Home خاص کالم پاکستان کے دہلی گیٹ سے بھارت کے لاہوری گیٹ تک-مختار احمد

پاکستان کے دہلی گیٹ سے بھارت کے لاہوری گیٹ تک-مختار احمد

by قندیل

ویسے تو اگر عمارتوں میں دروازے اور کھڑکیاں لگا نے کے رواج کا تعلق ہے تو یہ کوئی نیا رواج نہیں یہ رواج تو ہزاروں سال پہلے سے قائم ہے جس کے تحت اگر تاریخ کا مشاہدہ کیا جا ئے تو ماہرین آثار قدیمہ 5ہزار سال قبل لگا ئے جا نے والے ایک لکڑی کے دروازے کو دریافت کر چکے ہیں جو کہ آج بھی موجود ہے۔ اس سلسلے میں صحیح مسلم میں نبی کریم ﷺکی ایک حدیث مبارک ہے جس میں انہوں نے یہ فر ما یا تھا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی ؓ اس کا دروازہ تو اس سے بھی دروازے لگا ئے جا نے کے سلسلے کی قدامت کا پتا چلتا ہے، جبکہ اس حوالے سے لاڑکا نہ سے دریافت ہو نے والے 5ہزار سال پرانے شہر موہن جوداڑو کی دریافت میں ماہرین آثار قدیمہ کو ملنے والے کھنڈرات نما مکا نات سے اس بات کا پتا چلا ہے کہ اس وقت بھی دروازے اور کھڑکیاں مکانوں کی نہ صرف زینت ہوا کرتی تھیں بلکہ ٹو اِن ون کے طور پر پردے اور حفاظت کا کام انجام دیتی تھیں، اسی طرح حضرت صالح کی قوم یعنی قوم ثمود جو کہ اللہ کے عذاب کا شکار ہوئی تھی اس قوم کو پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت محلات بنا نے پر ایک خاص مہا رت حاصل تھی، وہاں کے محلات اور گھروں سے بھی دروازوں کے آثار ملے تھے، ٹھیک اسی طرح جب بر صغیر میں مغل بادشاہوں کی حکمرا نی قائم تھی تو انہوں نے بھی شہر میں داخل ہو نے اور راستوں کی رہنما ئی کے لئے بڑے بڑے دروازے بنا ئے تھے، ان میں سے اس وقت بھارت میں ٹھیک اس راستے جو لاہور کی جانب جاتا تھا، شاہی گزر گاہ کے طور پر لاہوری گیٹ بنا یا جبکہ لاہور سے بھارت کے لاہوری گیٹ تک رہنما ئی کے لئے دہلی گیٹ قائم کیا تھا جو کہ آج بھی دونوں ممالک میں پوری آن بان شان کے ساتھ موجود ہیں ۔

کیو نکہ اس وقت پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم نہیں ہو ئی تھی لہذا دونوں ہی دروازے بر صغیر کے اندر تھے اور ایک شہر سے دوسرے شہر کی رہنمائی کر تے تھے اور صرف یہی نہیں، مغل بادشاہوں نے بر صغیر میں لاتعداد دروازے بنائے جن میں سے اس وقت بھارت کے شہر دہلی میں 7دروازے جبکہ لاہور کے اندر 13دروازوں میں سے اکثر و بیشتر اب بھی موجود ہیں جو کہ اس وقت کے اعلی فن تعمیر کی مثال پیش کر تے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر دہلی کو لیا جا ئے تو وہاں ماضی میں انڈیا گیٹ بنا یا گیا جس کی نہ صرف مر مت کا کام انگریزوں نے انجام دیا بلکہ اس گیٹ پر جنگ عظیم اول ،دوم اور افغان جنگ میں ہلا ک ہو نے والے 82ہزار سپاہیوں کے نام بھی کندہ کر وائے۔ ہلاک ہو نے والے ان سپاہیوں میں 13ہزار امریکی فو جی بھی شامل تھے۔ اسی گیٹ پر 1971میں جنگ کے دوران شہید ہو نے والوں کے لئے ایک خصوصی آگ کا الاؤ رو شن کیا گیا جو کہ ہمیشہ روشن رہتا ہے، جبکہ دہلی میں ہی کشمیر کی طرف جا نے والے راستے کی رہنمائی کے لئے کشمیری گیٹ تعمیر کیا گیا تھا، جسے 1857میں ہو نے والی جنگ میں شدید نقصان پہنچا تھا، اسی طرح دہلی میں ہی خونی دروازہ ہے جسے لال دروازہ ، کابلی دروازہ بھی کہا جا تا ہے،اس کے با رے میں یہ کہا جا تا ہے کہ اسی مقام پر انگریزوں نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹے اور ایک پوتے کو قتل کیا تھا جبکہ اس گیٹ کے حوالے سے یہ بھی کہا جا تا ہے کہ مغل بادشاہ اورنگریزیب نے اپنے بھا ئی کی گردن کاٹ کر اسی جگہ لٹکائی تھی۔

