(پہلی قسط)
حقانی القاسمی
لیچی مظفرپور کی شناخت کا صارفی حوالہ ضرور ہے، مگر اس سے اس شہر کی باطنی عظمت یا حشمت ظاہر نہیں ہوتی،اسکی داخلی توانائی اس کی تخلیق و تہذیب میں ہی مضمر ہے کہ دانش کی دنیا میں تخلیقیت ہی عظمت کا حوالہ بنتی ہے، تخلیق ہی اقداری نظا م کی تشکیل کرتی ہے،Enculturationکا فریضہ انجام دیتی ہے اور معاشرہ کو Anomieسے محفوظ رکھتی ہے۔
ہر سرزمین کی طرح مظفرپور کی بھی اپنی ایک شخصیت ہے ،جس کے داخلی اور خارجی اسالیب اسکی عمارتوں اور اشخاص کی شکل میں نمایاں ہیں، مگر اس کی شخصیت کا اصل انعکاس تخلیقی افراد میں اس طرح ہوتا ہے کہ شہر ایک شخص اورپھر انجمن میں تبدیل ہو جاتا ہے، زمین بھی اپنی شخصیت کی ترتیب و تنظیم کچھ اس طرح کرتی ہے کہ اس کا داخلی آہنگ اجتماعی وجود میں تحلیل ہو جائے اور پھر اسی سے شہر کے وجود کی مابعد الطبیعاتی کلیت منکشف ہوتی ہے اور شہر کی سوشیو۔ بایولو جی سے بھی آگہی ہوتی ہے۔
مظفر پور شہر کی شناخت کے تشکیلی اجزا کو استحکام تخلیق نے ہی عطا کیا ہے ،جو گو کہ فرد کی اظہاری قوت کا اشاریہ ہوتی ہے، مگر اسی سے وہاں کی اجتماعی تخلیقی توانائی کی فضا بھی تشکیل و ترتیب پاتی ہے۔
ادب کے مختلف شعبوں اور اصناف کو یہاں کے متو طن اور مقیم افراد نے جو وسعتیں عطا کی ہیں وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں اور یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ یہاں کی زرخیز مٹی میں تجسس، تفحص، حسنِ تخیل اور ندرتِ اظہار کی کونپلیں پھوٹتی رہتی ہیں، حیرت ہوتی ہے کہ اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایسے بھی شعرا ہیں ،جن کی شاعری میں بے پناہ تخلیقی وفوراور کیفیتِ تحیر ہے۔مضطر مظفر پوری کے اشعار میں کیسی کیسی موجیں ہیں کہ حیرتوں کے دروا ہو جاتے ہیں، ایسی ایسی ندرتیں اورایسی جدت طرازیاں کہ گویا کلاسیکی شاعری کا باب کھل گیا ہو:
پوچھا کہ پاؤں کیوں نہیں پڑتے زمین پر
بولی صبا کہ آتے ہیں ان کی گلی سے ہم
اف نگاہِ نیم بسمل کا اثر
دور تک روتا ہوا قاتل گیا
سر بھی قاتل کا دل بھی قاتل کا
ہائے کوئی نہیں ہے بسمل کا
مٹی نصیب ہو نہ سکی کوئے یار کی
آخر اٹھا دیے گئے ان کی گلی سے ہم
اٹھ گیا قیس اٹھ گئی لیلیٰ
پردہ اب تک اٹھا نہ محمل کا
تڑپ رہی ہے جو ابرِ سیاہ میں بجلی
فراق میں یہی نقشہ تھا ہو بہ ہو میرا
مظفر پور کے چند اور اشعار جن سے وہاں کی تخلیقی زرخیزی ،ندرتِ افکار اور جدتِ اظہار کاانعکاس ہوتاہے:
خوشتر عجب نہیں مری مٹی وہیں کی ہو
اک ربطِ خاص ہے مجھے ان کی گلی کے ساتھ
(خوشتر مظفرپوری)
جو کچھ کہا کہا، نہیں اس کا گلہ مجھے
تو بے وفا ہے آپ نے یہ کیا کہا مجھے
(احقر مظفرپوری)
ایک احسان رہ گیا سر پر تمہاری تیغ کا
ورنہ جو کچھ مشکلیں تھیں آج آساں ہو گئیں
