ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘جب سے میں نے پڑھا ہے تو یہ ایک وسیلۂ تحریر کے طور پر ثابت ہوا ہے ۔اس کو جب میں شروع کرتا ہوں تو پتہ نہیں چلتا کہ ناول کب ختم ہوجاتا ہے اور اس ناول کو مصنف نے بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ عنوان دیاہے ساتھ ہی اعلیٰ درجے کی پیکر تراشی لفظوں کے ذریعے کی ہے۔
جب میں ناول کو پڑھنا شروع کرتا ہوں تو یہ مجھے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے اور یہ مصنف کی بڑی خوبی ہے جو بڑے ناولوں میں پائی جاتی ہے ۔مصنف کی تحریر ایک بڑے ناول کی تمام ضروریات پوری کرتی ہے۔ناول کو اعلیٰ کرداروں کے ذریعے تحریر کیا گیا ہے جو مصنف کا فنی اختصاص ہے۔
پورا ناول دلچسپ کرداروں کے ارد گرد گھومتا ہے ۔اس تخلیق سے پتہ چلتا ہے کہ ناول نگار نے پورے معاشرے کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس تحریر کو منظر عام پرلانے کی کوشش کی ہے تاکہ معاشرے میں جو بے راہ روی اور قابل توجہ مسائل پائے جاتے ہیں ،وہ سامنے آسکیں۔اس ناول کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہی نہیں بلکہ اس میں اعلیٰ درجے کے لب و لہجے کا استعمال کیا گیا ہے ۔ساتھ ہی اس میں نفسیاتی پہلوؤں کو زیر بحث لانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ناول کو کرداروں کے ذریعے اس طرح وجود میں لایا گیا جیسے اصلاحِ معاشرہ کے لیے ناول ’’راجہ گدھ‘‘لکھا گیا ہے۔ اسی لیے تو یہ ناول معاشرے کی ناانصافیوں اور بے راہ رویوں کے طور پر سامنے آتا ہے اور مجھے یہ ناول ’’راجہ گدھ‘‘کے مد مقابل نظر آتا ہے۔
اس ناول میں مصنف کی سب سے بڑی خوبی اور فن یہ ہے کہ جب بھی میں اسے میز پر دیکھتا ہوں تو اٹھا کر پڑھنا شروع کرتا ہوں اور ہاں یہ ناول مجھے اپنے اندر گھیر لیتا ہے۔مصنف نے اس ناول میں عورتوں کے نفسیاتی معاملات کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے کیونکہ عورت ہی معاشرے کی بنیادی کڑی ہے۔مصنف نے اس طرح معاشرے کے نفسیاتی مسائل کو بیان کیا ہے کہ عام سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک کی آواز سنائی دیتی ہے۔ خصوصاً عورتوں کے تمام مسائل اور ناانصافیوں کو بھی زیر بحث لاتے ہوئے انہیں حل کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس ناول میں مصنف نے جو عورتوں کے نفسیاتی مسائل کو بیان کیا ہے ان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مصنف خود کسی مسئلے کی زد میں آیا ہے اور اس کے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ نا انصافیوں کو دیکھ کر یہ آواز اپنی تحریر آگے لانے کی سعی ہے۔
ناول’’لفظوں کا لہو‘‘کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس کی مکالمہ نگاری عمدہ سطح کی ہے ۔اس کو پڑھتے ہوئے ناول ’’توبتہ النصوح‘‘فوراً سامنے آجاتا ہے۔مصنف نے ناول میں عورتوں کے حقوق اور نفسیاتی حل کو صحافت کے ذریعے سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔مصنف کے مطابق عورت کو ایک انسان سمجھا جائے بلکہ بطورِ جنس استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح نہ پھینکا جائے ۔اس ناول میں اس بات کو ختم کرنے کے لیے صحافت کو موضوع بنایا گیا ہے اور ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ صحافت کو جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جارہا ہے، حالات کے خوف و ڈر سے۔
جب میں معاشرے میں عورتوں کومردوں کے مد مقابل کام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو اس ناول کا لفظ لفظ میرے سامنے فوراً آجاتا ہے۔کیونکہ مصنف نے جو کچھ لکھا ہے وہ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔
مصنف کی تحریر سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ واقعی سماج کے اندر ایسی بے راہ روی پائی جاتی ہے جس کا اندازہ بیباک اورنڈر صحافت سے کیا جا سکتا ہے۔مصنف نے یہ بات واضح طور پر بیان کردی ہے کہ ناول فکشن ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے، اور معاشرے میں یہ مسائل اور ناانصافیاں پائی جاتی ہیں جو کہ میڈیا ہی منظر عام پر لاسکتی ہیں اور انصاف کا معاملہ حل کرسکتی ہے۔جس سے عورتوں کے تمام مسائل اور ناانصافیوں کا سدِ باب ممکن ہے۔یہ ناول سماجی ،معاشرتی اور نفسیاتی سطح پر پورا اترتا ہے ۔اس ناول کا تانیثی مطالعہ کیا جائے تو سماج میں عورت کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوئی ہیں،ان کے حقوق کا جواستحصال ہوا ،معاشی اور سماجی پابندیاں عائد ہوئیںیاعورتوں کو بطور ٹشو پیپر استعمال کیا جا رہا ہے، یہ تمام باتیں فلسفیانہ طورپر سامنے آجاتی ہیں۔اس ناول میں زرد صحافت کے تناظر میں صحافت کے فن کو جو خدشات درپیش ہیں ان کا بخوبی جائزہ لیا گیا ہے۔ناول سماجی اور معاشرتی ناہمورایوں کا بھرپور عکاس ہے اور انسانی زندگی کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے ناول اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
"لفظوں کا لہو ” ایک مطالعہ -محمد تیمور
previous post