ٹھیک انہی دروازوں کی طرح دہلی میں اجمیری گیٹ بھی موجود ہے، جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ راستہ راجستھان اور اجمیر شریف کی طرف جا تا ہے اور 1857کی جنگ آزادی کا آغاز اسی مقام سے ہوا تھا۔ اس کے علاوہ دہلی میں ترکمان گیٹ اور لاہوری گیٹ بھی موجود ہیں، لاہوری گیٹ کے بارے میں لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ راستہ لاہور کے شاہی قلعے کی طرف نکلتا ہے اور اسے 1648میں تعمیر کیا گیا تھا۔

جہاں تک پاکستان کے حصے میں آنے والے13 دروازوں کا تعلق ہے تو ان میں بھاٹی گیٹ ،کشمیری گیٹ ،لوہاری گیٹ ،روشنا ئی گیٹ ،شیراں والی ،موچی گیٹ ،ٹیکسالی گیٹ ،اکبری گیٹ ،دہلی گیٹ،موری گیٹ و دیگر شامل ہیں، جن میں سے اکثر کے نام و نشان مٹ چکے ہیں، مگر 6دروازے اب بھی موجود ہیں جن میں سے دہلی کو جا نے والے راستے پر بنا ئے جا نے والے دہلی گیٹ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور وہ اب بھی درست حالت میں موجود ہے اور لوگ دور دراز سے نہ صرف دہلی کی طرف جا نے والے اس راستے کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں بلکہ اس کے اطراف میں قائم بازاروں جہاں قیام پاکستان سے پہلے کی دکا نیں موجود ہیں، سے خریداری بھی کرتے ہیں ۔

ان دروازوں کے حوالے سے ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ پہلے پو را شہر ان داخلی دروازوں کے اندر موجود تھا مگر جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہو تا گیا شہر لاہور ان دروازوں سے با ہر نکل کر دور دراز تک پھیل گیا ۔ دہلی گیٹ کے دونوں اطراف میں پرانے طرز تعمیر کی عمارتیں قائم ہیں جہاں با قاعدہ طور پر ایک اسکول بھی قائم ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی شاہی حمام بھی موجود ہے جس کے بارے میں نہ صرف علاقے کے بزرگ بلکہ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ دہلی گیٹ ایک شاہی گزر گاہ تھی، ماضی میں جب مغل بادشاہوں کی فوج یا شاہی مہمان دہلی گیٹ میں داخل ہو تے تھے، تو وہ لاہور میں داخل ہو نے سے قبل مغل بادشاہوں کے بنا ئے گئے اس شاہی حما م میں غسل کر تے تھے اور پھر پوشاک کی تبدیلی کے بعد شہر لاہور میں داخل ہو کر مہمان خانوں کا رخ کر تے تھے۔ گو کہ اب دہلی جا نے والے اس گیٹ پر مغل بادشاہوں کا نہ تو کو ئی اہلکار کھڑا ہے اور نہ ہی ان بادشاہوں کی طرف سے لوگوں پر کسی قسم کی کو ئی پا بندی عائد ہو تی ہے لیکن اس دروازے کو دیکھنے کے لئے ملک بھر سے آنے والے لوگ آج بھی ان بادشاہوں کے جاہ و جلال کو یاد کر تے نظر آتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج جو دروازے مغل بادشاہوں کی یادگار کے طور پر اب بھی موجود ہیں، ان کی دیکھ بھال کی جا نب مکمل تو جہ دی جا ئے تا کہ وہ تاریخ کے اوراق پریادوں کی صورت میں اسی طرح جگمگا تے رہیں۔

You may also like

Leave a Comment