مصنف: پروفیسر راشد شاز (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)
صفحات: 428
ناشر: ملی پبلیکیشنز
ملنے کا پتہ: ملی ٹائمز بلدنگ، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی- ۲۵
’لا یموت‘ صاحب کتاب کی ادھوری خود نوشت ہے، جس کا تکملہ "لا یحی” کے ذریعہ ہونا ہے، یہ کتاب ایک تنہا شخص کی خود نوشت نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک ایسی تعذیب زدہ آپ بیتی ہے، جسے خود انہیں لوگوں نے فراموش کردیا ہے جن پر یہ تعذیب مسلسل روا رکھی گئی ہے۔
لا یموت ایک ایسی داستان حیات ہے جس میں درشایا گیا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد ایک قوم اپنی شناخت کھوچکی ہے اور شناخت بالجبر کے زیر سایہ اپنا سفر حیات طے کرنے پر مجبور ہے اور ان دلتوں سے بھی زیادہ نچلے درجے پر جابسی ہے جو صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، ایک ایسی قوم جس پر روز حادثات کا حملہ ہوتا ہے، اس کی شناخت جبری طور پر اس سے نوچنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس سے اعتراف احسان بالجبر کرایا جاتا ہے، اور ایک ایسی ذہنی و جسمانی تعذیب میں مبتلا کیا جاتا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتی، جس کا جسم چھلنی اور اور روح نیم مردہ ہے، جس پر حکمران وقت ظلم و جبر کی نت نئی ترکیبیوں کی مشق کرکے ظلم کی ایک نئی تاریخ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جسے مظالم کو سہنے کی اجازت تو ہے لیکن اس پر کراہ، آہ زاری اور کلمہ اف کہنے کی اجازت نہیں، یہ ایک ایسی قوم کی داستان ہے جس کا کوئی رہنما، کوئی قائد اور کوئی پرسان حال نہیں، اور رسمیات کے پردے میں لپٹے ہوئے جو افراد خود کو اس کا قائد باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہودی کاپوؤں کی مانند ہیں جو بیلینس بازی اور ایمان کی سوداگری کے گن سے پوری قوم کا سرمایہ فکر رہن رکھنے میں ماہر ہیں، جن کے بلند و بالا دعاوی، جن کی شعلہ بار تقریریں قوم کو سوائے ایک نئی شکست فاش کے کچھ بھی دینے کے قابل نہیں ہوتے، الغرض "لا یموت” زخم خوردہ، نیم مردہ، ہندی مسلمانوں کی ایک ایسی داستان حیات ہے جسے جانے انجانے میں بھلادیا گیا ہے، یا انہیں اتنی مہلت ہی نہیں ملی کہ وہ حال کی پریشانیوں سے نکل کر ماضی کے غموں کا سرا تلاش کریں اور مستقبل کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دے سکیں۔
یہ کہانی شروع ہوتی ہے پروفیسر شاز صاحب کے بچپن سے، جہاں ان کے والدین اور بھائی ہوتے ہیں اور ایک مکتبہ ہوتا ہے، جہاں ان کے والد ان کی تربیت کر رہے ہوتے ہیں، پھر کچھ دنوں کے بعد انہیں گاؤں جانا ہوتا ہے، اور وہ گاؤں کے فطری ماحول میں رچ بس جاتے ہیں تبھی احمد آباد کے قتل عام کا شور اٹھتا ہے، اور ہر طرف خوف و ہراس پھیل جاتا ہے، صاحب کتاب پر کچھ ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ خواب میں بھی بار بار فساد کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور اپنے گھر میں کام کرنے والے مالی کو سپنے میں ایک ایسے مسلم کش شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو مسلم بچوں کا قتل عام کررہا ہوتا ہے، ان خوابوں کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت ناساز رہنے لگتی ہے، پھر یوں ہوتا ہے کہ ان کے والد محترم انہیں شہر لے آتے ہیں جہاں دوبارہ ان کا علمی سفر شروع ہوتا ہے، تحفظ اردو کے لئے تحریکیں چلائی جاتی ہیں اور پھر اچانک صاحب کتاب کی زندگی جیسے تھم سی جاتی ہے، ان کا سب کچھ لٹ جاتا ہے، ایمرجنسی کے وقت ان کے خاندان کے سبھی سرکردہ افراد جیل چلے جاتے ہیں، مکتبہ سیل کردیا جاتا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، اپنے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں، کچھ دنوں تک یہی سلسلہ چلتا ہے لیکن پھر صاحب کتاب اور ان کے بڑے بھائی زندگی کا پہیا دوبارہ گھمانے کی کوشش کرتے ہیں اور زندگی معمول پر آتی ہے، کچھ وقت کے بعد ان کے والد جیل سے رہا ہوتے ہیں لیکن اب ان پر خاموشی طاری رہتی ہے۔
