Home نقدوتبصرہ ڈاکٹر محمد قاسم انصاری کی تازہ کاوش للولال کوی کی ادبی خدمات – محمد اکرام

ڈاکٹر محمد قاسم انصاری کی تازہ کاوش للولال کوی کی ادبی خدمات – محمد اکرام

by قندیل

للو لال جی کوی فورٹ ولیم کالج میں ہندی کے ادیب، مصنف اور مترجم تھے۔ کالج میں ان کا شمار ماہر مترجمین میں ہوتا تھا۔ انھیں ہندی کے ساتھ فارسی اور ہندوستانی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی سب سے مشہور کتاب ’پریم ساگر‘ ہے جو ’باغ و بہار‘ کی طرح اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے شاہکار کہلائی۔ للولال جی کوی کا نام ذہن میں آتے ہی ہم فورٹ ولیم کالج کے اس دور میں چلے جاتے ہیں جہاں لفظ ’ہندوستانی‘ کی تفہیم میں کافی اختلافات تھے اور کچھ لوگوں نے اس کا ذمے دار للولال جی کو قرار دیا جبکہ کچھ مفکرین کا یہ کہنا ہے کہ اس کے ذمے دار للولال جی کوی نہیں بلکہ اس کالج کے کچھ بنیاد گزار تھے جنھوں نے خوامخواہ نیا تنازعہ کھڑا کیا۔ زیرنظر کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد قاسم انصاری نے بہت اچھی بات لکھی ہے کہ ’’دراصل اس لسانی سازش کی تفہیم کے لیے سب سے پہلے انگریزوں کی ہندستانی پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ہندستانی سے کون سی زبان مراد لیتے تھے؟ فقط ایک ہی زبان یعنی اردو یا اردو کے ساتھ کوئی اور بھی؟ انگریزوں کے ہندستانی تصور میں اردو بھی ہے اور ہندی بھی، ایک ہندستانی وہ جو فارسی رسم خط میں لکھی جاتی تھی اور دوسری وہ جو ناگری میں رائج تھی۔ یہ ناگری سنسکرت کی جانب زیادہ مائل تھی جب کہ فارسی رسم خط میں لکھی جانے والی اردو، عربی فارسی سے قریب تھی۔ ایک کو مسلم حکمرانوں کے بعد غلبہ حاصل ہوا جبکہ دوسری کو ہند و راجاؤں کے عہد اقتدار میں غلبہ حاصل ہوا۔ گویا یہ ان زبانوں کی سیاسی تصویر تھی، عوامی نہیں۔ عوام میں جو زبان مقبول تھی وہ ملی جلی زبان تھی اور جس کی آبیاری صدیوں سے صوفی سنت و عوام الناس کرتے آرہے تھے۔ انگریزوں نے اِس ہمہ گیر پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے سیاسی پہلو کو سامنے رکھا تاکہ لسانی بنیادوں پر مذہب کا لیبل چسپاں کرکے تفریق کی راہ زبان و ادب کے توسط سے پیدا کی جاسکے۔ ‘‘
ڈاکٹر محمد قاسم انصاری نے انہی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ’للو لال کوی کی ادبی خدمات: ہندی اردو کے تناظر میں‘ لکھی ہے۔ قاسم انصاری شعبۂ اردو بنارس یونیورٹی میں اسسٹنٹ لیکچرر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی موہن راکیش (ترجمہ)، سیاسی نظریہ (ترجمہ)، اردو دریچہ (مضامین) جیسی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جب کہ امرتا پریتم پر ایک مونوگراف زیر ترتیب ہے۔ ایسا نہیں کہ للولال کوی پر اس سے پہلے کوئی کتاب لکھی نہیں گئی ہے۔ قاسم انصاری سے پہلے ابو سعادت جلیلی (للو لال کوی )ایک ادبی سوانح‘ لکھ کر داد وتحسین حاصل کرچکے ہیں۔ مگر قاسم انصاری کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے للولال کی ادبی خدمات کے تعلق سے اردو /ہندی ادیبو ںکے درمیان جو اختلافات اور غلط فہمیاں ہیں انھیں دلائل کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ان کی برسوں کی محنت، مشقت اور مشق و ممارست کا نتیجہ ہے۔ یہ کتاب غالباً 10 برس پہلے جب وہ قومی اردو کونسل میں ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت کام کررہے تھے تبھی پوری ہوگئی تھی۔ مگر کچھ مزید ادبا اور مفکرین کے دلائل اور شواہد اکٹھا کرنے میں اتنی تاخیر ہوئی۔للولال کوی کے تعلق سے اردو والوں کے یہاں جو غلط فہمیاں ہیں انھیں دور کرنے کے لیے قاسم صاحب نے مرزا خلیل احمد بیگ، شمس الرحمن فاروقی، گیان چند جین، سمیع اللہ، ڈاکٹر عبیدہ بیگم، رام بابو سکسینہ، عتیق صدیقی، جمیل جالبی، عبدالودودد صدیقی، سنیتی کمار چٹرجی، پروفیسر احتشام حسین، عابد علی عابد، وقار عظیم، حامد حسن قادری، جاوید نہال، انور سدید وغیرہ جیسے مشہوراور مستند ادیبوں کے اقوال کا سہارا لیا ہے۔
ڈاکٹرمحمد قاسم انصاری نے اس کتاب کو نو ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب ’کالج سے قبل اردو کا نثری سرمایہ‘ ہے جس میں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ فورٹ ولیم کالج سے قبل اردو کا سرمایہ بہت ہی مختصر تھا۔ کچھ درویش اور صوفیائے کرام ہی تھے جن کے یہاں اردو نثر کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔
دوسرا باب ’فورٹ ولیم کالج، قیام اور اغراض و مقاصد‘ ہے۔ یہ بہت ہی اہم باب ہے۔ گوکہ یہ کالج انگریزوں نے اردو سیکھنے کے لیے قائم کیا تھا مگر اس سے فائدہ عام ہندوستانیوں کو ہوا جہاں نادر و نایاب کتابوں کے ترجمے شائع ہوئے اور اس سے ہر طبقے کے علم میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔
تیسرا باب ’للو لال کوی احوال و آثار‘ ہے جس میں للولال کوی کی پیدائش، تعلیم، ملازمت وغیرہ کا پتہ چلتا ہے۔ ان کی پیدائش، وفات اور کالج میں تقرری کے تعلق سے جو اختلافات ہیں انھیں بھی دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چوتھا باب ’للولال جی کی اردو ہندی خدمات‘ (بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، مادھونل کام کنڈلا، شکنتلا ناٹک، پریم ساگر، راج نیتی، لطائف ہندی، برج بھاشا کے قواعد، سبھا بلاس اور مادھوبلاس، لال چندرکا، بدیادرپن یا مراۃ العلوم) ہے۔ اس باب میں ان کی تصانیف و تالیفات کی تعداد متعین کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ چند ہی ادیب ایسے ہیں جنھو ںنے ان کی تالیفات و تصنیفات پر روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی ان کتابوں کا قاسم انصاری نے تفصیلی تجزیہ بھی کیا ہے۔
پانچواں باب ’للولال جی اردو ناقدین کی نظر میں‘ ہے۔ یہ بہت ہی اہم باب ہے۔ اردو کے معتبر ناقدین کے یہاں للولال جی کی خدمات اور ان کے بارے میں تاثرات کا ذکر ہے۔ اس باب میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو والوں نے للولال جی کی خدمات کا اعتراف اس ڈھنگ سے نہیں کیا جس کے وہ حقدار تھے۔ ساتھ ہی انھوں نے للولال جی کی ادبی خدمات پر ابوسعادت جلیلی کی واحد تصنیف کا بھی ذکر کیا ہے جس میں سعادت صاحب نے للولال جی کی خدمات کو نظرانداز کیے جانے اور ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں کو منفی انداز میں پیش کیے جانے پر سوال اٹھائے ہیں۔ قاسم انصاری صاحب نے اپنی بات کی تائید میں مختلف ادبا کے اقوال پیش کیے ہیں تاکہ للولال جی کی ادبی خدمات اور ان کے تعلق سے جو غلط فہمیاں ہیں وہ ایک جگہ قاری کو حاصل ہوجائیں۔
چھٹا باب ’للولال جی ہندی ناقدین کی نظر میں‘ ہے۔ چونکہ للولال جی ہندی کے ہی ادیب تھے۔ اس لیے ہندی والوں کے یہاں ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کھلے دل سے کیا گیا ہے۔ ہندی کے ادیبوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اردو میں جو مقام میرامن کو حاصل ہے وہی ہندی میں للولال جی کوی کو ہے۔
ساتواں باب ’کالج کی لسانی پالیسی اور ہندی اردو پر اس کے اثرات‘ ہے۔ اس باب میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ فورٹ ولیم کالج سے قبل اردو اور ہندی میں تفریق نہ تھی۔ کالج کے قیام کے بعد ہی یہ سازشیں رچی گئیں۔ انگریزوں نے ہندی، ہندوی یا ریختہ جسے ہندوستانی تصور کیا جاتا تھا کو دو الگ زبانوں کا نام دیا۔ لسانی تفریق کی وجہ انھوں نے رسم الخط کو بتایا۔ گویا ان دونوں کے درمیان اختلاف کی وجہ انگریز ہی تھے۔
آٹھواں باب ’ہندی اردو سے متعلق جدید نظریات‘ ہے۔ اس باب میں لفظ ’ہندستانی‘ کو لے کر انگریزوں نے جو ٹیڑھی لکیر کھینچی گئی تھی اس کے سدباب کے لیے گاندھی جی کے نظریات کو پیش کرکے اختلافات کو دور کیا گیا ہے۔ صاحب مصنف نے گاندھی جی کے اس خیال کو بھی پیش کیا ہے جس میں گاندھی جی نے کہا تھا کہ عربی اسلام اور عربوں کی زبان تو ہوسکتی ہے لیکن اردو اسلام یا مسلمان کی زبان ہے یہ کہنا درست نہیں۔اس باب میں قاسم صاحب نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اردو کا کوئی تصور ہندی کے بغیر اور ہندی کا کوئی تصور اردو کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اس لیے دونوں کے مشترکہ ادیبوں اور قلمکاروں کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھنے ضرورت ہے۔
نواں اور آخری باب ’ہندی اردو کے باہمی رشتے: ماضی تاحال‘ ہے۔ اس میں دونوں زبانوں کے رشتے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی دونوں زبانوں میں کس طرح کے رشتے ہیں ان کی بھی وضاحت ہے اور ان ہندو و دیگر مذاہب کے ادیبوں و قلمکاروں کا ذکر ہے جن کے بغیر اردو کی تاریخ نامکمل ہے جیسے منشی نول کشور، ہری ہردت، سدا سکھ لال، ماسٹر رام چندر، پنڈت دیاشنکر نسیم وغیرہ وغیرہ۔
272 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی 168 روپے ہے۔ ضخامت کے اعتبار سے قیمت بہت مناسب ہے۔ مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر محمد قاسم انصاری کی یہ تصنیف للولال کوی کی ادبی خدمات اور ان کے تعلق سے اردو والوں کے یہاں جو غلط فہمیاں ہیں انھیں دور کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔

You may also like

Leave a Comment