(اختر مظفر پوری)
اور اونچی ہو گئی دیوارِ زنداں دیکھنا
جیسے کوئی جرم ہو سوئے گلستاں دیکھنا
(خوشتر مظفر پوری)
کسی کو کیا خبر بسمل کے دل پہ کیا گذرتی ہے
یہاں سب ہیں خم ابروئے قاتل دیکھنے والے
(سید مظفر پوری)
کہتے ہیں کہ نتھونی لال وحشی بھی یہیں کے تھے، جن کا یہ شعر بہت مشہور ہے:
مزاجِ حسن کو میں نے بدل دیا وحشی
غرورِ عشق ہے سرخی مرے فسانے کی
اور اسی طرح ظفر حمیدی (جو حافظ قرآن تھے ،بعد میں MBBSہوئے اور لندن سے ایم آر سی پی کی ڈگری حاصل کی)کے یہ شعر اپنے اندر تخیل کی بے کراں کائنات سمیٹے ہوئے ہیں:
حوصلہ چائیے تعمیر نشیمن کیلئے
شکوہ خانہ بر انداز سے کیا ہوتا ہے
کتنی مبہم ہے ابھی وقت کے دل کی دھڑکن
ایک ٹوٹے ہوئے بربط کی صدا ہو جیسے
بچ گیا کل کسی حکمت سے نشیمن اپنا
آج کی تند ہوا دیکھئے کیا کرتی ہے
مظفر پور کے یہ شعر ایسے ہیں جن میں تخیل کی بلندیا ں، رعنائیاں سمٹ آئی ہیں اور ان میں زبان زدِ خلائق بننے کی قوت بھی موجود ہے اوریہی وہ اشعار ہیں ،جن سے مظفر پور شہر کے داخلی احساس و آہنگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مظفر پور سے ہی فارسی کے ایک اہم شاعر کا تعلق ہے،جن کا نام منشی کیولا پرساد فقیر تھا، جن کے بارے میں فصیح الدین بلخی نے اپنی کتاب تذکرہ ہندو شعرائے بہارمیں لکھا ہے کہ’’ منشی کیولا پرشاد فقیر ساکن مظفر پور ، بڑے ذی علم شاعر وادیب اور خوشنویس تھے، عربی ، فارسی ، سنسکرت اور اردو پر بھی پوری دستگاہ رکھتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر رضوان اللہ آروی نے ان کی شخصیت و شاعری پر لکھتے ہوئے بڑے اہم انکشافات کئے ہیں، انھوں نے انکی خوشنویسی کے تعلق سے فصیح الدین بلخی کے حوالے سے لکھا ہے کہ : ’’ ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک رباعی اس قدر خوب صورت نستعلیق میں لکھی ہوئی ہے کہ اگر یا قوت زندہ ہوتا ،تو اس کی پوری داد مل سکتی تھی، دیکھنے والوں کا اس صفحہ سے نظر ہٹانے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘
منشی کیولا پرشاد کے بارے میں ڈاکٹر رضوان آروی نے بہت معتبر اور مستند معلومات فراہم کی ہیں اور یہ واضح کیا ہے کہ ان کا دیوان حضرت علی کی منقبت پر مشتمل ہے اور یہ بہار کی اولیات میں سے ہے، انھوں نے ان کے سوانحی اور شعری کوائف کے تعلق سے لکھا ہے کہ’’ شاعری میں جناب فقیر کو داروغہ سید مبارک علی طالب ( ایک غیر معروف شاعر) سے تلمذحاصل تھا، جن کی کئی غزلیں دیوان فقیر میں شامل ہیں، جناب فقیر کی سوانح کا واحد ذریعہ ان کی ایک اردو مثنوی ہے جس سے ان کے حالات پر روشنی پڑتی ہے، اس کے بعض اشعار اس بات کی طرف اشارہ کناں ہیں کہ منشی کیولا پرشاد راجہ رام نراین موزوں کی اولاد میں تھے، وہ کہتے ہیں:
میں احوال اپنا لکھوں مختصر
نہیں کذب کا اس میں کچھ ہے اثر
کہ تھے ازبزرگانِ من رنگ لال
دو فرزندان کو لکھوں ان کا حال
(یہاں دو فرزندوں سے مراد نراین اور ان کے بھائی دھیرج نراین ہیں)
منشی کیولا پرشاد کے اشعار میں جناب فصیح بلخی نے ایک اردو دیوان قلمی، ایک اردو مثنوی اور چند قلمی وصیلوں کا ذکر کیا ہے۔ جو انہیں سید شاہ تقی حسن بلخی کے کتب خانے سے دستیاب ہوئے تھے؛ لیکن حیرت ہے کہ ان کی نگاہ سے فقیر کا ایک مطبوعہ فارسی دیوان مخفی رہ گیا:
فصیح الدین بلخی نے اپنا تذکرہ جولائی 1861میں مکمل کیا ہے، جب کہ فقیر کا فارسی دیوان 1872کے آس پاس مطبع متھلا، مظفر پور سے شائع ہو چکا تھا جس کا واحد نسخہ خدا بخش لائبریری میں موجود ہے۔ سرورق کی اس عبارت سے دیوان کا مختصر صوری تعارف ہو جاتا ہے:
’’ من تصنیفات شاعری مثال شیریں مقال عاشق زار حیدر کرار منشی کیولا پرشاد صاحب خورشید رقمی کتاب لا جواب مسمی بہ دیوان فقیر معروف بہ عاقبت بخیر ، حسب فرمائش شیخ بہرام علی صاحب طالب العلم بہ مطبع متھلا واقع قصبہ مظفر پور رونق طبع یافت‘‘۔
(بحوالہ بازیافت ، دارالاشاعت ، خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف ، پٹنہ ،1996ص 102)
ڈاکٹر آروی نے ذات رسول سے ان کی عقیدت کا شناس نامہ اس ہفت بند نعت شریف کو قرار دیا ہے جو انھوں نے 1286ہجری میں مظفر پور میں قلم بند کیا تھا۔ اور جسے فصیح الدین بلخی نے خانقاہ فتوحہ کے کتب خانہ سے حاصل کر کے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔
اصغر علی بیدل کا تعلق بھی مظفر پور سے تھا، جو اڑیسہ میں جا کر مقیم ہو گئے اور وہاں کی تاریخی اور تخلیقی شناخت کا ایک روشن نشان بن گئے، ان کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے ہی تاریخی دلائل اور شواہد سے یہ ثابت کیا کہ عہدِ مغلیہ میں اڑیسہ کا اولین دارالسلطنت پوری ضلع کا مقام پپلی ( پیر پلی) تھا (بحوالہ حفیظ اللہ نیول پور، اڑیسہ میں اردو ص 392) ۔ اڑیسہ کی تمدنی علمی فضا پر ان کی تحقیقات قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں، راونشا کالج کٹک میں اردو فارسی شعبہ کے صدر اور شمس الدین منیری کے شاگرد اصغر بیدل اچھے شاعر بھی تھے، ممتاز ناقد پروفیسر کرامت علی کرامت نے شعرائے اڑیسہ کے تذکرے پر مشتمل اپنی گراں قدر تالیف ’’آب خضر ‘‘ میں ان کے اشعار درج کئے ہیں، جن سے ان کی قدر ت کلامی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
شباب آیا کسی کا کہ ایک فتنہ نے
نکالی راہ نئی سر اٹھا کے آنے کی
قسمت نے جب چمن سے نکالا تو ہم کوکیا
فصل بہار ہو کہ خزاں کا زمانہ ہو
سنا ہے ان کو نیند آتی ہے سن کر داستاں کوئی
مگر نیند آئے جس سے وہ ہماری داستاں کیوں ہو
Cell: 9891726444