(ایڈیٹر روزنامہ ممبئی اردو نیوز)
یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بڑے پریشان ہیں !
پریشانی اس بات سے ہے کہ یو پی کے آنے والے اسمبلی الیکشن کی کمان تو سنبھال لی ہے ، اور دعوے بھی کر دیے ہیں کہ ہم ہی جیتیں گے ،ہم ہی جتائیں گے ، اورہم ہی دوسرےسب سیاست دانوں کی سیاسی دوکانیں لپیٹ دیں گے ۔ لیکن اب انہیں لگ رہا ہے کہ جو دعوے کیے تھے انہیں حقیقت میں بدلنا آسان نہیں ہے ۔ اوریہ احساس یوگی کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کیے ہوئے ہے ۔ اب کیا کیا جائے ؟ ظاہر ہے کہ یہ سوال ان کے دماغ کو چکرائے ہوگا ، اور ان کے مشیروں کے بھی ۔ یوگی کو نظر آنے لگا ہے کہ اگر اپوزیشن نے اپنی بکھری ہوئی صفوں کو سیدھا کر لیا ، جیسے کہ کوشش کی جا رہی ہے ، تو ان کی سیاسی بساط الٹ سکتی ہے ، لہٰذا انہوں نے یو پی کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کے لیے ہر وہ کام کرنا شروع کر دیا ہے جو ان کے ووٹروں کو ان سے جوڑے رکھ سکے ۔ اور اس کے لیے ہندو،مسلم کارڈ سے بہتر کیا ہو سکتا ہے ! لیکن اس کارڈ کو کھیلنے کے چکر میں یوگی ، اپنے ووٹروں کو ، خود سے دور کیے جا رہے ہیں ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ وہ یو پی میں آبادی پر قابو پانے کا قانون بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے اس کا جو ڈرافٹ تیار کروایاہے اس کے مطابق جس کے بھی دو سے زائد بچے ہوں گے اسے ہر طرح کی سرکاری سہولیات سے محروم کردیا جائے گا ، یہاں تک کہ بلدیاتی انتخابات میں اُمیدواری تک سے وہ محروم رہے گا ۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے اس پر بند ہو جائیں گے ، بچے تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل نہیں کر پائیں گے وغیرہ ، اور جن کے دو یا ایک بچے ہوں گے ان کے لیے ’ وکاس ہی وکاس‘ ہوگا ۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ آبادی کنٹرول پالیسی اور وکاس کا نعرہ سب آنے والے اسمبلی الیکشن کے پروپیگنڈے کا ایک حصہ ہے ۔ یوگی اس اعلان سے دراصل اپنے ہندو ووٹروں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ جو مسلمان اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں ، اسے روکنے کا یہ ایک طریقہ ہے ۔ ممکن ہے کہ اس پالیسی کے پیچھے یہی سبب ہو ، لیکن اس کا نقصان کیا صرف مسلمانوں کو ، اور فائدہ کیا صرف ہندوں کو ہوگا ؟ اول سوال تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کا کتنا فیصد سرکاری اسکیمات اور سرکاری سہولیات کا فائدہ اٹھا پاتا ہے؟ یہ فیصد معمولی ہے ، لہٰذا اس قانون کے بننے یا نہ بننے سے مسلمانوں کو کوئی بہت زیادہ نقصان یا فائدہ نہیں ہوگا ، سوائے اس کے کہ جو تھوڑی سی مراعات حاصل ہو جاتی تھیں وہ اس بھی محروم ہو جائیں گے ۔ ہاں چونکہ ہندوں کی آبادی اس ملک میں زیادہ ہے ،اور ان کے زیادہ تر دو سے زائد بچے ہیں ، اس لیے نقصان میں وہی زیادہ رہیں گے ۔ یہ بات انہیں سمجھ میں آ بھی رہی ہے اسی لیے اس پالیسی کے اعلان کے بعد بڑی تعداد مین ہندو یوگی سے اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں ، وشوا ہندو پریشد کے کارگزار صدر آلوک کمارنے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس پالیسی پر عمل ہوگا تو یو پی میں بھی آسام اور کیرالہ کی طرح ہندوں اور مسلمانوں کی آبادیوں کا تناسب غیر متوازن ہو جائے گا ۔ سنگھ پریوار کا یہ ماننا ہے کہ آسام اور کیرالہ میں ہندوں کی آبادی گھٹی ہے اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے ، اور مسلمان سارے ملک میں اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں ۔ اسی لیے ایم پی ساکشی مہاراج سے لے کر بہت سارے سادھو سنتوں تک کی طرف سے ، بار بار یہ آواز اٹھتی رہی ہے کہ ہندو عورتیں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں ۔ یوگی بھی ایک سنت ہی ہیں ، لیکن وہ کم بچے پیدا کرنے کا بل لا رہے ہیں ! ویسے سچ یہ ہے کہ ملک کی اٹھارہ ریاستوں میں آبادیوں کا گراف گھٹاہے ، آبادی کئی جگہ کم ہوتی جا رہی ہے ،اور یہ خطرہ ہے کہ اگر آبادی مزید گھٹی تو ملک میں کام کرنے والون کی قلت ہو سکتی ہے اور بوڑھوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