اسکول سے فراغت کے بعد پروفیسر شاز کا داخلہ علی گڑھ کی علمی و انقلابی فضا میں ہوتا ہے، جہاں کا ان کا اصل جوہر نکھرتا ہے، اور فکری بلندی اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں، پھر یہ سفر جاری رہتا ہے، مصنف کبھی علی گڑھ میں ہوتے ہیں، کبھی دہلی میں اور کبھی کانفرنسوں کے لئے پشاور و کراچی کا سفر ہوتا ہے اور یہ سفر یہیں نہیں رکتا بلکہ اس سے آگے جدہ و ریاض سے ہوتے ہوئے لندن تک جا پہنچتا ہے، ان انقلابی اسفار اور فکری اڑان کے ذکر کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب نے ان واقعات کو موضوع بحث بنانا ضروری سمجھا ہے جو ہندی مسلمانوں کے ساتھ پیش آرہے تھے اور بین السطور میں ان کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے اس پر انہوں نے خاص بحث کی ہے، ایمرجنسی ہو یا نسبندی مہم یا ترکمان گیٹ کا اجڑنا ہو اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل یا میرٹھ، مرادآباد، ہاشم پورہ ملیانہ، بھاگلپور، آسام کا سرکاری قتل عام ہو ان سب پر صاحب کتاب نے کچھ اس انداز سے بحث و تجزیہ کیا ہے کہ قاری کے بدن میں سنسناہٹ طاری ہوجاتی ہے اور ایک ان دیکھا خوف سایہ فگن ہوجاتا ہے، کہانی میں واقعات کو بیان کرنے کا انداز مکالماتی و مذاکراتی ہے، اس کے ساتھ لٹے پٹے زندہ بچ جانے والے مسلمانوں کے بیانات بھی تحریر کئے گئے ہیں، مزید ان واقعات کے پیچھے کے سیاسی چہرے اور ان سیاسی مسلمانوں کی چپی کا تذکرہ بھی ہے جو ان حادثات کے وقت کاپو بنے خاموش رہے تھے اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے اپنی قوم کو لٹتا دیکھتے رہےـ
اندرا گاندھی، سنجے گاندھی، راجیو گاندھی، فخر الدین علی احمد، جناب یونس، اسعد مدنی، سید شہاب الدین، مجلس مشاورت اور جمیعة العلما، مسلم پرسنل لا بورڈ کے کرداروں پر بھرپور بحث کی گئی ہے اور سیاسی مکاریوں کو نہ سمجھ پانے والے علماے دین کا تذکرہ بھی ہے جو شاہ بانو کیس کا لالی پاپ حاصل کرنے کے بعد راجیو گاندھی کے حق میں اس وقت بھی نرم گوشہ رکھتے رہے جب انہوں نے ہندؤوں کی زیارت کے لئے بابری مسجد کے تالے کھلوا دئے، ایک گول کونے والے صلح کلی مولوی صاحب کا تذکرہ بھی ہے جو نیک و صالح بھی تھے ان کے پیچھے عوامی تائید بھی تھی، لیکن ان کے اندر اتنی جرأت نہیں تھی کہ کلمہ حق کہتے اور اس پر جم جاتےـ
کتاب میں عالمی مسائل کا بھی ذکر ہے، افغان-روس جنگ، امریکی امداد، امن عالم کی کوششیں، صحوہ اسلامیہ کی تحریک پر بھی صاحب کتاب نے فکری گفتگو کی ہے، اور ان کے پس پردہ کام کرنے والے عوامل تک غور و فکر کے ذریعے پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے، کتاب ادبی جملوں اور ادبی طنز و مزاح سے مملو ہے، واقعات کو پڑھتے ہوئے حساس دل رکھنے والوں کے اشک جاری ہوسکتے ہیں، لیکن اکتاہٹ طاری نہیں ہوسکتی، صاحب کتاب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حالات پر بھی طویل گفتگو کی ہے، اور وہاں کے سیاسی جھگڑوں کا تذکرہ بھی کھلے دل سے کیا ہے، اپنے کرم فرماؤں کے ساتھ مخالفین کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مخالفین کے تذکرے میں وہ شاید کچھ آگے بڑھ گئے ہیں،صاحب کتاب واقعات کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہیں، پھر اس سے متعلق چند باتوں کا ذکر کرکے تبصرہ کرتے ہیں، مکالموں کے ذریعہ بین السطور میں چھپے معانی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے نتائج کو مدلل کرتے ہیں۔
اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ اس حدیث کے موافق لکھی گئی ہے کہ "یہود جس راستے پر چلے تھے، امت مسلمہ بھی اس راستے پر ضرور چلے گی” صاحب کتاب بار بار جرمنی کے مظلوم یہودیوں، جرمن فورسیز میں موجود یہودیوں/کاپوؤں کا تذکرہ کرتے ہیں، ان کے ساتھ ہونے والے واقعات کو بیان کرتے ہیں، ہولوکاسٹ کے اندرون میں موجود چنگاری کو کریدتے ہیں، اور پھر ہندوستانی مسلمانوں کے حالات، قائدین/کاپوؤں کی بیلینس بازی، اور ہندو دہشت گردوں اور سیاسی مکاریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے واقعات کو ایک دوسرے سے تشبیہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اسی کے ساتھ وہ مختلف اصطلاحات کو حالات کے مطابق فٹ کرنے اور ان کی تشریح سے قاری کے ذہن میں ایک واضح پیغام نقش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، صاحب کتاب مسلم اسپین کی بربادی اور آخری وقت میں وہاں شناخت بالجبر کے ساتھ رہنے والے مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ہندی مسلمانوں کے مستقبل کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں ـ
صاحب کتاب واقعات کو اپنی خاص علمی و فکری عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں، اور ہر صاحب نظر کو ایسا ہونا بھی چاہیے، لیکن کہیں نہ کہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ ہندی مسلمانوں اور ان کے قائدین کی کوششوں کو کمتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا پھر وہ ان کی سمت سعی کو ہی غلط ٹھہرانے کی کوشش میں ہیں، ممکن ہے صاحب کتاب اپنے اس رویے اور طریقے میں حق بجانب ہوں لیکن میں اس سلسلے میں اپنی رائے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں، اس کے ساتھ ہی کتاب پڑھتے ہوئے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ان تمام ہنگاموں کے بیچ صاحب کتاب کی حیثیت محض ایک مذاکر، مصنف، اکیڈمیشین اور کانفرنس میں شریک ہونے والے شخص کی ہے، جن کو زمینی سطح پر کوشش کرنے کے بجائے حالات کا تجزیہ کرنا اور تصنیف کے ذریعہ عوام الناس میں جوش و ولولہ بھرنا بہتر معلوم ہوتا ہے، میری اپنی ذاتی رائے کہاں تک درست ہے یہ تو کتاب کا دوسرا حصہ "لا یحی” پڑھنے کے بعد ہی سمجھ آئے گا، لیکن تب تک کے لئے یہی رائے باقی رکھتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس کتاب میں تقسیم ہند بلکہ اس سے پہلے کے واقعات و حادثات سے لے کر ۱۹۹۰ اور کچھ بعد کے حادثات پر مشتمل چیزوں کا بیان ہے، اگر اس طویل عرصہ کو دیکھا جائے تو یہ کتاب بس ایک سرسری داستان ہے، لیکن حالات کو بیان کرنے کا جو انداز اس کتاب میں اپنایا گیا ہے وہ ملی فکر رکھنے والے افراد اور انقلابی فکر کے حاملین کے لئے سوچ کی ایک نئی دنیا وا کرے گی، اور نئی نسل کے لئے چشم کشا ثابت ہوگی، گویا کہ یہ کتاب ماضی کو گرفت میں لینے کی ایک کوشش ہے جس کے محاکمہ کے ذریعہ ماضی کی غلطیوں سے بچنے، حال میں اپنا دفاع کرنے اور مستقبل کی مضبوط نیو رکھنے کے قابل ہوسکیں گےـ
ہمارے اس تبصرہ میں کتاب میں موجود بہت سی باتوں اور خصوصیات کا ذکر رہ گیا ہے، کیونکہ یہ کتاب خود اس قدر اختصار سے لکھی گئی ہے کہ ہزاروں صفحات پر لکھے جانے والے واقعات کو محض چار سو صفحات میں سمیٹ دیا گیا ہے اور ان واقعات کو مزید مختصر تبصرے میں سمیٹنا میرے جیسے طالب علم کے لئے ممکن نہیں ہے۔