Home تجزیہ لمبی ہے غم کی شام

لمبی ہے غم کی شام

by قندیل

 

شمیم اکرم رحمانی

 

ملک انتہائی برے دورسےگزررہاہے کم ازکم آزاد بھارت کی تاریخ میں اب تک ایسے بدترین حالات پیدا نہیں ہوئے تھے پچاسوں سال سے اسٹیج پرچیخنے والی زبانیں اچانک گنگ ہوچکی ہیں ایک مدت سے استعمال ہونے والے قلموں کی سیاہیاں یکلخت خشک ہوچکی ہیں حقائق سے روشناس کرانے والے چینلز حقائق سے چشم پوشی کررہےہیں اورجھوٹ کےکاروبار میں مصرف ہیں معاشی بد حالی بےروگاریوں کی کثرت اور جرائم کے ارتکاب کا بڑھتا رجحان ملک کےاہم ترین مسائل ہیں لیکن تیار کی گئی فضا میں ان مسائل کے تذکرے قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے بے اگرگنجائش تو صرف ان باتوں کی جن کا تعلق براہ راست مسلمانوں سے ہےبلکہ مسلمانوں کو پریشانیوں میں مبتلا کرنے سے ہے چند سالوں سے مسلمانان ہند کے ساتھ جس طرح کےسلوک کوروا رکھاجارہاہے اس نے بنیادی طور پر متعدد سوالات کھڑے کردیے ہیں ـ کیا اس ملک میں بھی مسلمان ہونا ایک گناہ ہے؟کیا وطن عزیز کی آزادی میں مسلمانوں کے خون نہیں بہے ہیں؟کیا یہ ملک گاندھی اور آزاد کی راہ پر چلنے کی استعداد کھوچکاہے؟ کیا مسلمانوں نے مسٹر جناح کی ٹونیشن تھیوری کوٹھکراکرغلط کیاہے؟کیا یہاں کانگریس کی سیاست پربھروسہ کرناغلط تھا؟

مذکورہ سوالات وہ ہیں جو فی الوقت ہرانصاف پسند انسان کے ذہن دماغ میں کسی نہ کسی انداز سے پیداہورہےہیں خاص طور پر مسلمانوں میں ان سوالات نے بے چینی کی وہ کیفیت طاری کی ہے کہ بچہ بچہ غمگین اورمضطرب ہےـ حالیہ دنوں میں شہریت ترمیمی بل کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کےبعد مسلمانانِ ہند کے دلوں پر جوکچھ گزراہے انہیں الفاظ کے پیرہن میں نہیں ڈھالاجاسکتا ہےصرف محسوس کیاجاسکتاہے شہریت ترمیمی قانون کے بعد این آرسی کا معاملہ منھ کھولے کھڑا ہی تھا کہ این پی آر کی نئی شکل نے مزید آگ پر تیل ڈالنے کاکام کیاہے ہر حساس اور صاحب فکرشخص کے ذہن میں ملک و ملت کے تئیں کچھ اندیشے اور خدشات ہیں جن کاحسب سہولت اور حسب موقع وہ اظہار کررہے ہیں ـ

یہ سچ ہے کہ مسلمانوں میں غم اور غصے کی لہر زیادہ ہے لیکن اسلئے نہیں کہ انہیں پریشان کیاجارہاہے بلکہ اسلئے ہے کہ ماضی میں ان کے بزرگوں کی دی گئی قربانیاں انہیں رائیگاں ہوتی ہوئی نظرآرہی ہیں آئین ہند کی تحریف شدہ شکلیں ان کے دلوں کو پارہ پارہ کررہی ہیں ،گاندھی نہرو اورآزاد کےدلاسے انہیں جھوٹے لگ رہے ہیں،سارے جہاں سےاچھا ہندوستاں ہمارا کہنے والی زبانوں کی سربزم رسوائیاں انہیں دیکھنی پڑرہی ہیں اور جوسوالات اوپردرج کئےگئے ہیں ان سب کے جوابات نفی کے بجائے اثبات میں ملتے ہوئے نظر آرہےہیں ـ

ان پریشان کن صورتحال میں

ہرشخص کادل خودسے بار بار یہ پوچھ رہاہے کہ آخرکیاکیاجائے؟

ملک کے مختلف اطراف میں احتجاجی مظاہرے ہورہےہیں، جن میں شرکت کرنے والے سیکڑوں افراد زخمی اور اور متعدد افراد موت کی آغوش میں جاچکے ہیں، متعدد دکانیں سیل کردی گئی ہیں اور مظاہرین کو مختلف انداز سے اذیتیں پہنچائی جارہی ہیں، پولس کی بربریت نے چھوٹے چھوٹے بچوں اور عورتوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے، ملک اور دنیا بھر کی یونیورسٹیاں سیاہ قانون کے خلاف اپنااحتجاج درج کرارہی ہیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیش آنے والے حالیہ سانحےنے جلیاں والاباغ کا المناک واقعہ تازہ کردیاہے، پرتشدد احتجاجات قومی املاک کو نقصان پہنچارہے ہیں، لیکن ملک کوحکومت کی طرف سے اب تک قابل اطمینان جواب موصول نہیں ہوسکاہےـ ہر شخص جانتاہے کہ کون خطاکار ہے، کون بیٹھابیٹھاشرارت کررہاہے،جانی اور مالی نقصانات کا ذمہ دار کون ہے اور کیوں ہے؟ لیکن یہی سوچ کر لوگ چپ ہیں کےزبان کھولنے کےنتیجے میں کہیں گوری لنکیش کی طرح ہمیشہ کےلئے سلانہ دیاجائے،کہیں رویش کمار ابھیشار شرما اور اروندھتی رائے کی طرح ماں بہن کی گالیاں نہ سننی پڑجائیں:

یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

اقبال

 

اب بڑاسوال یہ ہے کہ ہم کیاکریں؟ چمن کولٹنے دیں اور یہ سوچ کرخاموش ہوجائیں کہ جب ڈوبنا ہی ہے تو ہاتھ پاؤں ہلانے سے کیافائدہ؟ یا کچھ کریں، یہی وہ جگہ ہے، جہاں ہمیں مذہب کاسہارالیناپڑرہاہے اسلئے کہ حالات کی ناخوشگواریاں مثبت منطقی جواز فراہم کرنے سے عاجز ہیں،چنانچہ مذہب اسلام ہمیں ایسے تاریک ترین ماحول میں امیدکادامن تھامنے کاحکم دیتا ہے اور یہ سکھاتاہے کہ اہل ایمان اللہ کی رحمتوں سے مایوس نہیں ہوسکتے، حالات کے نشیب اہل ایمان کے کردار کے گرد گھومتےہیں،جب اعمال اچھے ہوتےہیں، تو حالات اہل ایمان کے حق میں سازگارہوجاتےہیں اور جب اہل ایمان کے اعمال برےہوجاتےہیں، تو حالات ان کے حق میں سازگار نہیں رہتےہیں اسلام ہمیں سکھاتاہے کہ کہ دنیادارالاسباب ہے جہاں کاسفر دعاؤں کےبجائے آلۃ سفرسے طےہوتاہے یہا‍ں وہی قومیں سرخروئی حاصل کرتی ہیں جوسرخروئی کے اسباب کو اپنے ہاتھوں میں لیتی ہیں تاکہ اس نظام تکوینی میں خداکے عدل کا ظہورہوتارہے،بقول اقبال

کیاکہابہرمسلماں ہے فقط وعدۂ حور

شکوہ بےجا بھی کرے کوئی تولازم ہے شعور

عدل ہے فاطرہستی کا ازل سے دستور

مسلم آئیں ہواکافر توملے حوروقصور

تم میں حوروں کاکوئی چاہنےوالا ہی نہیں

جلوۂ طور تو موجود ہے موسی ہی نہیں

 

جو کچھ ہوناتھا وہ ہوا اور جوکچھ ہوناہوگاوہ بھی ہوجائے گا لیکن کیاہوگا اس کاعلم کسی کونہیں ہےـ اللہ رب العزت نے بندے کو آنے والےایام کا علم نہیں دیاہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اگرمستقبل کاعلم دےدیاجاتا،تو لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے اور نظام عالم درہم برہم ہوجاتا،اسلئے اس کارگاہ ہستی میں ہم سبھوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم وہ سب کچھ کریں جن سے ہمارامستقبل بہترہوسکے اور نتائج اس خداپر چھوڑدیں،جس نے نمرود کو مچھر کے ہاتھوں موت کی نیند سلادیا اور ابرہہ اور اس کی فوج کو ابابیلوں سے پسپاکردیا، ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر مسلم قیادتیں اپنافریضہ سرانجام دیں ـ مشترکہ مٹنگ کرکے تمام غیربی جے پی وزرائے اعلیٰ سے ملاقاتیں کریں اور ان سے مطالبہ کریں کہ وہ این پی آر کے کام کو روکیں اور اس وقت تک روکیں ،جب تک کہ این پی آر میں شامل جدید شقیں ختم نہ کردی جائیں،کیرل اور بنگال کی سرکار نے تو این پی آر کو بھی ریجکٹ کردیاہے، اگر ہماری قیادتیں دلچسپی لیں توکام آسان ہوسکتاہے، ساتھ ساتھ یہ بھی مطالبہ کریں کہ جب تک سی اے اے اور مجوزہ این آرسی کوواپس نہ لیاجائےاین پی آر کےکام کو وہ لوگ نہیں نہ ہونے دیں گے، ان سب کے علاوہ ہم سبھوں کی فوری طور پر مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم خداسے اپنارشتہ مضبوط کریں احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوں اور برادران وطن کو بھی شریک کرنے کی خوب کوششیں کریں ـ اپنا اخلاق اونچابنائیں، ظلم سیاست کے راستے سے مسلط ہوا،تو سیاست کے میدان میں متفقہ قدم بڑھائیں،ذاتی اغراض و مفادات کو پیروں تلے روند کر ملک و ملت کے مفادات کوترجیح دیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ مسلکی اور نظریاتی اختلافات سے جس طرح فی الوقت ہم بچ رہےہیں قسم کھائیں کہ آنے والے دنوں میں بھی جب حالات اچھے ہوجائیں گے، بچتےرہیں گے،اگر ہم ایساکریں گے تو حالات ضروربدلیں گےـ ممکن ہے کہ بدلنے میں کچھ وقت لگ جائے لیکن بدلیں گے ضرور ان شا اللہ:

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

You may also like

Leave a Comment