ہر لمحہ کے لمحۂ فکریہ ہونے کا تاثر ہماری گفتگوؤں سے بھی ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود لمحۂ فکریہ کا اگلا لمحہ لمحۂ عمل نہیں بن پاتا تو کیا کہا جائے ؟ ‘‘ تمام مضامین سماج کے کسی نہ کسی اہم مسٔلے پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ ایک مضمون گداگری پر ہے ،’ مسلم معاشرہ میں گداگری ‘ ۔ اس مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں : ’’ جس کا جو حق ہو اسے بروقت ادا کریں تاکہ حقدار شخص مطالبہ در مطالبہ یعنی تقاضہ پر مجبور نہ ہو ۔ ایک حقدار شخص میں اگرآپ نے مطالبہ کی عادت ڈال دی تو سمجھئے اس شخص کی عزتِ نفس کے غیر شعوری طور پر ختم ہونے کا سامان ہوگیا اور یہ سب جانتے ہیں کہ عزتِ نفس سے محرومی کسی بھی پست عمل یا گداگری کی محرک ہوتی ہے ۔‘‘ وقت ، اصلاحِ معاشرہ ، بات ، مدارس ، اردو زبان ، زندگی میں پیش آنے والے حالات سے درس وعبرت یہ باقی کے مضامین کے موضوعات ہیں ۔ ایک مضمون اسوۂ حسینؓ کو عملی زندگی میں ڈھالنے پر ہے ۔ ایک بہت اچھا مضمون ایک واقعے کی روشنی میں ’ رشوت ‘ پر ہے ۔ عطا عابدی کا اندازِ تحریر ، جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ، رواں اور سلیس ہے ، یوں لگتا ہے کہ وہ دل سے دل کی بات لکھ رہے ہیں ، اس لیے ان کی بات آسانی کے ساتھ قاری کے دل و دماغ میں گھر کر لیتی ہے ۔ اس کتاب کو درس و عبرت اور نصیحت کے لیے اور سماجی برائیوں سے واقفیت اور ان کے خاتمے کے طریقوں کو جاننے کے لیے پڑھنا چاہیے ۔ کتاب 160 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 250 روپیے ہے ۔ اسے ’ عرشیہ پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ نے بہت خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر 7903021559 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔ کتاب کا انتساب ’ ماہنامہ لمحۂ فکریہ کے مدیر ڈاکٹر اسرار سلطان پوری کے نام ہے ۔‘