آبادی کنٹرول کی پالیسی کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ الیکشن جیتنے کے لیے یوگی کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے اس لیے وہ یہ پالیسی لے کر آئے ہیں ۔ بات کچھ سچ ہی ہے ، نہ ان کے راج میں یو پی کا وکاس ہوا ہے اور نہ ہی یو پی میں خوش حالی آئی ہے ، ہاں تباہی اور بربادی نے یو پی میں اپنے قدم خوب جمائے ہیں ۔ کورونا نے وہاں خاندان کے خاندان نیست و نابود کر دیے ہیں ، اس کی سب سے بڑی وجہ ، لوگ جانتے ہی ہیں اترا کھنڈ کا کنبھ میلہ رہا ہے ، یو پی اس معاملے میں اتراکھند کے ساتھ کھڑا تھا ۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس میلے کے لیے یوگی سرکار کا پورا تعاون تھا ، یوپی سے بڑی تعداد میں ، مطلب لاکھوں شردھالو کنبھ میلے میں شریک تھے اور جب یہ واپس آئے تو کورونا ساتھ لائے ، پھر لوگوں نے دیکھا کہ کیسے لاشیں جلانے کے لیے لکڑیاں تک نہیں بچیں اور لاشیں ندیوں میں پھینکنی پڑیں اور ریت میں دبانی پڑیں ۔ اب یوگی جی کانوڑ یاترا کو ہری جھنڈی دکھانے کے لیے بے چین ہیں ، ظاہر ہے کہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کا چکر ہے ، مگر وہ یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ وباء کے ان دنوں میں یہ یاترا لوگوں کے لیے مہلک ہی نہیں مہلک ترین ثابت ہو سکتی ہے ۔ ہندوں کی ایک بڑی اکثریت یوگی کے اس فیصلے کو مناسب نہیں سمجھ رہی ہے ، لیکن اندھیر نگری کے چوپٹ راجہ کو بھلا کوئی سمجھائے تو کیسے سمجھائے ! یوگی کا ایک اور ’کارنامہ‘ ہےجو ان دنوں موضوع گفتگو ہے ، ان کی پولیس نے اس القاعدہ تنظیم کے دو گرگے گرفتار کر لیے ہیں ، جو اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد بے وجود ہوگئی تھی ۔ اپوزیشن کے سیاست داں اسے بھی یو پی الیکشن میں کامیاب ہونے کے منصوبے کا ایک حصہ قرار دے رہے ہیں ، اور ان کے پاس اپنے اس الزام کی وجوہ ہیں ۔ پکڑے گئے تینوں افراد مسلمان ہیں ،منہاج ، نصیرالدین ، اور شکیل ، بعد میں مزید دو لوگ پکڑے گئے ، وہ بھی مسلمان ہیں ، محمد معید اور محمد مستقیم ، تنظیم کے نام القاعدہ اور انصار غزوة الہند بتائے گئے ہیں ، یعنی دو مسلم دہشت گرد تنظیمیں ، اور ان کے ساتھ انڈین مجاہدین کا نام بھی جوڑ دیا گیا ہے ، اب جب ایک ساتھ اتنے گاڑھے گاڑھے اسلامی نام آئیں گے تو اس ملک کے لوگوں کو یوگی جی کا شکر گزار بھی ہونا ہوگا اور نتیجتاً انہیں ووٹ بھی دینا ہوگا کہ انہوں نے اتنا بڑا دہشت گردانہ حملہ روک کر بے شمار لوگوں کو بچا لیا! لیکن یوگی انتظامیہ کچھ پریشان ہے کیونکہ ان گرفتاریوں پر سوال ابھی سے اٹھنے لگے ہیں ، پولیس کی کہانی کے جھول اور خامیاں ابھی سے سامنے آنے لگی ہیں ، جو اسکرپٹ بنائی گئی ہے اس کا استعمال اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے ۔ اس بار وہ لوگ بھی انگلیاں اٹھانے لگے ہیں جو پہلے کبھی انگلیاں نہیں اٹھاتے تھے ۔ کئی ٹی وی نیوز چینلوں نے اس بار گرفتار شدگان کے اہلِ خانہ کی باتیں بھی سامنے رکھی ہیں ، جن مییں ایک چینل ’آج تک ‘ بھی ہے ، ایڈوکیٹ محمد شعیب کی پریس کانفرنس کو بھی اچھا کوریج ملا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جو سرکار حق اور سچ کو دباتی چلی آ رہی ہو اگر اچانک اس پر انگلیاں اٹھنے لگیں تو وہ تو بوکھلا ہی جائے گی ، اور یوگی سرکار واقعی بوکھلائی ہی ہوئی ہے ۔